’’آخری گیند تک لڑوں گا، سرپرائز دوں گا اور اچکنیں لٹکی ہی رہ جائیں گی‘‘ اس بلند و بانگ دعوئوں کے ساتھ تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان اپنی ڈائری لہراتے ہوئے وزیراعظم ہائوس چھوڑ گئے۔ ان کے پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر علی محمد خان یہ چنگھاڑتے ہوئے ایوان سے نکل گئے کہ عمران خان دوبارہ آئے گا، اس سیٹ پر آئے گا اور دو تہائی اکثریت کے ساتھ واپس آئے گا۔ اسپیکر اسد قیصر کے استعفیٰ کے باوجود عمران خان 174 ووٹوں کے ساتھ عدم اعتماد کا شکار ہوئے اور ان کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے اس اعلان کے باوجود کہ ان کا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ وہ اب (عدم اعتماد کے بعد) ایوان کی کارروائی چلائیں، شہباز شریف 174 ووٹوں کے ساتھ پاکستان کے 25 ویں وزیراعظم بن گئے، اور ’’ہمیں یقین ہے کہ رستہ یہیں سے نکلے گا‘‘ کا نعرہ لگاتے، اپنی کمزور بیساکھیوں کا بار بار شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی سے وزارت عظمیٰ کا حلف لے لیا، کیونکہ صدر عارف علوی نے علالت کا جواز پیش کرکے حلف لینے سے عملاً انکار کردیا تھا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے عدم اعتماد کی تحریک کی بازگشت کے دنوں ہی میں یہ بات نوٹ کرادی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہویا ناکام ملک کا سیاسی و معاشی بحران شدید تر ہوجائے گا اور متحدہ اپوزیشن کی جو حکومت بنے گی وہ بہت جلد انتشار کا شکار ہوجائے گی۔ ہم نے یہ بھی یاد کرایا تھا کہ یہ سارا کام اسکرپٹ کے مطابق مکمل ہونا ہے اور اس اسکرپٹ کے پیچھے ہماری اسٹیبلشمنٹ موجود ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ابتدا میں اپوزیشن جماعتیں خود تسلیم کرتی تھیں کہ عمران حکومت کو ایک کمزور نالائق اور منتشر اپوزیشن ملی ہے۔ چنانچہ تین سال تک وہ بیان بازی سے زیادہ کچھ نہ کرسکی۔ اپوزیشن جماعتوں نے تین سال بعد جب متحدہ پی ڈی ایم بنائی تو ابتدا ہی میں پیپلزپارٹی اور اے این پی اس سے باہر آگئی۔ لیکن جب اسٹیبلشمنٹ نے جنوری کے قریب اپوزیشن کو آسرا دیا تو یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی دل و جان سے اس کے ساتھ آگئیں۔
جنوری کے قریب جب عدم اعتماد کا شور و غوغا منظم شکل اختیار کرنے لگا، خود اسٹیبلشمنٹ کا رول بھی واضح ہونے لگا، جب اپوزیشن نے شدید احتجاج تو کہنا شروع کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے اور ہمیں اب کہیں سے کوئی فون یا اشارہ نہیں مل رہا۔ تاہم اس کا کھل کر اظہار چوہدری اعزاز احسن نے یہ کہہ کر کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اب ہمارے ساتھ ہے۔ دوسری جانب شیخ رشید احمد جو پہلے دن سے کہہ کررہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے، اچانک انہوں نے اپنے اس جملے کو اس طرح بدل لیا کہ اسٹیبلشمنٹ ریاست کے ساتھ تو ہے، اسٹیبلشمنٹ کے بدلے ہوئے رویہ کا عمران خان کو بھی اندازہ ہوگیا تھا، کیونکہ جنرل فیض حمید کے تبادلے کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان پہلے سے موجود فاصلے کھل کر سامنے آچکا تھا۔ چنانچہ عمران خان نے امریکہ میں پاکستانی سفارت کار عابد مجید کی وہ کیبل پبلک جلسے میں لہرا کراعلان کردیا کہ ایک غیر ملک ہمارے ملک میں حکومت تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی یا سازش کررہا ہے، جسے پہلے اپوزیشن نے جعلی کھیل قرار دیا اور کہاکہ یہ خود سفارت کار سے منگوائی گئی ہے، اگرچہ اب نئے وزیراعظم اس خط (کھیل) کو پارلیمنٹ کی سیکورٹی کمیٹی کے حوالے کرکے تحقیقات کرانے کا اعلان کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک امریکی عہدیدار کی گفتگو جسے پاکستانی سفارت کار نے اپنی وزارت خارجہ کو بھیجا ہے، اس طرح کی کیبلز سفارتکار بھیجتے رہتے ہیں لیکن اس گفتگو میں ایک طرح کی سنگینی کا ہلکا سا عنصر موجود تھا، اگرچہ یہ کیبل عمران خان نے خود کہہ کر منگوائی کب تھی، اس کی صداقت پرانکار ممکن نہیں تھا کیونکہ سفارتکار نے اپنے افسران کو اس سے آگاہ کیا ہوگا، انہوں نے یہ سب کچھ کھیل بناکر گویا امریکی عہدیدار کی قابل اعتراض گفتگو تو ایک حقیقت تھی، پاکستانی سفارتکار کوئی من گھڑت کہانی تو امریکی عہدار سے منسوب کرکے بھیجنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ بعدمیں اس کھیل کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی بحث کا موضوع بن گیا۔ اس کھیل کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کی تو پاکستان میں ایک طوفان آگیا جو اسکرپٹ کا حصہ تھا۔ سپریم کورٹ نے شاید چھٹی کے دن اور رات گئے بنچ بناکر اس معاملہ کا ازخود نوٹس لے لیا اور اس معاملے میں کسی فریق کی طرف سے درخواست کا بس انتظار نہ کیا، تاہم اس معاملہ پر حکم امتناعی جاری کیا۔ پانچ دن کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اس کھیل کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بعد کے باقی اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ میڈیا کے ایک بڑے حصے نے اس فیصلے کو آئین اور قانون کی بالادستی اور نظریہ ضرورت کو دفن کرنے جیسے القابات سے موسوم کیا۔ تاہم یہ فیصلے بہت جلد متنازع ہوگیا، وزیراعظم عمران خان نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا، ان کی جماعت جو اس وقت ووٹوں اور سیٹوں کے اعتبار سے سب سے بڑی جماعت ہے نے اس فیصلہ پر عدم اطمینان کیا۔ اتوار کی رات عمران خان کی اپیل پر ملک بھر میں لاکھوں افراد نے جو احتجاج کیا اس کے دوران اس فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
کیونکہ ڈپٹی اسپیکر نے جس سفارتی کھیل کی بنیاد پر رولنگ دی تھی عدالت نے وہ کیبل منگوائی اور نہ اسے دیکھنے کی زحمت گوارا کی، جس ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی تھی اس عدالت میں طلب کرکے اس کا بیان بھی نہیں لیا، عدالت نے بلاول بھٹو اور شہباز شریف کے بیانات تو ریکارڈ کئے لیکن اس سارے معاملے کے متاثرہ یا فائدہ اٹھانے والے فریق عمران خان کا بھی بیان لینا ضرور نہ سمجھا۔ بلکہ پارلیمان کو ایک مقررہ دن اور مقررہ وقت میں عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے اور نئے قائد ایوان کا انتخاب کرانے کا بھی پابند کردیا جیسے بہت سے حلقوں نے پارلیمانی معاملات میں مداخلت اور پارلیمان کی بالادستی کے خاتمے سے تعبیر کیا گیا، جس کی بازگشت قومی اسمبلی کے ایوان میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے ذریعے بھی سنی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس روز عدالت عظمیٰ کے حکم پر پارلیمنٹ اجلاس جاری تھا یہ اتوار کا دن تھا حکومتی وکلا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف 12 بجے دن اپنی اپیل دائر کرنے کی کوشش کی جو سپریم کورٹ آفس نے چھٹی کے باعث نہیں لی تاہم اسی روز جب آخری لمحات میں تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہورہی تھی اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دفاتر رات گئے کھول دیئے گئے تاکہ کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جاسکے۔ بہرحال معزز عدالت کے
فیصلے کو سب نے تسلیم کرلیا کہ اس کے حکم کے مطابق نئے وزیراعظم کا انتخاب کرلیا گیا، جنہوں نے حلف اٹھا کر جو پہلی تقریر کی ہے ایم کیو ایم نے اس پر اعتراض اٹھایا ہے کہ اس تقریر میں ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی معاہدے کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم رہنما جناب وسیم اختر کے ریماکس مسلسل میڈیا پر چل رہے تھے۔
نئی صورت حال میں شہباز شریف مہنگائی اور بری حکمرانی کو سب سے پہلے کنٹرول چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے مطالبہ کیا ہے کہ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور تحریک انصاف کے وزرا کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ چلنا چاہئے، انہوں نے نیب نازی گٹھ جوڑ اور نیازی گوگی (فرح) گٹھ جوڑ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ابھی بلوچستان کے رہنما لاپتہ افراد کے مسئلہ کو اٹھانا چاہیںگے، بلکہ تحریک انصاف اپنا کیس عوام کی عدالت میں لے آئی ہے، اتوار کو بہت کامیاب احتجاج کے بعد اب 13 اپریل کو عمران خان پشاور اور 16 اپریل کو کراچی میں جلسے کرنے جارہے ہیں جبکہ 15کو پیپلزپارٹی نے کراچی میں یوم فتح آئین منانے کا اعلان کیا ہے، اس صورت حال میں ایک طرف تصادم کا خدشہ بڑھ رہا ہے دوسری جانب نئی حکومت اپنے ہی ساتھیوں کے دبائو کا شکار رہے گی۔ کابینہ بنانے کے معاملے پر بھی اختلاف کیوں ہے، اس لئے اگلے چند ماہ سب کے لئے پریشان کن ہوں گے، دیکھنا یہ بھی ہے کہ عمران خان بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کرے گا یا نہیں۔