آزادکشمیر کے وزیر اعظم کی تبدیلی ،سردار تنویر الیاس بلامقابلہ وزیراعظم منتخب

یہ بات روز اول سے ہی واضح تھی کہ سرداعبدالقیوم نیازی کی وزارت عظمیٰ پی ٹی آئی کی داخلی کشمکش کو وقتی طو ر پرٹالنے کا ایک عارضی انتظام ہے ۔آزادکشمیر کے انتخابات سے پہلے ہی پی ٹی آئی میں وزارت عظمیٰ کی دوڑ شروع ہو چکی تھی اور پارٹی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سردار تنویر الیاس کے دوغیر اعلانیہ دھڑوں میں تقسیم نظر آچکی تھی ۔انتخابات کے بعد جب وزارت عظمیٰ کے لیے کسی ایک نام کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو یہ کشمکش کھل کر سامنے آگئی اور پارٹی کے سربراہ عمران خان کو بھی فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آنے لگی ۔پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سردار تنویر الیاس کی لابیاں بھی مضبوط تھیں اور کوئی بھی امیدوار وزرات عظمیٰ سے کم پر راضی نہ تھا۔ اس مشکل کا حل ڈھونڈنے کے لیے مرکزی قیادت نے تھرڈ آپشن اختیار کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سردار تنویر الیاس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے کمزو ر افراد کو انٹرویو کے لیے بلا کر شارٹ لسٹ کیا گیا ۔ان میں اظہر صادق ،انصر ابدالی اور عبدالقیوم نیازی شامل تھے ۔آخر کار وزرات عظمیٰ کے لیے قرعۂ فال عبدالقیوم نیازی کے نام نکلا۔عبدالقیوم نیازی وزیر اعظم تو بن گئے مگر ماضی کے امیدواروں کی نظریں ان کی کرسی پر بدستور جمی رہیں۔یوں ’’جی کا جانا ٹھہر گیا‘‘کا تاثر ایک سائے کی طرح ان کے اقتدار کے اوپر منڈلاتا رہا ۔گوکہ اس منصب کے اصل اور طاقتور امیدوار بیرسٹر سلطان محمود اورسردار تنویر الیاس بالترتیب صدر آزادکشمیر اور سینئر وزیر بن چکے تھے مگر طاقت کی کشمکش بدستور جاری تھی ۔سردار عبدالقیوم نیازی بھی یہ تاثر دور نہ کر سکے کہ وہ عارضی انتظام نہیں بلکہ آزادکشمیر کے مستقل وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔ عارضی وزیر اعظم کے تاثر کے باعث کابینہ پر ان کی گرفت قائم نہ ہو سکی اور ہر وزیر اپنی ذات میں ایک انجمن اور حکومت بن گیا ۔ان کی حکومت کو گرانے کے لئے درپردہ کھیل کبھی ایک لمحے کو بھی نہ رک سکا ۔وہ صرف عمران خان کے چنیدہ ہونے کی وجہ سے دن گزارتے رہے ۔ اپوزیشن نے انہیں حالات کے دریا کی لہروں کی زد میں آئے ہوئے دیکھا تو انہوںنے بھی عبدالقیوم نیازی پر کچھ اس انداز سے ڈورے ڈالنا شروع کیے کہ ان کے منظر سے ہٹنے کا پھل اپوزیشن کی گود میں جا گرے۔آخر کار نو ماہ بعد پردوں کے پیچھے چلنے والا کھیل اس وقت عیاں ہوا جب ان کی اپنی جماعت پی ٹی آئی نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی ۔اس سے پہلے اپوزیشن جماعتوں اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی پی ٹی آئی کی داخلی کشمکش سے فائدہ اُٹھانے کی منصوبہ بند ی کرنا شروع کر دی تھی ۔تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کا موقف تھا کہ اگر وہ خود پارٹی کی سطح پر تبدیلی کے لیے یہ قدم نہ اُٹھاتے تو اپوزیشن تحریک اعتماد پیش کر سکتی تھی ۔ایک تاثریہ بھی تھا کہ عبدالقیوم نیازی خود بھی اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سردار عبدالقیوم نیازی نے پارٹی کے سربراہ عمران خان سے بھی مدد مانگی مگر عمران خان نے انہیں استعفیٰ دینے کی بجائے داخلی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ ہونے کو کہا مگرسردار عبدالقیوم نیازی نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے کھیل ہی خراب کرنے میں عافیت جانی۔ انہوںنے چار وزرا اور ایک مشیر کی برطرفی کا حکم جاری کرنے کے کچھ گھنٹے بعد اپنا تحریری استعفیٰ صدر آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمو د اور پارٹی کے سربراہ عمران خان کو بھیج دیا ۔عبدالقیوم نیازی کے اقتدار کے نو ماہ بعد ہی آزادکشمیر میں ایک بار پھر وزیر اعظم کے انتخاب کا مرحلہ آن پہنچا ۔اب تحریک انصاف کی طرف سے سردار تنویر الیاس وزرات عظمیٰ کے امیدوار بنائے گئے اور اپوزیشن کی طرف اس ماحول میں’’ اپ سیٹ ‘‘کی خواہش پوری نہ ہوسکی ۔یوں سردار تنویر الیاس بلامقابلہ آزادکشمیر کے تیرہویں وزیر اعظم منتخب ہوگئے ۔اسلام آباد کے مشہور کاروباری مرکز بلو ایریا میں قائم سینٹورس مال کے مالک سردار تنویر الیاس پونچھ راولاکوٹ ایک کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔سردار تنویر الیاس آزادکشمیر کی روایتی’’ خاندان شاہی‘‘ کلاس سے باہر کے آدمی ہیں ۔اس لیے سردار تنویر الیاس کی اس انداز سے انٹری کو آزادکشمیر میں برسہا برس سے قائم باپ کے بعدبیٹا اور پوتا کی ’’خاندانی شاہی‘‘ کی آخری ہچکی ہی سمجھا جا رہا ہے ۔اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اس انتخاب کے بعد کیا واقعی آزادکشمیر کے عام آدمی کااقتدار کی راہداریوں میں گزر ممکن ہو سکے گا ؟یااقتدار کا کھیل یونہی نئے انداز سے جا ری رہے گا۔ڈائنسٹک پولیٹکس کی کمزوری کا فائدہ اس وقت تک معاشرے کو نہیں ہوسکتا جب تک طاقت کے کھیل میں عام آدمی شریک نہیں ہوتا اورطاقت کی جادونگری کے بند دروازے عام آدمی پر نہیں کھلتے ۔ عام آدمی پر طاقت کے دروازے بند رکھنے کے لئے تین دہائیوں سے بلدیاتی انتخابات ہی منعقد نہیں ہورہے کہ مبادا کوئی مڈل کلاس اور نیا شخص نچلی سطح سے اپنی قابلیت اور عوامی پزیرائی کی بنیاد آگے بڑھ کر اسمبلی تک پہنچے۔اس کوشش کا نتیجہ بھی پوری طرح منصوبہ بندی کرنے والوں کے حق میں نکلا ہے کہ سیاست میں وہی چہرے منظر پر چھائے ہوئے ہیں جن کی رونمائی اسی کی دہائی میں ہوئی تھی ۔نیاخون نئے چہرے مہروں سے عاری ایک نظام بس چل رہاہے اور چلتا چلا جا رہا ہے۔عوام کے شعور کے سفر کو ان ہتھکنڈوں سے روکا نہیں جا سکتا ۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج پاکستان کے طول وعرض میں بیداری لہر دکھائی نہ دیتی۔