بلوچستان کی سیاست گڈاگڈی کا کھیل

یہ بات ذہن نشین رہے کہ جنوری2018ء میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن)، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومت کی تبدیلی خالصتاً میاں نوازشریف پر وار تھا۔ باقی نواب ثناء اللہ زہری سمیت کسی سے کوئی تکلیف وپرخاش نہ تھی۔ جہاں اسٹیبلشمنٹ نواز اور مال و اقتدار کے رسیا اراکینِ اسمبلی ہوا کے رخ کے ساتھ چل پڑے۔ عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ اس بُری سیاست میں آصف علی زرداری براہِ راست شامل تھے۔ ان کی دولت بھی استعمال ہوئی۔ قیوم سومرو عبدالقدوس بزنجو کے ہمراہ ایک ہی گاڑی میں گورنر ہائوس گئے۔ بعد ازاں وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بھی قیوم سومرو نے انہیں بٹھایا۔ بعینہٖ اکتوبر2021ء میں عبدالقدوس بزنجو بلوچستان نیشنل پارٹی کے اراکین کی جانب سے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بٹھائے گئے۔ عبدالقدوس بزنجو کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے تھا۔ یعنی حکم کے تحت سبھی نے قاف لیگی رکن اسمبلی کو بطور وزیراعلیٰ تسلیم کرلیا۔ عبدالقدوس بزنجو نے تب کہا کہ انہیں ان کے والد عبدالمجید بزنجو نے وصیت کی تھی کہ زندگی میں کبھی نوازشریف خاندان پر اعتماد اور بھروسا مت کرنا۔ انہوں نے اس طرح کی اور باتیں بھی کیں۔ گویا بلوچستان کی سیاست اور اسمبلی درحقیقت گڈا گڈی کا کھیل بنایا گیا، اور پھر وفاق میں لوگ مسلم لیگ (ن) سے ٹوٹنا شروع ہوئے۔ غالباً وہاں بھی پہل بلوچستان کے لوگوں نے کی۔ جام کمال خان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و گیس تھے، بلاشبہ ان کی عزت و اکرام تھا۔ چناں چہ وہ، خالد مگسی، دوستین ڈومکی وغیرہ نے غیبی تاکید و ہدایت کی پاس داری کی۔ رفتہ رفتہ لوگ ٹوٹتے رہے اور یوں مسلم لیگ (ن) تنہا ہوگئی، اور اس کی صفوں میں مایوسی و بے کسی چھا گئی۔
بالکل ایسا ہی منظرنامہ چشمِ فلک نے اِن دنوں تحریک انصاف کے ساتھ ہوتا ہوا دیکھا۔ عمران خان کو بھی بڑی تعداد میں اپنے لوگ چھوڑ گئے۔ نوازشریف کے خلاف کامیابی پر آصف علی زرداری پھولے نہیں سمارہے تھے۔ بلوچستان میں مارچ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں بھی مخالف فضا بنی۔ ان انتخابات میں بھی آصف علی زرداری نے بلوچستان کو نگاہ میں رکھا تھا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اشتراک سے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کامیاب کرائے گئے۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی حکومت گرانے میں جمعیت علمائے اسلام، ق لیگ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی شریک تھیں۔ جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنا یہ عمل جام کمال حکومت کے خلاف بھی دہرایا، اور قدوس بزنجو ہی کو وزارتِ اعلیٰ دلوائی۔ اس بار پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی بھی اس صف میں شامل تھی۔ پیپلز پارٹی بلوچستان کو دو ماہ (14جنوری 2013ء تا 13مارچ2013ء) گورنر راج کا تحفہ بھی دے چکی ہے۔ یقیناً حالیہ ماحول بھی معاونت کے بغیر نہیں بنا ہے۔ گویا سمجھنا چاہیے کہ ان کے نظریات اور اصولی سیاست کے دعووں اور نعروں کی اصل کیا ہے؟ نیز بلوچستان کے اندر اقتدار کے پجاریوں کی کمی نہیں ہے جو نظام اور حکومتوں میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔ اگرچہ اس فعل کی حامل جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی رہی ہیں، اضافہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کا بھی ہوا ہے۔ خاص کر چند خاندان اور دوسرے جو دولت، قبائلی و علاقائی اثر رسوخ اور مقتدرہ کے تعاون سے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، یعنی ’’الیکٹ ایبلز‘‘ مراعات و اشاروں کے پابند ہوتے ہیں جو بگاڑ کا ساتھ دینے میں دیر نہیں کرتے۔ اس ذیل میں نواب اکبر خان بگٹی خاندان کے شاہ زین بگٹی اور گہرام بگٹی کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ حیرت ہے کہ شاہ زین بگٹی نے بھی یہ کہہ کر عمران کا ساتھ چھوڑ دیا کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہ کیا۔ جب تحریک انصاف کا سورج عروج پر تھا تو اسلم بھوتانی نے ساتھ دیا۔ زوال آیا تو اصول و نظریات کے مقدس الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے علیحدگی اختیار کرلی۔ معروضی حالات آئندہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی وغیرہ کی حکومتوں کا پتا دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو چاہیے کہ آزمائے ہوئوں کو دوبارہ نہ آزمائے۔ بالخصوص بلوچستان کی حد تک پھونک پھونک کر قدم رکھنے چاہئیں کہ یہاں پل بھر میں وفاداری تبدیل کرنے والوں کی کمی نہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں بعض ایسے تھے جن میں راحیلہ درانی بھی شامل ہیں جن کو مقتدرہ کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے قبول نہیں کیا تو وہ ناچار مسلم لیگ (ن) ہی میں رہیں اور آزمائش کے اس پورے عرصے میں پارٹی کے لیے کسی قسم کی فعالیت و تعاون کا مظاہرہ نہ کیا۔ چناں چہ نظریات واصول پر کام ہونا چاہیے اور قول و عہد کے پکے وابستگان کو اہمیت دینی چاہیے۔
تحریک انصاف سے بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ وہ عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی۔ ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے سپرد ہوئی۔ غرضیکہ بلوچستان کے اندر حکومت کی تبدیلی کے امکانات واضح ہوئے ہیں۔ جام کمال خان کے حلقے کے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے، عین ممکن ہے کہ جمعیت علمائے اسلام حکومت میں شامل ہو۔ پشتون خوا عوامی پارٹی کو ایک معتبر حکومت کی تشکیل میں ساتھ دینا چاہیے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اپنی سوچ سے رجوع کرے تو اس سے صوبے کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ10مارچ کو پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں جے یو آئی کے انصارالاسلام کے کارکنوں کا داخل ہونا صریح تجاوز تھا۔ اسی طرح18مارچ کو اسلام آباد کے سندھ ہائوس پر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اور کارکنان کا حملہ، توڑپھوڑ اور اندر گھسنے کی کوشش قطعی ناپسندیدہ عمل تھا۔ اس طرح کی بد مزگی اور قبیح روایت جے یو آئی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے بلوچستان میں ڈالی ہے، جب صوبائی بجٹ اجلاس کے موقع پر اسمبلی گیٹ کو تالے لگائے، وزیراعلیٰ جام کمال سمیت اراکین کو اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً اسمبلی کا احاطہ دیر تک میدانِ جنگ بنا رہا۔