’’باقیاتِ اقبال‘‘ کی پہلی بار اشاعت انجمنِ ترقیِ اردو کے روحِ رواں مولوی عبدالحق کے مشورے اور سر عبدالقادر کے اصرار پر 1952ء میں ممکن ہوئی۔ اس مجموعے کی جمع و ترتیب میں سید عبدالواحد مرحوم نے کس قدر محنت اور عرق ریزی سے کام لیا اس کا اندازہ اُن کے ’پیش لفظ‘ کی ان سطور سے بخوبی کیا جا سکتا ہے:
’’اس مختصر مجموعے میں حضرت اقبالؒ کے اُس کلام کو شائع کیا جارہا ہے جو اُن کی مطبوعہ تصانیف میں نہیں ہے۔ مدتوں علامہ مرحوم کا یہ دستور رہا کہ جب کوئی نظم لکھتے تو اس کو کسی رسالے میں اشاعت کے لیے بھجوا دیتے، یا کسی دوست کو دے دیتے۔ جب علامہ کو اردو کلام کے پہلے کلیات کے شائع کرنے کا خیال آیا تو جو نظمیں بہ آسانی دستیاب ہوسکیں، یا جو اُن کو یاد تھیں صرف وہی نظمیں اس میں شامل کردی گئیں۔ ’بانگِ درا‘ کی اشاعت سے پہلے اکثر عقیدت مندانِ اقبال کا یہ دستور تھا کہ جب علامہ مرحوم کا کلام کسی رسالے میں شائع ہوتا تو اس کو جمع کرلیتے۔ علامہ کا بیش تر کلام ’مخزن‘ اور ’زمیندار‘ میں شائع ہوتا تھا، مگر کبھی کبھی پنجاب کے دوسرے اخبارات میں بھی شائع ہوجاتا تھا۔ غرضیکہ اس کلام کا جمع کرنا آسان نہ تھا۔ مگر دل دادگانِ اقبالؒ کا خاصا ذخیرہ موجود تھا۔ اس میں سے ایک شیخ عبدالحمید صاحب ایم۔ اے علی گڑھ میں طالب علم تھے۔ اُن کے پاس علامہ مرحوم کے کلام کا ایک نایاب مجموعہ تھا۔ شیخ صاحب بڑی دریا دلی سے دوستوں کو اس مجموعے سے استفادے کا موقع دیا کرتے تھے۔ دوسرے صاحب مولوی عبدالرزاق حیدرآبادی ہیں۔ اُن کو علامہ کے کلام سے عشق تھا۔ عبدالرزاق صاحب نے بعد میں اپنا مجموعہ ’’کلیاتِ اقبال‘‘ کے نام سے شائع کردیا۔ میں نے عبدالرزاق صاحب کے مشورے اور اُن کے مرتبہ کلیات سے بھی پورا فائدہ اٹھایا۔ جب میں سری نگر گیا تو وہاں منشی سراج الدین مرحوم کی ضخیم بیاضوں میں علامہ کی بہت سی غیر مطبوعہ نظمیں ملیں۔ منشی صاحب کو قدرت نے شعر و سخن کا عجیب ذوق عطا کیا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہے سری نگر اُن کی وجہ سے ایک ادبی مرکز بنا رہا۔ علامہ مرحوم سے اُن کے نہایت دوستانہ تعلقات تھے اور خط کتابت رہتی تھی۔ علامہ اُن کو اکثر اپنا کلام بھیجتے رہتے تھے۔ منشی صاحب ان خطوط کو، جن میں علامہ کا کلام ہوتا تھا، نہایت احتیاط سے بیاض میں چسپاں کرکے رکھ لیا کرتے تھے۔ عالی جناب دین محمد صاحب گورنر سندھ نے بھی میری رہنمائی فرمائی۔ دین محمد صاحب علامہ مرحوم کے دوستوں میں سے ہیں اور اُن کو علامہ کا بیش تر کلام حفظ ہے۔ حیدرآباد دکن میں بعض احباب نے میری مدد فرمائی، اور ڈاکٹر محی الدین صاحب زورؔ کے نایاب کتب خانے سے بے حد مدد ملی۔ اس کتب خانے میں اردو رسائل و جرائد کی مکمل جلدیں موجود ہیں، ان سے بھی فائدہ اٹھایا۔ غرض گزشتہ چالیس سال سے کلامِ اقبال کا جمع کرنا میرا محبوب مشغلہ رہا ہے اور اس کے لیے میں نے اکثر طویل سفر بھی اختیار کیے۔‘‘
بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم و مغفور تقریظ میں مرتب کی محنت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’عبدالواحد صاحب نے کمال کیا ہے کہ علامہ اقبال کا غیر مطبوعہ کلام ایک جا جمع کرکے شائع کردیا۔ اس کی تلاش میں وہ کہاں کہاں پھرے ہیں، اور ایسے ایسے نامعلوم گوشوں، بھولی بسری صحبتوں اور گم نام بیاضوں تک پہنچ کر جہاں رسائی دشوار تھی، یہ جواہرات جمع کیے ہیں۔‘‘
وہ مزید رقم طراز ہیں:
’’کون کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ علامہ ممدوح کے سامنے ہوتا تو اس میں کا کس قدر حصہ وہ خود شائع کرتے۔ اس کلام کے جمع اور شائع کرنے کی سعادت عبدالواحد صاحب کی قسمت میں تھی۔ یہ انہوں نے ایسا نادر اور یادگار کام کیا ہے جس کے لیے وہ قابلِ مبارک باد اورمستحقِ شکریہ ہیں۔ خاص کر کلامِ اقبالؔ کے قدر دانوں کو اُن کا تہِ دل سے شکر گزار ہونا چاہیے۔ ‘‘
’’باقیاتِ اقبال‘‘ میں اضافوںکے ساتھ دوسری اور تیسری اشاعت کا اہتمام بھی کیا گیا، مگر اب یہ مجموعہ طویل عرصے سے دستیاب نہیں تھا، معیاری کتب کی اشاعت کی مستحکم روایت کے حامل ’مکتبۂ تعمیر انسانیت، کے محترم محمد سعید اللہ صدیق نے شائقین و قارئینِ اقبال پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ نہ صرف اس کی ازسرِنو اشاعت کا اہتمام کیا ہے بلکہ اس طبع چہارم کو کمپیوٹرائز کتابت پر چھپوایا گیا ہے اور سابقہ اشاعتوں میں موجود خامیاں بھی بڑی حد تک دور کردی گئی ہیں، جن میں سے ایک ناقابلِ تصور غلطی کی نشاندہی تازہ اشاعت میں نظرثانی اور حواشی کی ذمے داری نبھانے والے محترم خالد علیم نے ’وضاحت‘ کے عنوان کے تحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’ایک نمایاں غلطی جو کلامِ اقبال کی باقیات کے سلسلے میں ہمارے اکثر مرتبین سے ہوتی رہی، اُن نظموں، غزلوں یا اشعار کی شمولیت ہے جو بالتحقیق علامہ اقبال کی تخلیقات نہیں ہیں۔ اس حوالے سے ایک سامنے کی مثال ’’کلیات باقیاتِ شعرِ اقبال‘‘ (مرتبہ صابر کلوروی) ہے جس میں حفیظ جالندھری کی مشہور نظم ’’معزی‘‘ اور پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی ’’گلزارِ نسیم‘‘ کے وہ اشعار ہیں جو اردو نصاب کا حصہ رہے ہیں، ’’ایں چہ بوالعجبی است‘‘ کہ ’’کلیات باقیات شعر اقبال‘‘ میں علامہ اقبال کا کلام سمجھ کر شامل کرلیے گئے۔ تحریری طور پر پہلی بار اس کی نشان دہی معروف ماہرِ اقبالیات ڈاکٹر تحسین فراقی نے کی تھی۔ اسی طرح زیر نظر ’’باقیاتِ اقبال‘‘ میں بھی ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں، جو ممکنہ حد تک دور کردی گئی ہیں، مثلاً اکبر الٰہ آبادی کی نظم ’’بے سلطنت قوم یا جسم بے روح‘‘۔ علامہ اقبال کا کچھ متداول کلام باقیات کے بعض مجموعوں میں شامل ہوتا رہا، جیسے ظریفانہ کلام کے حصے کا ایک قطعہ ’’محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہوگئے‘‘ اور کچھ دوسرا متداول کلام، جسے حذف کردیا گیا ہے۔‘‘
طبع چہارم میں نظرثانی کے دوران بہت سی باقیاتِ اقبال کے حوالہ جات بھی درج کردیے گئے ہیں جو گزشتہ اشاعتوں میں موجود نہیں تھے، اس طرح اس کلامِ اقبال کی استناد میں اضافہ ہوگیا۔ ’’باقیاتِ اقبال‘‘ کا پہلا حصہ نظموں پر مشتمل ہے جس میں 60 نظمیں شامل ہیں۔ دوسرا حصہ 57 متردکات بانگِ درا، تیسرا حصہ 51 غزلیات ظریفانہ، قطعاتِ تاریخ اور متفرقات پر مشتمل ہے۔ طبع سوئم میں کلامِ اقبال کا مزید خاصا حصہ شاملِ اشاعت کیا گیا ہے۔ یوں یہ مجموعہ ’’کلیاتِ اقبال‘‘ میں شامل نہ ہوسکنے والے خاصے بڑے ذخیرے تک شائقین کو رسائی اور ان کے مطالعۂ اقبال کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے۔ کتاب کی حروف خوانی میں اگرچہ خاصی محنت اور عرق ریزی سے کام لیا گیا ہے، اس کے باوجود کہیں کہیں غلطیاں رہ گئی ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ اشاعت میں اس جانب مزید توجہ دی جائے گی۔