(چوتھا اور آخری حصہ)
کچرا اٹھانے والے ٹرک، بسیں، اٹھارہ پہیوں والے ٹریلر… ان سب کے لیے بیٹریوں کا استعمال عملاً زیادہ کارآمد نہیں۔ بڑی گاڑی کہ جب آپ اسے چلانا چاہیں، بہت دور تک لے جانا چاہیں… یہ بغیر ری چارجنگ کے ممکن نہ ہوگا، اور ایسی صورت میں بجلی کا استعمال دشوار تر ہوگا۔ انجن کو طاقت مہیا کرنا مشکل ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹریاں بہت بھاری ہیں، اورمحدود بجلی ہی ذخیرہ کرسکتی ہیں، اور توانائی کی مخصوص مقدار ہی مہیا کرسکتی ہیں۔
درمیانے درجے کی گاڑیاں، جیسا کہ سٹی بسیں… ان کے لیے بجلی کا استعمال قابلِ عمل ہے۔ ان کے مختصر روٹ اور پارکنگ کی مخصوص جگہیں ہوتی ہیں۔ ان کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کا قیام آسان اور قابلِ عمل ہے۔
چین کا شہر شینزین بارہ لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی سولہ ہزار سے زائد بسیں اوردو تہائی ٹیکسیاں بجلی پر چل رہی ہیں۔ چین میں بجلی سے چلنے والی بسوں کی شرحِ فروخت سے لگ رہا ہے کہ ایک دہائی میںگرین پریمیم صفر پرپہنچ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا بھرکے اکثر شہر اپنی ٹرانسپورٹ کو بجلی پر منتقل کرنے کے اہل ہوسکیں گے۔
کارنیگی میلون یونیورسٹی کے دو مکینکل انجینئرز نے تحقیق میں یہ واضح کیا ہے کہ ایک کارگو ٹرک کہ جسے چھ سو میل کا سفر ایک بار کی بجلی چارجنگ میں طے کرنا ہو، اسے اتنی ساری بیٹریوں کی ضرورت پڑے گی کہ کارگوکی گنجائش پچیس فیصد کم کرنی پڑے گی، اور بجلی سے نوسو میل تک کے سفر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ جتنی بیٹریاں اس کام کے لیے درکار ہوں گی،کارگو صفر ہوجائے گا۔ اگرچہ بجلی کم فاصلوں کے سفر کے لیے ایک اچھا انتخاب ہے، مگر یہ بھاری اور بڑے کارگو ٹرکوں کے لیے عملاً ممکن نظر نہیں آرہا، کیونکہ ہم انہیں بجلی مہیا نہیں کرسکتے۔ دستیاب حل الیکٹروفیول اور جدید بائیو فیول ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے گرین پریمیم ڈرامائی طورپر بہت زیادہ ہیں۔
سمندری جہازوں اور طیاروں کی بابت کچھ عرصہ پہلے میں اور میرا دوست وارن بفٹ بات کررہے تھے کہ طیاروں کو کس طرح کاربن سے پاک کیا جاسکتا ہے؟ وارن نے پوچھا تھا ’’ہم کیوں ایک جمبو جیٹ بیٹریوں پر نہیں اڑا سکتے؟‘‘ وہ جانتا تھا کہ جیٹ جب اڑتا ہے تو وہ بیس سے چالیس فیصد تیل کے وزن کا حامل ہوتا ہے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ اس طرح کے جیٹ کو بجلی سے اڑانے کے لیے پینتیس گنا زائد بیٹریوں کی ضرورت پڑے گی تو وہ بُری طرح چونکا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ بجلی کی جتنی زیادہ توانائی طیارہ اڑانے کے لیے درکار ہوگی اتنا ہی زیادہ وزن طیارے کا ہوجائے گا۔ ایک مرحلے پر یہ وزن اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ طیارہ زمین سے اڑ ہی نہ پائے گا۔ وارن بے بسی سے مسکرا کر رہ گیا تھا۔ جب آپ باربردار سمندری جہاز کو بجلی سے توانائی مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تب بھی وہی بڑی سے بڑی اور وزنی سے وزنی بیٹری کا اصول کارفرما نظرآتا ہے۔
بیٹریاں بہتر سے بہتر بنائی جارہی ہیں، مگر ابھی یہ دیکھنا دشوار ہے کہ یہ کس طرح حجم اور توانائی میں توازن قائم کرسکتی ہیں۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو یہ بیٹریاں تین گنا زائد توانائی ذخیرہ کرنے کی اہل بھی ہوسکتی ہیں، تاہم اس کے بعد بھی ان میں توانائی کی گنجائش گیس اور جیٹ فیول کے مقابلے میں بارہ گنا کم ہی رہے گی۔ ہمارے پاس بہترین راستہ جیٹ فیول کی جگہ الیکٹروفیول اورجدید بائیو فیول کا استعمال ہے، مگر ان کے ساتھ جُڑے بھاری گرین پریمیم پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ یہی معاملہ سمندری باربردارجہازوں کا بھی ہے۔
کیا دنیا گرین پریمیم سے لاگتوں کے اضافے قبول کرپائے گی؟ یہ واضح نہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ امریکی، گیس کا بھاری بل دینے کے لیے تیار نہیں۔
ہمارے پاس ٹرانسپورٹیشن سے کاربن گھٹانے کے چار طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم ڈرائیونگ کم کردیں، پروازیں کم کردیں، اور سمندری باربرداری میں کمی لے آئیں۔ ہم متبادل ذرائع نقل وحرکت کی طرف توجہ دیں، پیدل چلیں، سائیکل چلائیں، اور ایک گاڑی میں زیادہ سے زیادہ افراد کی شیئرنگ ممکن بنائیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ جدید شہر نقل وحرکت کے متبادل نظام پرکام کررہے ہیں۔ ایک اور طریقہ کم سے کم کاربن اخراج سے تیار مواد پر مشتمل ٹرانسپورٹیشن کا استعمال ہے۔ غیرضروری فولاد اور پلاسٹک کی تیاری کم سے کم کردینی چاہیے۔ تیسرا طریقہ فیول کا زیادہ سے زیادہ کفایت سے استعمال ہے۔ انجینئرنگ کے طریقوں میں جدتیں بہت مددگار ہوسکتی ہیں۔
تاہم متبادل ٹرانسپورٹیشن نظام میں معیارات بہت دور تک معاون نہیں ہیں۔ گیسولین زیادہ نہ سہی، مگر ہرجانب کچھ نہ کچھ جلتی رہے گی، اور اس طرح صفر کاربن تک پہنچنا ممکن نہ ہوگا۔ یہ بات مجھے چوتھے طریقے کی جانب متوجہ کرتی ہے جو مؤثر ترین ہے: بجلی سے چلنے والی گاڑیاں اور متبادل فیول۔
ملکوں کو قدرتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کو بتدریج کم کرنا ہوگا۔ آنے والی دہائیوں میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو مکمل متبادل نظام کے طورپر پیش کرنا ہوگا۔ ہمیں بہت زیادہ صاف شفاف بجلی کی ضرورت پڑے گی۔ ہمیں بہت بڑی مقدار میں جدید اور سستے بائیو فیول اور الیکٹروفیول کی تیاری کے طریقوں پر بڑے پیمانے پرکوششیں کرنی ہوں گی۔