”الخدمت آغوش“

آغوش، جہاں سکون کا احساس ہوتا ہے، جہاں زندگی کا گمان ہوتا ہے، جہاں انسان اپنے وجود کو محسوس کرتا ہے۔ آغوش درحقیقت حیات کا استعارہ ہے۔ سانسوں کا سہارا اور امید کا ستارہ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں آغوش مادر اور والد کا سائبان میسر ہے۔ دھوپ اوربارش، آندھی اور طوفان الغرض زندگی کے نشیب و فراز میں منزل کے حصول کا واحد ذریعہ ہی یہ دونوں ہیں۔ ماں کی آغوش کی ضرورت تو عمر کے ہر حصے میں ہوتی ہے۔ بچپن میں زمانے کا ڈر آغوش مادر میں سر رکھنے سے دور ہوجاتا ہے جبکہ جوانی میں کام کی تھکن ماں کے سامنے سر جھکانے سے ہی دور ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی احساس شفقت پدری میں بھی پایا جاتا ہے۔
آغوش مادر اور شفقتِ پدری سے محرومی کا تصور ہی جان لیوا ہے۔ لیکن وطن عزیز پاکستان میں 42 لاکھ سے زائد بچے باپ کے سایے سے محروم ہیں اور کم و بیش اتنی ہی تعداد ایسے بچوں کی بھی ہے جنہیں ماں کی آغوش میسر نہیں۔ یہ بچے احساس محرومی میں مبتلا زمانے کی بے رحم ٹھوکروں پرزخم کھاتے آگے بڑھتے ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر تو دوڑتی زندگی کی گرد میں ایسے گم ہوجاتے ہیں کہ انہیں تلاش کرنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے۔ایسے ہی ہزاروں بچوں کو زندگی کا چین، زمانے سے مقابلہ کرنے کا ہنر سکھانے، آگے بڑھنے کی لگن پروان چڑھانے کے لیے اسی معاشرے کچھ مخیر حضرات کوشاں ہیں۔
ان باہمت بچوں کو کندن بنانے کابیڑا الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان نے اٹھا رکھا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن حضرت موسیٰ وخضر کی روایات کی امین ہے، جو معاشرے کے باہمت بچوں کے مقدر کی گری ہوئی دیوار کو تعمیر کرکے ان کی امیدوں، خوابوں کو آغوش کے قلعے میں محفوظ بناتے ہیں، اس قلعے میں اپنے چمن پاکستان کی کلیوں کی نگہداشت کی جاتی ہے، انہیں موسم کی سختیوں سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کفالت یتامیٰ پرو گرام میں جہاں17,867ہزاریتیم بچوں کی کفالت ان کے گھروں پر کر رہی ہے وہیں اس وقت ملک بھر میں قائم 18آغوش سینٹرز میں 1ہزار414باہمت بچوں کی پرورش کی جارہی ہے۔
الخدمت کے سب سے بڑے منصوبے ’’الخدمت آغوش‘‘ کا آغاز 2005اس وقت کیا گیا جب پاکستان میں زمین کی جنبش نے کئی ہنستے مسکراتے بچوں کو احساس محرومی میں مبتلا کردیا، جب ہزاروں بچوں سے ان کے والدین بچھڑ گئے۔ ہزاروں بچے ایک عجیب ذہنی کشمکش، اضطراب اور خوف کا شکار تھے، ایسے میں ان بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ تھا۔ معاشرہ ان کے استحصال کے لیے تیار تھا مگر الخدمت فاؤنڈیشن جو زلزلہ کے بعد ریسکیو اور ریلیف کے کاموں میں مصروف تھی، اسے ان بچوں کے مسائل کا فوری ادراک ہوا۔ ان بچوں کو ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت فراہم کرنے کا تصور آغوش کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اٹک میں آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے یتیم بچوں کے لیے ایک خوبصورت آشیانے کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ابتدا میں 200یتیم بچوں کو آغوش اقامتی مرکز میں رکھا گیا۔ والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت، صحت، نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کیاگیا۔اس وقت الخدمت اٹک سے فارغ التحصیل 200بچے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ آغوش ایک منصوبہ ہی نہیں بلکہ حقیقت میں یتیم بچوں کے لیے ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، بہنوں اور بھائیوں کے پیار کا نمونہ ہے۔ یہ وہ آغوش ہے جہاں یتیم بچوں کو گھر سے دور رہ کر بھی گھر سے دوری کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ منصوبہ ایک عمارت سے شروع کیا گیا تھا، مگر پاکستان کے مخیر حضرات کے تعاون سے اس کی جڑیں نہ صرف پاکستان کے طول و عرض میں پھیل چکی ہیں۔بلکہ اب اس کا دائرہ کارترکی میں شام کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے یتیم بچوں کے لیے بھی ایک عالی شان آغوش سینٹر مکمل ہوچکا ہے۔
آغوش کا تصورماں کی آغوش سے لیا گیا۔ بظاہر ایک عمارت دکھائی دینے والا آغوش سینٹر درحقیقت ہزاروں یتیم بچوں کے لیے ماں کی ممتا، باپ کی شفقت سمیٹے ہوئے ہے۔ جہاں بچوں کی تعلیمی و تربیت کے لیے تعلیم یافتہ انتظامی عملہ ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔ جہاں بچے اپنے شب وروز طے شدہ طریقہ کار کے مطابق گزارتے ہیں۔ جہاں علی الصبح بیدار ہونے سے رات سوتے وقت تک ایک ایک قدم پر بچوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ جنہیں معاشرے کے دیگر بچوں کی طرح بہترین تعلیمی سہولیات سے مزین سکول میں تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کا ایسا بہترین انتظام موجود ہے کہ دیکھنے والے ششدر رہ جاتے ہیں۔ یقین جانیے کہ ایسا بہترین نظام تو شاید معاشرے کے دیگر بچوں کو بھی میسر نہ ہو۔ یہی نہیں بلکہ آغوش الخدمت میں ماہانہ طبی معائنہ، کمپیوٹر لیب، لائبریری،سپورٹس گراؤنڈ، ان ڈور گیمز اوربچوں کی نفسیاتی نشو ونما کے لیے مختلف لیکچرز اور تعلیمی دوروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔آغوش سینٹرز درحقیقت سینکٹروں باہمت بچوں کے لیے ایک تحفہ ہے، جو الخدمت فاؤنڈیشن انہیں دے رہی ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن کا شیخوپورہ میں قائم آغوش سینٹر پاکستانیوں کی فیاضی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے رویوں کا عکاس ہے۔ اس عظیم سینٹر کیلئے ایک خدا ترس بزرگ شیخ افضل نے اپنی 136 کینال اراضی آغوش سینٹر کے لیے وقف کردی، یہ سینٹر دیگر مراکزسے اس لیے مختلف ہے کیونکہ باہمت بچوں کے لیے جدید ترین تعلیمی ادارہ، فائیو سٹار رہائشی سہولیات، کھیل کا میدان، پارک اور دیگر سہولیات ایک ہی چار دیواری میں موجود ہیں جبکہ اسی آغوش سینٹر کے ساتھ 200 یتیم بچیوں کے لیے بھی آغوش قائم ہے۔یہی نہیں بلکہ اس آغوش سینیٹر کے ساتھ زرعی اراضی بھی موجود ہے، جہاں انہی بچوں کے لیے آرگینک فصلیں تیار کی جاتی ہے۔
آغوش ہالا میں ابتدائی طورپر50بچوں کو اقامتی سہولیات دی گئی ہیں تاہم اس مرکز میں 200بچوں کی گنجائش ہے۔سندھ میں الخدمت فاونڈیشن کے آغوش سینٹر کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ٹنڈو اللہ یار میں مقامی این جی او نے آرفن ایج ہوم بنا کر الخدمت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔مری کا سٹیٹ آف دی آرٹ آغوش سینٹر الخدمت فاؤنڈیشن کا ایک قابل فخر کارنامہ ہے،لارنس کالج کی طرز پر قائم اس عظیم الشان سینٹر کو بین الاقوامی معیارات کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ اس وقت اٹک، اسلام آباد (طالبات)،راولپنڈی،راولاکوٹ، باغ، پشاور، لوئردیر، ڈیرہ اسماعیل خان، مانسہرہ،ہری پور،چترال،کوہاٹ، گوجرانوالہ اور کراچی کے آغوش سینٹرز میں 14سو سے زائد باہمت بچے اور بچیاں قیام پذیر ہیں۔مستقبل قریب میں خوشبو کا یہ سفرلاہور،ڈیرہ اسماعیل خان،بونیر اور گلگت بلتستان تک پہنچ جائے گا، جہاں پر آغوش سینٹرز کی تعمیر کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن محبت کے اس گلشن کا دائرہ کار فیصل آباد، باجوڑ، چارسدہ، آزاد کشمیر،
بھیرہ، رشیدآباد، پشاور، مری اور ساتھ ساتھ کابل(افغانستان)تک بڑھانا چاہتی ہے، اپنی دھن میں مگن الخدمت رضا کار اس مشن میں بھی ضرور کامیاب ہوں گے، کیونکہ انہیں جہاں اپنے جنون اور ہمت پر بھروسہ ہے، وہیں انہیں اہل وطن کے اخلاص اور محبت پر بھی مکمل اعتبار ہے۔
کراچی سے خیبر اور گلگت سے گوادر تک الخدمت آغوش سینٹرز کا قیام اہل پاکستان کی فیاضی کا ایک نمونہ ہے، کیونکہ اہل وطن کے تعاون کے بغیر اس عظیم منصوبے کی تکمیل مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ جہاں ایک ایک سینٹر کی تعمیر پر کروڑوں کے اخراجات آتے ہیں۔ جہاں ایک بچے پر ماہانہ15 ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں، جہاں ایک سال میں صرف ایک بچے پر 1 لاکھ 80 ہزار کی خطیر رقم خرچ ہوتی ہو۔وہاں ایک ادارہ بھلا کیسے ہزاروں پھولوں کو مرجھانے سے بچا سکتا ہے؟ بحیثیت مسلمان ہم احکام خداوندی اور نبی رحمت ﷺ کے فرمودات پر چلتے ہیں، قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں یتیم بچوں سے شفقت سے پیش آنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ جن گھرانوں میں یتیم بچے ہیں وہ گھربڑے ہی قابل احترام ہوتے ہیں، ان پر رزق اور خیر و برکت کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔
رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں ہم پر سایہ فگن ہیں، ایسے میں ملک بھر کے 50 لاکھ یتیم بچے بھی میری اور آپ کی مدد کے منتظر ہیں، آئیے آگے بڑھتے ہیں، ان یتیم بچوں کو اپناتے ہیں تاکہ جنت کا حصول اور شفقت رسول ﷺ میسر آسکے۔