کبھی میں نے سوچا نہ تھا، کہ مجھے ملیریا جیسی کسی شے سے یوں بھی واسطہ پڑے گا، یہ سالانہ چار لاکھ افراد کی جان لے لیتا ہے، زیادہ تر بچے ہوتے ہیں، اورگیٹس فاؤنڈیشن اس کے خاتمہ کے لیے عالمی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔مجھے یہ جان کر بھی تعجب ہوا کہ ملیریا ہماری فضا میں درجہ حرارت کا توازنair-conditioning قائم رکھنے میں کس طرح معاون ثابت ہواہے۔ انسان گرمی سے بچنے کی تگ و دو ہزار سال سے کررہے ہیں۔ قدیم فارس کی عمارتیں اس طرز پر تعمیر کی جاتی تھیں کہ ہوا کا گزر آسان ہو، داخلی حصوں میں درجہ حرارت متناسب رہے۔ تاہم پہلی معلوم مشین جوٹھنڈی ہوا مہیا کرتی تھی، سن1840کی دہائی میں جون گوری نے ایجاد کی تھی، ایک فزیشن جو فلوریڈا میں پریکٹس کررہا تھا، اور سمجھتا تھا کہ ٹھنڈا ماحول ملیریا کے مریضوں کے علاج میں معاون ثابت ہوگا۔
اس وقت، بڑے پیمانے پر یقین کیا جاتا تھا، کہ ملیریا کسی پیرا سائیٹ کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ ہم آج جانتے ہیں کہ یہی اصل سبب ہے۔اُس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ ملیریا گندی ہوا(جیساکہ اس کے نام mal-ariaسے ظاہر ہے)سے نشوونما پاتا ہے۔ گوری نے ایک ڈیوائس بنائی، جواُس کے وارڈ سے گرم ہوا خارج کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ چھت سے ایک برف کا بڑا ٹکڑا لٹکادیاجاتا تھا،جوماحول کی گرمی کچھ کم کردیتا تھا۔ ڈیوائس یہ برف تیار کرتی تھی۔برف کے حصول کی دوسری صورت یہ تھی کہ شمال سے درآمد کرنی پڑتی تھی، اور وہ بہت مہنگی پڑتی تھی۔ گوری نے اپنی اس ڈیوائس کی مارکیٹنگ کی مگر مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہوا۔ گوری کسمپرسی کی حالت میں سن 1855میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔
بہرکیف، گوری کا یہ آئڈیا زندہ رہ گیا۔ ائیر کنڈیشنگ کی دوسری بڑی کوشش 1902میں انجینئیرولزکیرئیر نے کی، جب اُس کے آجر نے اُسے نیویارک یہ جاننے کے لیے بھیجا کہ کس طرح میگزین کے صفحات پرنٹنگ کے دوران شکنوں سے محفوظ رکھے جاسکتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ شکنیں ہوا میں نمی کے بہت زیادہ تناسب کی وجہ سے پڑتی ہیں۔ کیرئیر نے ایک مشین بنائی جس سے ہوا میں نمی کم کی جاسکتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ کمرہ کا درجہ حرارت بھی گھٹایا جاسکتا تھا۔ وہ اس وقت خودائیر کنڈیشنگ کونہیں جانتا تھا، مگر وہ اس کی بنا ڈال چکا تھا۔ وہ ائیر کنڈیشنگ صنعت کی بنیاد رکھ چکا تھا۔
پہلے اے سی یونٹ کی تنصیب کے ایک صدی بعدہی، نوے فیصد امریکی گھرانوں میں کسی نہ کسی قسم کا ائیر کنڈیشنر استعمال کیا جارہا تھا۔ اگر آپ نے کبھی کسی بند اسٹیڈیم میں کونسرٹ یا کھیل دیکھا ہو، یقینا ائیر کنڈیشنگ کا یہ نظام قابل ستائش ہے۔
آج یہ تصور کرنا محال ہے کہ فلوریڈا اور ایریزوناجیسے علاقے بغیرائیر کنڈیشنرز پرکشش جائے قیام قرار کہلائے جاسکیں۔ ائیر کنڈیشنگ اب کوئی غیر معمولی سہولت نہیں رہی ، کہ جوگرمی کے دنوں کوقابل برداشت بنارہی ہے۔ جدید معیشت کا اس پرکافی کچھ انحصار ہے۔ مثال کے طورپرسرور فارمز میں ہزاروں کمپیوٹرزآج کے کمپیوٹنگ نظام کوممکن بناتے ہیں، یہ بہت بڑی مقدار میں حرارت خارج کرتے ہیں۔ اگرانہیں ٹھنڈا نہ رکھاجائے توپگھل جائیں۔ .اگر آپ کسی امریکی مکان میں رہیں تودیکھیں گے کہ ، ائیرکنڈیشنر باقی بہت سے آلات کی نسبت زیادہ بجلی استعمال کرے گا۔ اگرچہ اے سی یونٹس بہت بجلی مانگتے ہیں، مگر پھر بھی یہ گھروں اور کاروباروں میں سب سے زیادہ توانائی صرف نہیں کرتے۔ یہ اعزازبڑے تنوروں اور واٹر ہیٹرزکو جاتا ہے۔
ٹھنڈی ہوا کی چاہت میں امریکی تنہا نہیں ۔ دنیا بھر میں1.6بلین اے سی یونٹس استعمال میں ہیں، مگر یہ سہولت مساوی نہیں ہے۔ گرم ترین ملکوں میںکہ جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہے، اے سی کا استعمال دس فیصد سے بھی کم ہے۔
ائیرکنڈیشنراب تک سفر میں ہے۔ چند ملکوں میں اکثر گھرانے ائیر کنڈیشنرز استعمال کرتے ہیں۔ مگر دیگر ملکوں میں یہ عام نہیں۔ آنے والی دہائیوں میں بہت سے امیر ملکوں میں گرمی بڑھے گی اور اے سی کی خرید وفروخت اور استعمال بڑھے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی، اے سی یونٹس کی تعداد بڑھے گی۔ چین نے2007 اور 2017کے درمیان 35 کروڑ اے سی یونٹس ریاستی نظام میں شامل کیے، اور وہ اس وقت ائیر کنڈیشنر کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ دنیا بھر میں ائیر کنڈیشنر کی فروخت 15 فیصد بڑھی ہے۔ برازیل، بھارت، انڈونیشیا، اور میکسیکو سب سے بڑے صارف بن کر سامنے آرہے ہیں۔سن 2050تک، دنیا بھر میں 5 بلین اے سی یونٹس کام کررہے ہوں گے۔
کیسی تلخ حقیقت ہے کہ گرمی سے بچنے کے لیے ہم جوائیر کنڈیشنرزاستعمال کررہے ہیں، یہ بدلتے موسم کا مزاج مزید بگاڑ سکتے ہیں۔ بہر حال،ائیر کنڈیشنرزبجلی پر چلتے ہیں، جتنے زیادہ اے سی نصب کیے جائیں گے، اتنی زیادہ بجلی مزید پیدا کرنی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی پراجیکٹس کہتے ہیں، کہ دنیا بھر میں کولنگ (ٹھنڈک) کے لیے سن 2050تک بجلی کی مانگ تین گنا بڑھ جائے گی۔ اس مرحلہ پر، ائیر کنڈیشنرز دنیا بھر میں اُتنی بجلی صرف کریں گے، کہ جتنی بجلی اس وقت اس مد میں چین اور ہندوستان خرچ کررہے ہیں۔
یہ سارا عمل اُن لوگوں کے لیے بہت خوشگوار ہوگا جوگرمی کی لہروں کا سامنا کرتے ہیں، مگرماحولیات کے لیے بہت برا ہوگا۔ کیونکہ بیشتر دنیا میں بجلی پیدا کرنے کا مطلب کاربن کا اخراج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوبجلی عمارتوں میں ائیرکنڈیشننگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے، وہ گرین ہاؤس گیسوں کے تقریبا چودہ فیصد کی شراکت دار ہے۔
یہ سادہ حقیقت ہے کہ ائیر کنڈیشننگ بجلی پر انحصارکرتی ہے، اس لیے اس کا گرین پریمئم شمار کرنا آسان ہے۔ ائیر کنڈیشنرز کوکاربن سے آزاد کرنے کے لیے ،ہمیں پاور گرڈز کوکاربن سے نجات دلانی ہوگی، اس کے لیے ہمیں بجلی کی پیداوار اور ذخیرہ اندوزی کے نئے طریقے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ کاربن اخراج ہوتا رہے گا۔ ہم اس شیطانی چکر ہی میں پھنسے رہ جائیں گے، ہمارے دفاتر اور گھر ٹھنڈے ہوتے رہیں گے اور ماحولیات گرم سے گرم ہوتی چلی جائے گی۔ خوش قسمتی سے ہمیں جدتوں کے انتظار کی ضرورت نہیں۔ ہم اس وقت بھی ائیر کنڈیشنرز کے لیے ضروری بجلی میں کمی لاسکتے ہیں، اور کاربن اخراج گھٹا سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے ہمیں کسی تکنیکی رکاوٹ کا سامنا بھی نہیں ہے۔ دنیا آسانی سے اے سی یونٹس کی کارکردگی اور معیار دگنا کرسکتی ہے، یہ پیشرفت کولنگ کی مانگ نصف صدی تک 45 فیصد گھٹا سکتی ہے۔
بدقسمتی سے، ائیرکنڈیشنرزصرف بجلی ہی صرف نہیں کرتے، یہ ریفرجرینٹس کے حامل بھی ہوتے ہیں، جنہیں ایف گیسزبھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں فلورین شامل ہوتی ہے۔ یہ دھیر ے دھیرے خارج ہوتی رہتی ہے۔ایف گیسز بدلتے موسم پرپوری قوت سے اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک صدی کے دوران یہ ماحولیات پرعام کاربن کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ مضر اثرات ڈال چکی ہے۔ مگر بد قسمتی سے اس کا خاص نوٹس نہیں لیا گیا۔ ایک سو ستانوے ملکوں نے نصف صدی تک80 فیصد ایف گیسز گھٹانے کا عزم کیا ہے۔ یہ عزم پورا کیا جاسکتا ہے۔ ان ملکوں کی کمپنیاں ائیر کنڈیشنرز کی تیاری میں جدتیں لارہی ہیں، نئے طریقوں پر تیزی سے کام کیے جارہے ہیں۔
(جاری ہے)