یہ اندازہ بہت پہلے ہی ہوگیا تھا کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ لکھا جاچکا ہے۔ اوّل: وہ اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت کھوچکے تھے۔ دوئم: یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ان کی اپنی جماعت میں ترین گروپ اور علیم خان گروپ کی بنیاد پر سیاسی بغاوت ہوگئی تھی، اور یہ باغی لوگ حزب اختلاف کی سیاست سے جڑ گئے تھے۔ سوئم: عمران خان اور داخلی و خارجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد سازی یا خارجہ پالیسی سے جڑے اہم مسائل بھی دیکھنے کو ملے۔ یقینی طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں اُن کی اپنی داخلی پالیسیاں، فیصلہ سازی سے جڑے مسائل، ٹیم کا انتخاب اور گورننس کے مسائل بھی سرفہرست تھے، لیکن ان کی رخصتی کی ایک بڑی وجہ عالمی و علاقائی حالات اور پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی کے تناظر میں بڑی طاقتوں کی سیاست بھی تھی۔ اگرچہ عمران خان کی رخصتی کا انداز مناسب نہیں تھا، اور جب اُن کو اندازہ ہوگیا تھا کہ حالات اُن کے کنٹرول میں نہیں رہے تو انہیں خود ہی اپنے آپ کو علیحدہ کرکے عدم اعتماد کی تحریک سے قبل ہی نئے انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔
اب عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی ہے اور بدقسمتی سے یہ تسلسل ایک بار پھر قائم رہا کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی حکومتی مدت پوری نہیں کرسکا، اور یہ ہماری سیاست اور جمہوریت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی مدد سے حکومت یا وزیراعظم کو گھر بھیجنا سیاسی اور آئینی حق ہے، لیکن یہاں تحریک عدم اعتماد کو بنیاد بناکر حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں طرف سے جو کھیل کھیلا گیا اور جو نتائج نکلے ہیں وہ کسی بھی صورت میں ہماری مستقبل کی سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے مفاد میں نہیں۔ مسئلہ محض عالمی سازش ہی نہیں بلکہ ارکانِ اسمبلی کی جانب سے وفاداریوں کی تبدیلی، خرید وفروخت، کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر ’’ضمیر جاگنا‘‘ اور اس پر عدالتی فیصلے کا نہ آنا بھی کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرسکا۔ حکومت کی اس تبدیلی کے بعد نئی حکومت اور نئی حزبِ اختلاف کے درمیان مسائل کم نہیں ہوں گے، بلکہ ان میں شدت دیکھنے کو ملے گی۔ کیونکہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں عمران خا ن کی مخالفت میں خود کو تو متحد رکھنے میں کامیاب ہوئیں اور حکومت کی رخصتی بھی کردی، لیکن کیا اب یہ لوگ نئی مخلوط حکومت میں بھی خود کو واقعی متحد رکھ سکیں گے؟ کیونکہ یہ تمام جماعتیں ’’حکومت گرائو مہم‘‘ کے یک نکاتی ایجنڈے پر تو متفق نظر آئیں، مگر مشترکہ طور پر حکومت چلانا کوئی آسان کام نہیں، بلکہ یہ ان لوگوں کے لیے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔
دوسری طرف عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کو ایک بڑی عالمی سازش سے جوڑتے ہیں، اور اُن کے بقول اس سازش میں کچھ کردار داخلی محاذ پر بھی تھے ،وہ آخر تک اس عالمی سازش کو بنیاد بناکر عوام، پارلیمنٹ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ میں اپنا مقدمہ پیش کرتے رہے، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔ اب وہ یقینی طور پر اسی مقدمے کو بنیاد بناکر عوام میں اپنا بیانیہ پیش کریں گے۔ ان کو خارجہ پالیسی کی تبدیلی کی بنیاد پر، بالخصوص امریکہ مخالفت کی وجہ سے اقتدار سے نکالا گیا ہے، وہ اس بیانیے کی بنیاد پر عوام میں جانا چاہتے ہیں، اور اس عالمی سازش کا تعلق نئی بننے والی حکومت یا اپنے سیاسی مخالفین سے جوڑ کر سیاسی میدان میں اترنے کی پوری تیاری کرچکے ہیں۔ وہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو بھی بنیاد بناکر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح ان کا نشانہ ان کے سیاسی مخالفین بھی ہوں گے۔ بالخصوص آصف زرداری، شریف خاندان اور مولانا فضل الرحمٰن کی مخالفت میں وہ آخری حد تک عوامی سطح پر مقدمہ لڑیں گے۔ ان کے سیاسی بیانیے میں جہاں احتساب کا معاملہ ہوگا وہیں وہ امریکہ مخالفت، عالمی سازش اور خودمختاری پر مبنی پاکستان کو بنیاد بنائیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کم ہوئی ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ جہاں ان کی مقبولیت میں کچھ عرصے میں اضافہ ہوا ہے وہیں ان کی جماعت بھی خاصی متحرک اور فعال ہوگئی ہے۔
عمران خان نئی حکومت کو یقینی طور پر آسانی سے حکمرانی نہیں کرنے دیں گے۔ ان کو اندازہ ہے کہ یہ نئی حکومت انتخابات سے قبل کچھ بنیادی نوعیت کی ترامیم یا قانون سازی کے ساتھ نئے انتخابات میں جانا چاہتی ہے۔ عمران خان یقینی طور پر اس کے خلاف مزاحمت کریں گے اور حکومت کی راہ میں مشکلات کھڑی کرنا ہی ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوگا۔ اگلے چھے سے آٹھ ماہ میں حکومت کے پاس یقینی طور پر حکمرانی کا بوجھ ہوگا اور اسے ایک طرف عوامی ریلیف کو یقینی بنانا ہوگا تو دوسری طرف عمران خان کی مخالفانہ سیاست کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا، اور اس چیلنج سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ عمران خان حکومت پر دبائو ڈال کر جلد سے جلد انتخابات کا ماحول بھی بنانے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ 10 اپریل کو ہم نے ملک اور بیرونِ ملک عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے خلاف جو مظاہرے دیکھے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
اب تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفے دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے استعفے دے دیے ہیں۔ ان کے بقول قومی اسمبلی کے بعد چاروں صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفے دے کر ملک میں فوری نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اب وہ نئی بننے والی حکومت اور خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈالیں گے کہ وہ فوری انتخابات کا اعلان کرے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس نئی صورتِ حال میں نئی بننے والی حکومت اور خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان بدھ سے ملک گیر سیاسی تحریک کا آغاز پشاور میں ایک بڑے جلسے سے کررہے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ عمران خان آنے والے دنوں میں اپنی مقبولیت کے ماحول کو کس حد تک ایک لمبے وقت تک کے لیے برقرار رکھتے ہیں۔ اگرچہ اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد ضمنی انتخابات ہوسکتے ہیں، مگر قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 350سے زیادہ ہے، اور اتنی بڑی تعداد میں ضمنی انتخابات کرانا ممکن نہیں ہوگا۔ دراصل عمران خان کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ نئی حکومت کو ایک برس یا چھ ماہ سے زیادہ کا وقت ملے، کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ حکومت انتخابی سطح پر نئی اصلاحات کرکے اور کچھ نئی ترامیم کی مدد سے اپنی حمایت کو بڑھانے کی کوشش کرے گی۔ عمران خان کے لیے مرکز میں شہبازشریف اور پنجاب میں وزیراعلیٰ کے طور پر حمزہ شہباز کو قبول کرنا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو بطور اپوزیشن چلانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
شہبازشریف کی مشکل یہ ہوگئی ہے کہ ان کے لیے تمام جماعتوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت کو چلانا بڑا چیلنج ہوگا، اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس مخلوط حکومت میں جلد اختلافات سامنے آسکتے ہیں۔ دوسری طرف شہباز حکومت کے لیے یہ بھی چیلنج ہوگا کہ وہ سیاسی میدان میں عمران خان کی مزاحمتی تحریک کا مقابلہ کیسے کرے گی۔ کیونکہ عمران خان کی حکومت مخالف تحریک میں اس وقت ایک بڑا جذباتی اور امریکہ مخالف تحریک کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد سیاسی صورتِ حال اور حکومتی سطح پر استحکام آجائے گا، وہ غلطی پر ہیں۔ سیاسی حالات میں تنائو اور ٹکرائو کی کیفیت بڑھے گی، اور سیاسی ماحول میں جو بداعتمادی ہے اس میں مزید شدت دیکھنے کو ملے گی۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس سارے بحران کا سیاسی حل نئے فوری انتخابات کی صورت میں سامنے آتا ہے، یا یہ بحران کچھ اور نئی سیاسی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ سیاست داں سیاسی مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں اور سیاست کو ایسی بند گلی میںنہ لے جائیں جہاں سے واپسی کے تمام راستے بند ہوجائیں۔