ملک کے اندر اقتدار کی رسہ کشی،سیاسی افرا تفری و ہبڑ دھبڑ کے ان ایام میں دشمن نے امن و وحدت کے خلاف کوئی موقع جانے نہیں دیا ہے۔ رواں سال ماہ مارچ تک سیکورٹی فورسز سمیت ستانوے اہلکار جان کی بازی ہارچکے ہیں ۔سات اپریل کو افغان صوبہ نمروز سے ملحقہ پاکستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں سرحد کا فضائی جائزہ لینے والے ایک اعلیٰ فوجی افسر کے ہیلی کاپٹر پر افغان حدود سے فائرنگ ہوئی،خوش قسمتی سے کوئی نقصان نہ ہوا۔ 15اپریل2022ء کو شمالی وزیرستان کے مقام دتہ خیل میں پاک فوج قافلے پر کالعدم ٹی ٹی پی کے کارندوں کا حملہ ایک اور اضافہ ہے۔ جہاں سات جوان جان سے گئے۔ یقینا جوابی کارروائی میں حملہ آور مارے گئے اور ایک تعداد فرار ہوگئی۔دہشت گردوں کی کارروائیوں سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تلخی پیدا ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ بلا شبہ یہ گروہ یہی مقاصد رکھتے ہیں لہٰذا دونوں ممالک کوایسی نوبت نہ آنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی ۔دتہ خیل کے واقعہ کے بعد افغانستان کے صوبے کنڑ کے ضلع ’’شلتن ‘‘ اور صوبہ خوست کے ضلع ’’بسیرا‘‘ کے متعدد دیہات بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ ان صوبوں میں خیبر پشتونخوا کے قبائلی اضلاع سے نقل مکانی کرنے والے خاندان بھی سکونت رکھتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد قبائلی عوام نے گھر بار چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں قیام کیا۔ ایک بڑی تعداد میں خاندانوں نے خیبر پشتونخوا کے دوسرے علاقوں سمیت ملک کے دیگر شہروں میں رہائش اختیار کرلی۔ وہیں لوگ افغانستان بھی منتقل ہوئے۔ چناں چہ پاکستان بجا سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی وغیرہ گروہ افغان سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ واضح ہو کہ افغانستان پر روسی اور 20 سالہ امریکی غلبہ کے دوران پاکستان مخالف مسلح گروہوں کو کابل کی حکو متوں کی سرپرستی و پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ خاص کر بھارتی فوجی اور جاسوسی مقاصد و اہداف کے لئے افغان سرزمین کا آزادانہ استعمال ہوا ۔ جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں ہر طرح سے امریکا کا ساتھ دیا ،جس کے نتیجے میں افغان سرزمین جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ ہلاکت خیز حملوں کا نشانہ بنتی رہیں، بڑے پیمانے پر پشتون افغان مرد ،بچے اور عورتیں کٹی مریں، آبادیاں مسمار ہوئیں ۔ اورایک بار پھر وہاں کے لوگ ہجرتوں پر مجبور ہوئے ۔ امریکا نے کیا یہ کہ پاکستان کو بے دخل کرکے بھارت کو حصہ دار بنایا۔ چناں چہ پرویز مشرف رجیم کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑا ،جس کا خمیازہ ملک اور عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ امریکی و نیٹو افواج کے انخلا و بھارت کی بے دخلی ، اشرف غنی اور دوسرے امریکی کارپردازوں کے فرار کے بعد منظر نامہ یکسر تبدیل ہوا۔ مگر بد قسمتی سے نئی صورتحال سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ بلوچ عسکریت پسندوں کا معاملہ حل کرنے کی حکمت عملی اپنائی جاسکی نہ ٹی ٹی پی وغیرہ سے مذاکرات منطقی نتیجے پر پہنچ سکے۔ اس بارے میں بھی قطعی دو رائے نہیں کہ موجودہ کابل حکومت کسی بھی مسلح گروہ کی حمایت و تعاون نہیں کررہی ۔بلکہ اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی قبول کی ہے۔ ان گروہوں کو اب بھی بھارت کی کمک حاصل ہے۔ بلوچ شدت پسند ایران کی سرزمین بھی استعمال کررہے ہیں۔ ان سطور میں لکھا جاچکا ہے کہ رواں سال فروری میں ایران میں ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسند کمانڈروں کے درمیان پاکستان کے اندر مشترکہ کاررائیوں کی غرض سے اجلاس ہوا، گویا ان کے درمیان ہم کاری و روابط پیہم قائم کرائے گئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ ملاپ ہمسایہ ممالک کے جاسوسی اداروں کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اگران گروہوں سے بات چیت کویقینی نہ بنایا گیا تو آئندہ صورتحال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔ پہلی حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ کوئی ایسا اقدام سرزد نہ ہو کہ جس سے پاکستان اور افغانستان کے مابین نا چاقی و بد اعتمادی پیدا ہو ا ۔ حاضر وقت جب 16اپریل کو کنڑ اور خوست میں طیاروں کے ذریعے بمباری سے کابل اور اسلام آباد میں تلخی بڑھی ہے ۔ بتایا گیا کہ پچاس کے قریب لوگ مرے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ افغان حکومت نے کابل میں متعین پاکستان کے سفیر کو دفترخارجہ طلب کیا افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور دفاع کے نائب وزیر ملا شیرین اخوند نے انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ کابل حکومت نے اپنے اعلامیہ میں بھی حملوں کی مذمت کی ہے اسے افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت و احترام کے خلاف اقدام قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس ذیل میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اسی طرح پاکستان نے افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کیا ،افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود تمام دہشت گردوں کے خلاف کاروائی سخت کرے ،جو پاکستان کی سرحدی حفاظتی چوکیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ امریکا اور دوسری بڑی طاقتوں نے افغانستان بارے منافقانہ چال بازی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ امریکا کے ڈر سے دنیا افغان حکومت تسلیم نہیں کررہی ۔ پاکستان میں 22،23مارچ کو دو روزہ اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ اجلاس کے انعقاد پر پاکستان کے اندر سے پیپلز پاٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مشتبہ و متنازعہ بنانے کی کوشش کی جس نے یہ کہا کہ عمران خان نے کانفرنس کا اہتما م افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرانے کے لئے کیا ہے۔ اس سے ملک کی اعلیٰ قیادت کی ترجیحات اور سیاسی بلوغت کا اندازہ کیا جاسکتاہے !۔ اگر یہ نکتہ پیش نظر تھا تو اس سے اچھی بات اور پالیسی کیا ہوسکتی ہے ۔ کنڑ اور خوست حملوں کے خلاف افغانستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ کابل حکومت اگرچہ گوناگوں مسائل سے دوچار ہے مگر اسے بہر حال پاکستان مخالف مسلح گروہوں پر نظر رکھنی ہوگی وگرنہ دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوں گے، جس کا فائدہ لا محالہ تیسری اور چوتھی اور پانچویںقوت اٹھائے گی، امریکا کاافغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بیانیہ دراصل تخریب کے اشارے ہیں ۔وگرنہ یہ اپنی تسلط کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب رہا ہے۔ بلا شک یہ ممالک افغانستان میں شمال کے جنگجوئوں کی صف بندی کی نیت ر کھتے ہیں۔یعنی کابل حکومت کے پیش نظر یہ حساس پہلوبھی ہے ۔ یاد رہے کہ بلوچستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں۔ چمن میں باب دوستی کے قریب مسلح جھڑپیں ہوئیں ،جس میں دونوں جانب سے جانی نقصان بھی ہوا ۔ اس کے بعد چاغی کے علاقے برامچہ میں تین طالبان فائرنگ سے زخمی ہوئے جس کے بعد طالبان دوپاکستانی اہلکاروں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سات اپریل کو مذکورہ پاکستان کے فوجی ہیلی کاپٹر پر افغان حدود سے ہونے والی فائرنگ کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھی یہاں تک کے واقعہ پاکستان کے اندر بھی کشیدگی کا سبب بنا۔ پاکستانی اہلکاروں نے سرحد پر سختیاں شروع کردیں۔ پاکستان سے کھاد سمگل کرکے افغانستان لے جانے والی سینکڑوں گاڑیوں کو روکا ۔ ڈرائیور اور عملے کو پیدل واپس جانے کا کہا گیاجنہوں نے 50کلومیٹر ویران صحرائی راستہ بمشکل پیدل طے کرکے جانیں بچائیں۔ 14اپریل کو نہ رکنے پر ایک گاڑی پر فائر کھولا گیا جس سے ڈرائیور جاں بحق ہوا۔ لواحقین اور گاڑیوں کے ڈرائیور لاش لے کر نوکنڈی میں فورسز کے کیمپ کے سامنے پہنچے جہاں فورسز کے ساتھ تصادم ہوا۔ فائرنگ سے نو مظاہرین زخمی ہوئے ۔ اس کے بعد 18اپریل کو چاغی میں اسی طرز کا احتجاج ہوا اور فورسز اور مظاہرین آمنے سامنے آگئے اس تصادم میں بھی آٹھ افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔