الحمدللہ حرم مکی شریف کے جوار میں تیرہ سال اس طرح کی سکونت اور قربت رہی کہ تکبیر ہوتی اور ہم باجماعت نماز میں شامل ہوجایا کرتے تھے، یعنی کہ محلے کی سب سے اقرب مسجد ’مسجد الحرام مکی شریف‘ تھی۔ یقین جانیں کہ حرم مکی شریف کا جوار اور پھر رمضان المبارک کی رونقوں کا لطف دنیا کی تمام نعمتوں سے بالاتر ہوتا ہے۔ ماہِ رمضان کے شروع ہوتے ہی دنیا میں ہر روزہ دار کا نظام عمل ہی کسی حد تک تبدیل ہوجاتا ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ آسمانوں میں بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتیں بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب میں ماہِ رمضان کی آمد پر زیادہ ہی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ رمضان سے قبل مکہ مکرمہ میں ضروری اشیائے خور ونوش کا انتظام اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ بیرونی ممالک سے آئے ہوئے کثیر تعداد میں زائرین کے باوجود کسی شے کی کمی نہ ہو۔ ماہ رمضان میں بھی اشیاء کی قیمتوں پر بہت حد تک کنٹرول رہتا ہے۔ سعودی عرب میں پھلوں کی پیداوار کم ہوتی ہے اس کے باوجود اللہ کے فضل سے مکہ مکرمہ میں بے موسم بھی دنیا کے اکثر پھل بازار میں نظر آتے رہتے ہیں۔ معلوم رہے کہ سعودی عرب خصوصاً مکہ مکرمہ میں رمضان المبارک میں تربوز بہت پسند کیا جاتا ہے۔ تربوز کی طلب کو اکثر سعودی عرب کے زرعی شہر القصیم سے پورا کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے تربوز بیضوی شکل کے اور خاصے بڑے بڑے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ مصر سے بھی گول تربوز وافر مقدار میں درآمد کیے جاتے ہیں۔ یہاںبجلی کا تو اب مسئلہ ہی نہیں رہا ہے، 1982ء سے بجلی کے نظام کو اس حد تک ترقی دے دی گئی تھی کہ بجلی اب سالوں میں صرف اُسی وقت چند لمحوں کے لیے جاتی ہے جب کسی وقت نیٹ ورک میں کوئی خرابی آجائے۔ حرم کے اطراف میں روشنی کے ممتاز انتظام کے باعث رات بھی دن ہی لگتی ہے۔
یوں تو عمرے کی ادائیگی سال میں کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے، مگر رمضان المبارک میں عمرے کی ادائیگی کی بڑی فضیلت ہے۔ عمرے پر جانے کا مقصد صرف ثواب کمانا ہی نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی خوشنودی، اپنے گناہوں کی معافی اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا بھی کرنا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جب رمضان کا مہینہ آئے تو عمرے کی سعادت حاصل کرو، کیونکہ رمضان میں عمرے کا ثواب میرے ساتھ حج کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔
ہمارے اہلِ خاندان کا برسوں سے یہ معمول رہا ہے کہ ماہِ رمضان میں عمرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرتا چلوںکہ میرے والد محمد فاضل عثمانی ؒ نے اپنے انتقال سے قبل ایک رمضان میں تقریباً ہر روز عمرے کی سعادت حاصل کی اور جب میں نے والدؒ کی یہ کیفیت دیکھی تو عرض کیا کہ ابا طبیعت خراب ہوجائے گی، تو مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ہاں دنیا کے لیے تو خوب بینک بیلنس جمع کیا جائے اور آخرت کے لیے بینک بیلنس ہی میں ساری تھکاوٹ ہوجاتی ہے۔ بہرحال وہ اپنے ارادے کی تکمیل کرتے رہے (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند ترین فرمائے۔آمین )۔
مجھے یہاں یہ بتانا بھی مناسب لگ رہا ہے کہ مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات کے شہریوں میں بھی کم از کم ایک مرتبہ عمرہ ادا کرنے کا شوق بہت دیکھا گیا ہے، یہاں تک کہ مملکت کے بڑے بڑے شہزادوں کو میں نے رمضان المبارک میں حرم مکی شریف میں حاضر ہوتے اورعمرہ کرتے خود دیکھا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق 29 شعبان کو رویت ہلال کی شہادتوں کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پہلا روزہ شروع ہوتا ہے، ورنہ 30 شعبان کے بعد ماہ رمضان شروع ہوتا ہے۔ چاند کا مطلع مختلف ہونے کی وجہ سے عمومی طور پر خلیجی ممالک میں چاند کی پہلی تاریخ برصغیر سے ایک یا دو روز قبل ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں برصغیر کی طرح لوگ چاند دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ مغرب اور عشا کے درمیان ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر حکومت کے اعلان کا انتظار کرتے ہیں۔ حکومت، علمائے کرام اور فلکیات کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹیاں چاند دیکھنے کے جدید آلات سے آراستہ پورے ملک میں جگہ جگہ چاند دیکھنے کا اہتمام کرتی ہیں، اور جب ہم مکہ مکرمہ آئے اس وقت یہاں رمضان اور عید کے چاند کا اعلان مکہ کے ایک پہاڑ جبل المدابغہ پر توپ داغ کر کیا جاتا تھا، اور اسی طرح سے افطار کے وقت بھی توپ داغی جاتی تھی۔ یہاں رمضان کا استقبال بہت ہی ایمانی جوش سے کیا جاتاہے۔
سعودی عرب کی تمام مساجد میں نماز کا وقت ہوتے ہی اذان ہوتی ہے اور ایک ہی وقت میں نماز ادا کی جاتی ہے۔ چاند کا اعلان ہوتے ہی لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں، قیمتی قالینوں سے مزین تمام ہی مساجد ائرکنڈیشنڈ ہوتی ہیں۔ اذان کی طرح پانچوں نمازیں، نماز تراویح اور آخری عشرے میں نماز تہجد لاؤڈاسپیکر سے ادا کی جاتی ہے۔ نماز تراویح کے فرض نہ ہونے کی وجہ سے نمازِ تراویح کی ادائیگی کے دوران بازار کھلے رہتے ہیں۔ ماہِ مبارک میں نماز عشا کے فوراً بعد نماز تراویح کا اہتمام ہوتا ہے۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ)، مسجد نبوی (مدینہ منورہ)، اسلام کی پہلی مسجد ’’مسجد قبا‘‘ اور بعض دیگر مساجد میں 20 رکعات تراویح، جبکہ عام مساجد میں 8 رکعات تراویح اور اس کے بعد دو سلام سے وتر کی تین رکعات ادا کی جاتی ہیں، البتہ کسی کسی مسجد میں کبھی کبھی ایک سلام سے تین وتر بھی پڑھے جاتے ہیں۔ برصغیر کے کچھ لوگ حفاظ کرام کی موجودگی میں بعض گھروں میں جمع ہوکر 20 رکعات تراویح میں پورا قرآن سننے کا اہتمام کرتے ہیں۔ وتر کی تیسری وآخری رکعت میں دنیا وآخرت کی کامیابی اور تمام مسلمانوں کی عافیت کے لیے عربی زبان میں لمبی لمبی دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔ بسا اوقات دعاؤں کی طوالت سے نمازی تھک بھی جاتے ہیں۔ ہاں یہ بات قابلِ تقلید ہے کہ امام تراویح میں قرآن کریم اطمینان کے ساتھ ٹھیر ٹھیر کر پڑھتے ہیں، جس سے وعیدوں والی آیات پر رونا بھی آجاتا ہے۔ کم وبیش ڈیڑھ گھنٹے میں نماز عشا، تراویح اور وتر سے فراغت ہوتی ہے۔ حرم مکی شریف میں میری سکونت کے شروع میں شیخ محمد عبداللہ السبیل اور شیخ عبداللہ الخلیفی تراویح پڑھاتے تھے۔ شیخ عبداللہ الخلیفی آخری دس رکعات اور وتر پڑھاتے تھے۔ نماز وتر کی تیسری رکعت ہی میں بڑی رقت آمیز دعا کراتے کہ خود بھی بہت روتے اور تمام مقتدین بھی رو پڑتے۔ شیخ عبداللہ الخلیفی کی شب قدر اور ختمِ قرآن میں بہت ہی خصوصی دعائیں ہوتیں جس سے زبردست رقت آمیز روحانی سماں بندھ جایا کرتا۔ شیخ ؒ کی دعاؤں میں شامل ہونے کے لیے سارے عالم خصوصاً پاکستان سے بہت بڑی تعداد رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ کا رخ کرتی۔
یہ سطور لکھتے ہوئے ویسے تو ہزاروں لوگوں سے مکہ مکرمہ کی برکات سے ملاقاتیں ہوتی رہیں لیکن اِس وقت مجھے دو زائرین بخوبی یاد آرہے ہیں، ان میں سے ایک عبدالقادر خمیسانی ؒ (خمیسانی ٹریول ایجنسی کے مالک) ہیں جو مجھے 29 ویں شب کی تراویح کے بعد حرم کے باہر ملے تو آنکھیں بالکل سرخ تھیں۔ میں نے کہا کہ شیخ ؒ بڑی یکسوئی اور رقت سے دعا فرماتے ہیں، تو کہنے لگے کہ بھئی میں اس رات کی دعا میں شمولیت ہی کے لیے تو آتا رہتا ہوں۔ اسی طرح سے ایک مرتبہ تھکے ماندے میرے پرانے جاننے والے دبیر احمد صاحب ؒ حرم کے باہر ملے تو حاضری کی مبارک باد کے بعد میں نے کہا کہ آپ تو ماشا اللہ ہر سال رمضان میں نظر آرہے ہیں، اُن کا جواب مجھے آج تک نہیں بھولتا، انھوں نے کہا تھا کہ جناب جس کسی کے پاس دولت ہوتی ہے وہ مغربی ممالک، سنگاپور وغیرہ دل بستگی کے لیے نکل جاتا ہے، الحمدللہ میری دل بستگی حرمین شریفین ہی میں ہے۔ اس جواب نے مجھے خاموش کردیا تھا۔
اپنی معلومات کے مطابق یہاں یہ بتاتا چلوں کہ حرم مکی شریف میں پہلے 13مؤذنین اور 11 آئمہ کرام تھے، حالیہ 15مؤذنین اور 11آئمہ کرام ہیں۔ عرصے سے تراویح کی ترتیب ایک پروگرام کے تحت مختلف آئمہ کرام پر مشتمل ہوتی ہے۔ حرم مکی شریف میں باہر سے کثیر تعداد میں زائرین کی آمد کی وجہ سے اب مکہ کے مقیمین اکثر اپنے اپنے محلے کی مساجد ہی میں تراویح پڑھ رہے ہیں، البتہ میرے مشاہدے کے بموجب جدہ سے بھی آکر خاصے محبان ہر روز حرم کی تراویح میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔
سعودی عرب میں گرمی بہت پڑتی ہے۔ گرمی کے موسم میں درجہ حرارت کم وبیش 45 ڈگری رہتا ہے، کبھی کبھی 50 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ مگر معیارِ زندگی بہتر ہونے کی وجہ سے پیاس اور بھوک کا زیادہ احساس نہیں ہوتا۔ رمضان میں عموماً اسکولوں کی چھٹی کردی جاتی ہے، جس کی وجہ سے راتوں میں شاہراہوں اور تجارتی مراکز میں جم غفیر نظر آتا ہے۔ مغرب سے سحری تک تمام ریسٹورنٹ اور دکانیں کھلی رہتی ہیں، غرضیکہ خرید وفروخت عموماً رات میں ہی ہوتی ہے، لیکن سحری کے بعد سے کوئی بھی ریسٹورنٹ حتیٰ کہ چائے کا ہوٹل بھی نہیں کھلتا۔ سحری کھاکر نماز فجر کی ادائیگی کے بعد عام طور پر لوگ سوتے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے رمضان میں ڈیوٹی کے اوقات 2 گھنٹے کم کردیے جاتے ہیں۔ مرد حضرات عموماً 10 بجے دفتر جاتے ہیں، جبکہ خواتین عمومی طور پر ظہر تک سوتی ہیں۔ مرد حضرات اوّل وقت میں نماز عصر کی ادائیگی کے بعد سوکر اپنی نیند مکمل کرتے ہیں، جبکہ خواتین مطبخ کے کام کاج میں مصروف رہتی اور اسی دوران قرآن کی تلاوت بھی کرلیتی ہیں۔ برصغیر کی طرح یہاںذائقہ دار چاٹ کے بجائے مختلف قسم کے پھل افطار کے لیے دسترخوان پر موجود ہوتے ہیں۔ سعودی معاشرہ پکوڑیوں سے ناواقف ہے، البتہ چکن، مٹن اور پنیر کے سموسوں اور لسّی کا استعمال خوب ہوتا ہے۔ کھجوروں کے ساتھ خاص قسم کا قہوہ اور مختلف قسم کے شربت اور کھانے والا زیتون موجود رہتا ہے۔ سلاد کے ساتھ چنا پیس کر اس پر زیتون ڈال کر ’حمص‘‘ نام کی ڈش بھی تیار کی جاتی ہے۔ دلیہ کو گوشت کے ساتھ ملاکر ’’جریش‘‘ نامی ڈش بہت پسند کی جاتی ہے جو صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ سعودی لوگ روٹی کے مقابلے میں چاول زیادہ کھاتے ہیں، اس لیے بریانی کی طرح مرغی اور چاول سے بنائی گئی خاص ڈش خوب کھائی جاتی ہے۔ بکرے کے گوشت کے ساتھ باسمتی چاول سے بنائی گئی ڈش ’’مندی‘‘ سعودی عرب کی مرغوب غذا ہے۔ ولیمہ وغیرہ کی اہم تقریبات میں عموماً مندی ہی کھلائی جاتی ہے، بہت بڑے تھال میں چاول اور اس کے چاروں اطراف مغزیات ہوتے ہیں اور درمیان میں آگ پر بھونا ہوا پورا بکرا کھوپڑی کے ساتھ رکھا ہوا ہوتا ہے، لوگ اُسی بڑے تھال میں سے بکرے کا گوشت نوچ نوچ کر خوب مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ مغرب اور عشا کے درمیان عموماً لوگ اپنے گھروں ہی میں رہتے ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ سعودی عرب میں احباب کے گھروں میں یا دیگر عمومی افطار پارٹیاں نہیں ہوتیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ محلے میں ایک دوسرے کے گھر افطاری کے آئٹم بھیج دیتے ہیں۔ برصغیر کے مقیمین بھی تقریباً اسی ماحول میں ڈھل جاتے اور اسی معمول کو اپنالیتے ہیں، البتہ روزہ افطاری اور کھانوں کی ڈشوں کی تبدیلی میں کوئی خاص سمجھوتا نظر نہیں آتا۔ برصغیر کے لوگوں کی گھریلو اور بیرونی افطار پارٹیاں بھی منعقد کی جاتی رہتی ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں ثواب حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب میں جگہ جگہ افطار کا انتظام کیا جاتاہے، اور لاکھوں لوگ مفت افطار کرتے ہیں۔ افطار میں اتنی سخاوت سے کام لیا جاتا ہے کہ لوگ بچا ہوا کھانا گھر لاکر سحری تک کھاتے رہتے ہیں۔ اس طرح فیملی کے بغیر رہنے والوں خاص کر بنگلادیشی اور دیگر ملکوں کے عمّال کے ذاتی مصارف اس ماہ مبارک میں بہت کم ہوجاتے ہیں۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں بھی روزانہ دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے اللہ کے لاکھوں مہمان افطار کرتے ہیں۔ ایک ہی دسترخوان پر مختلف ملکوں، زبانوں اور رنگوں کے لوگ ایک دوسرے کی ضیافت اشاروں سے کرتے ہیں۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے اندر افطار میں مختلف قسم کی کھجوریں، پانی، لسّی، چائے، قہوہ اور جوس وغیرہ پیش کیا جاتا ہے، بڑی حیثیت والے لوگ بھی معتمرین اور زائرین کو افطار پیش کرنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں، اس لیے وہ محبت اور اخوت کے جذبے سے ایسی ایسی کھجوریں پیش کرتے ہیں جو بازار میں دستیاب بھی نہیں ہوتیں۔ دونوں حرمین کے صحنوں میں ہر قسم کے کھانے افطار میں موجود ہوتے ہیں، اس لیے کہ حرم کے اندر مخصوص اشیاء کے سوا دیگر چیزیں لے جانا قطعی ممنوع ہوتا ہے۔ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک معلومات کے مطابق حرم شریف کے اندر اور اطراف میں روزہ کھولنے کے لیے جو دسترخوان بچھایا جاتا ہے وہ دنیا کا سب بڑا دستر خوان شمار کیا جاتا ہے جس کی لمبائی 12 کلومیٹر سے زائد ہوتی ہے، اور اس پر بیک وقت 15 لاکھ سے زائد روزہ دار افطار کرتے ہیں۔ افطاری کے صرف چند منٹ بعد ہی حرم کے خدام چند منٹوں میں پورے حرم اور بیرون حرم کو صاف کردیتے ہیں جو انتظام کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے۔ نماز کے فوراً بعد ہی خانہ کعبہ کا طواف دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ خصوصیت اللہ کے صرف اس گھر کو ہی حاصل ہے۔ ان مقدس مقامات میں رمضان کے مہینے کا ایسا دلکش منظر اور خصوصی لطف دنیا کے دوسرے حصوں میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ رمضان کے دنوں میں خصوصاً اذان اور نمازِ مغرب میں پندرہ منٹ کا وقفہ رہتا ہے۔ رمضان المبارک میں خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر آب زم زم سے روزہ کھولنے کا اپنا ایک الگ ہی لطف ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وہ منظر بڑا سحر انگیز اور روح پرور ہوتا ہے جب ہم کچھ قدموں کے فاصلے پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کو دیکھتے ہوئے آبِ زم زم اور کھجوروں سے روزہ افطار کرتے ہیں۔ الحمدللہ برسوں میری کوشش رہی کہ طواف کرتے ہوئے میرا روزہ کھلے۔ یہ بات بھی بڑی قابلِ ذکر ہے کہ حرم مکی شریف میں لوگ والہانہ اور خوشامدانہ انداز میں روزہ داروں کو اپنے اپنے دسترخوانوں پر روزہ کھولنے کی دعوت دیتے ہیں۔
رمضان کے آخری عشرے میں تراویح کے علاوہ سعودی عرب کی ہر مسجد میں آدھی رات کے بعد وقت کی تعیین کے ساتھ نماز تہجد (صلوٰۃ اللیل) جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ نماز تہجد میں عموماً 8 رکعتیں طویل رکوع اور طویل سجدے کے ساتھ اداکی جاتی ہیں، بعض مساجد میں اس سے کم بھی پڑھی جاتی ہیں، اور پھر تین رکعات وتر ادا کیے جاتے ہیں۔ حرمین میں نماز تہجد میں روزانہ ڈیڑھ پارہ پڑھا جاتا ہے جس سے تقریباً پندرہ پارے نماز تہجد (صلوٰۃ اللیل) میں مکمل ہوتے ہیں، آخر میں وترمیں نماز کی حالت ہی میں عربی زبان میں خوب لمبی دعا کرائی جاتی ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پابندی کے ساتھ 29 ویں شب کو نماز تراویح میں ختم ِقرآن ہوتا ہے۔ تراویح کی بیسویں رکعت میں تقریباً 30 منٹ کی دعا ہوتی ہے۔ 27 ویں شب میں شب قدر ہونے کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، جس رات کی عبادت ایک ہزار سال کی عبادت سے زیادہ افضل ہے، اس وجہ سے 29 ویں شب کی طرح 27 ویں شب میں قدم رکھنے کی جگہ مسجد حرام میں نہیں ملتی۔ 27 ویں اور 29 ویں شب میں مسجد حرام میں حج کی طرح کم وبیش تیس لاکھ کا مجمع ہوتا ہے۔
غرضیکہ سعودی عرب میں رمضان خاص کر آخری عشرے میں عموماً رات بھر عبادت کی جاتی ہے۔ ہاں اس کا ایک نقصان ہے کہ لوگوں میں دن میں کام کرنے کی وہ طاقت نہیں رہتی جو ہونی چاہیے، اس وجہ سے حکومتی اداروں میں رمضان خاص کر آخری عشرے میں کام کم ہوتا ہے۔ 24 رمضان کے بعد تمام حکومتی ادارے دس روز کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں بھی کم وبیش ایک ہفتے کی چھٹی رہتی ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں صرف عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ہی کے موقع پر چھٹیاں ہوتی ہیں، اس کے علاوہ اب چند سال سے ایک قومی دن بھی منایا جانے لگا ہے۔