قومی اسمبلی میں 14گھنٹے کے طویل اور صبر آزما اعصاب شکن انتظار کے بعد بالآخر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔ ملک میں آئین وجمہوریت نے بلاشبہ کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ سابق وزیراعظم اور اُن کے ساتھیوں کی جانب سے اختیار کیے جانے والے تمام غیرآئینی اور آمرانہ حربے عبرت ناک ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ ووٹنگ کا مرحلہ آدھی رات گئے آیا اور 174 ارکان اسمبلی نے عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیے، جس کے بعد اگلا مرحلہ بھی مکمل ہوا اور نومنتخب وزیراعظم محمد شہبازشریف نے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ جو روایت اسمبلی میں ڈالی گئی اسے ایوانِ صدر میں بھی دہرایا گیا کہ صدرِ مملکت نے شہبازشریف سے وزیراعظم کے عہدے کا حلف نہیں لیا بلکہ رخصت پر چلے گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے شہبازشریف سے حلف لیا۔ تقریب میں مسلح افواج کے سربراہان اور سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
شہبازشریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب جن حالات میں سنبھالا ہے اُن میں مسندِ اقتدار بلاشبہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا بستر ہے۔ داخلی اور خارجی تمام محاذوں پر انہیں سنگین چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہائبرڈ نظام سے نجات حاصل کرکے یقیناً ایک اہم سنگِ میل عبور کرلیا ہے۔ سیاسی و مذہبی اور علاقائی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل یہ حکومت چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتی ہے، لیکن شرط ہے کہ یہ اتحاد وقتی مفادات پر تنازعات سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے آگے بڑھے۔ نئی حکومت کے لیے دوسرا فوری چیلنج عمران خان کی شروع کی جانے والی احتجاجی مہم ہے، جس کی ظاہری وجہ اقتدار کی تبدیلی کے لیے کی جانے والی ایک مبینہ غیرملکی سازش کا دعویٰ ہے، جس کی تائید تحریک انصاف کے اہم رہنما اور سابق وزرا کررہے ہیں۔ اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی یہی راہ اپنائی، بلکہ صدر عارف علوی نے بھی غالباً اسی سبب شہبازشریف سے حلف نہیں لیا۔ تحریک انصاف نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ملک کے دیگر ذمے داروں کو یہ خط فراہم کیے جانے کا دعویٰ کیا لیکن کسی نے بھی اب تک اس کا کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا۔ بہرحال ساری احتجاجی تحریک کی بنیاد یہی خط ہے۔ شہبازشریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے اسے پارلیمانی کمیٹی میں لانے کا اعلان کیا اور کہا کہ خط سچ ثابت ہوا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔
خط کے بعد حکومت کے لیے سب سے مشکل چیلنج معیشت کی بحالی، مہنگائی پر کنٹرول اور آئی ایم ایف کے معاہدے سے نجات کا ہے۔ سی پیک کے معاملے میں چین کو سابق حکومت کے رویّے کی وجہ سے جو شکایات پیدا ہوئیں، ان کا جلدازجلد ازالہ بنیادی ہدف ہونا چاہیے۔ آئینی بالادستی، حکومتی مداخلت سے آزاد شفاف اور بلا امتیاز احتسابی نظام کا قیام، انتخابی اصلاحات، ملک بھر میں عوامی حقوق کا یقینی بنایا جانا اور لاپتا افراد کا مسئلہ حل کیا جانا، خارجہ تعلقات میں توازن ازسرنو بحال کرنا، اور ایسے دیگر متعدد چیلنجوں کا سامنا نئی حکومت کو کرنا ہے۔ یہ بڑے مسائل ہیں، تاہم اس حکومت کے لیے انتخابی اصلاحات پہلی ترجیح ہوگی اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی پارلیمانی جماعت صرف اسی شرط پر حکومت کا ساتھ دے گی۔
پوری قوم کو عدم اعتماد کی تحریک کے دوران پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک انوکھا میچ دیکھنے کو ملا کہ تحریک انصاف کے کپتان نے اچانک میچ شروع ہونے سے چند لمحے پہلے میچ کھیلنے سے ہی انکار کردیا، اور نتیجہ یہ ملا کہ عمران خان اپنی ہی سیاسی زندگی شکست خوردگی کی علامت بنا بیٹھے ہیں۔ دراصل پونے چار سال پہلے عمران خان کی حکومت جس طرح بنوائی گئی، پچھلے عام انتخابات کے تمام مراحل میں واضح مداخلت نے جس طرح دوسری سیاسی پارٹیوں کے اپنے حلقوں میں جیتنے کی اہلیت رکھنے والے سیاست دانوں کو تحریک انصاف میں شامل ہونے پر مجبور کیا، انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی جو شکایات ملک بھر سے سامنے آئیں، اس کے بعد بھی پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ملنے پر مخلوط حکومت کے قیام کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کے جو ہتھکنڈے آزمائے گئے، ان اسباب کی بنا پر اس حکومت کی تعمیر میں پہلے دن سے خرابی کی ایک نہیں کئی صورتیں مضمر تھیں۔ تاہم حکومت کے قیام کے بعد عمران خان کے پاس ملک کی تعمیر و ترقی کا اگر کوئی سوچا سمجھا قابلِ عمل پروگرام اور اس کے نفاذ کے لیے لائق افراد کی ٹیم ہوتی، وہ اپنی پوری توانائیاں اس پروگرام پر عمل درآمد کرکے عوام کے مسائل حل کرنے پر صَرف کرتے تو انہیں یقیناً اس صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اتحادی جماعتوں کی حکومت سے علیحدگی کے بعد جب یہ بات کھل چکی تھی کہ عمران خان ایوان کی اکثریت کی حمایت کھوچکے ہیں تو ان کے سامنے مستعفی ہوجانے کا باوقار راستہ موجود تھا، لیکن انہوں نے آخری لمحے تک تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر کو ووٹنگ کرانے سے روکے رکھا، اور جب رات گیارہ بجے توہینِ عدالت کی کارروائی کے لیے سپریم کورٹ کے دروازے کھول دیے گئے اور جج صاحبان عدالت میں پہنچ گئے تب اسپیکر قومی اسمبلی نے مستعفی ہوکر سابق اسپیکر ایاز صادق کو ایوان چلانے کی ذمے داری تفویض کی۔ جس کے بعد تحریک عدم اعتماد ایوان کے 174 ارکان کی حمایت سے منظور ہوگئی اور عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ اپنے انجام کو پہنچی۔ تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کرانے کے دوٹوک عدالتی حکم کو ٹالنے کی خاطر ہفتے کی صبح سے رات بارہ بجے تک جو کچھ ہوتا رہا، پوری قوم نے ٹی وی اسکرینوں کے توسط سے اس کا لمحہ بہ لمحہ مشاہدہ کیا ہے۔ عمران خان بیرون ملک سفیر کے مراسلے کے حوالے سے اپنی حکومت کے خاتمے کی جس مبینہ سازش کا واویلا کرتے رہے، اس کا کوئی ثبوت آخر وقت تک وہ عدالت، ارکانِ پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے نہیں لاسکے۔ بہرحال اب وزیراعظم شہبازشریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سمیت متحدہ اپوزیشن اتحاد میں شامل دوسری تمام جماعتوں کے قائدین نے انتقام کی سیاست نہ کرنے، عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے متحد ہوکر کام کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے، وہ نہایت خوش آئند ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ووٹنگ بلاشبہ ایک اعصاب شکن مرحلہ تھا جس میں بے شمار نشیب و فراز آئے، سپریم کورٹ کے حکم پر جب صبح ساڑھے دس بجے اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن کے بار بار اصرار کے باوجود اسپیکر نے رائے شماری نہیں کرائی، کئی مرتبہ اجلاس میں وقفہ دیا گیا اور بات چلتے چلتے رات پونے بارہ بجے تک پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ کے حکم کی رو سے رات بارہ بجے سے پہلے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری تھی، جب یہ وقت قریب آیا تو اسلام آباد میں سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں، وکلا توہینِ عدالت کی درخواست لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے، چیف جسٹس عطا بندیال نے سپریم کورٹ کھولنے کا حکم دے دیا، جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کھولنے کی خبر بھی پھیل گئی۔ متحدہ اپوزیشن کے ارکان صبح دس بجے سے ثابت قدمی کے ساتھ ایوان کے اندر موجود رہے۔ اِس دوران پوری قوم دھڑکتے دِلوں کے ساتھ یہ سارا کچھ دیکھ رہی تھی۔ یہ کھٹکا بھی موجود تھا کہ اس صورت حال میں کہیں ماورائے آئین مداخلت نہ ہوجائے۔ یہ اس لیے محسوس ہورہا تھا کہ حکومت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے غیر معمولی اور بلا جواز تاخیر کیے جارہی ہے اور معاملہ اگلے دن پر ڈالنا چاہتی ہے۔ ایوانِ وزیراعظم میں اُس روز ایک الگ منظر تھا کہ وزیراعظم عمران خان کسی صورت عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہونے دینا چاہ رہے تھے، مگر ان کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ جب 9 اپریل کے ختم ہونے میں نصف گھنٹہ رہ گیا تو اچانک تیزی سے واقعات رونما ہوئے، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ایوان میں آئے، مسند ِ صدارت سنبھالی اور یہ بتایا کہ انہیں وہ مراسلہ دکھایا گیا ہے اور اس کی ایک کاپی دی گئی ہے، جو غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے موصول ہوا ہے۔ پھر انہوں نے اعلان کیا کہ چونکہ ان کی عمران خان سے دیرینہ رفاقت ہے اِس لیے وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتے۔ انہوں نے اپنے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور پینل آف چیئرمین کے رکن ایاز صادق کو مسند ِ صدارت سونپ کر ایوان سے رخصت ہوگئے۔ ان کے بعد ایاز صادق نے صدر نشین کی حیثیت سے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی آگے بڑھائی اور ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔ گنتی ہوئی تو تحریک کے حق میں 174 ووٹ آئے۔ یوں عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے فارغ ہوگئے اور ملکی تاریخ میں پہلے وزیراعظم بن گئے جو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنے منصب سے ہٹائے گئے۔ وہ 3 سال 8 ماہ وزارتِ عظمیٰ پر فائز رہے اور ان کا نام بھی اُن وزرائے اعظم کی فہرست میں درج ہوگیا جو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے سرکاری نتائج پر اسپیکر اسد قیصر نے دستخط کیے، یہ ایک آئینی ذمے داری تھی۔ اس کے بعد نتائج صدر مملکت کو بھجوائے گئے، جن کی توثیق کے بعد یہ سارا آئینی اور قانونی مرحلہ مکمل ہوگیا۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کئی ڈرامائی لمحات سے گزری۔ 7 مارچ کو جب یہ تحریک جمع کرائی گئی تو آئین کے مطابق اسے 14 دن کے اندر قومی اسمبلی میں پیش کیا جانا ضروری تھا، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ رائے شماری کا وقت آیا تو 3 اپریل 2022ء کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آئین کا آرٹیکل 5 استعمال کرکے اسے مسترد کردیا۔ ان کے اس اقدام کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور پانچ دن کی مسلسل سماعت کے بعد حکم جاری کیا کہ9اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے۔ اسی حکم میں ڈپٹی اسپیکر کے حکم کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ وزیراعظم کی اسمبلی توڑنے کے حوالے سے صدر کو بھیجی گئی تجویز اور صدرِ مملکت کی طرف سے قومی اسمبلی کی تحلیل کے حکم کو بھی آئین سے متصادم قرار دے کر اسمبلی بحال کردی گئی۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر بلا کسی رکاوٹ کے رائے شماری ہوجائے گی، مگر 9 اپریل کو جو کچھ ہوا یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ناقابلِ تعریف باب ہے۔ وزرا یہ بیان دیتے رہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتی، دوسری طرف یہ بات بھی ثابت تھی کہ قومی اسمبلی کے اندر حکومت اپنی اکثریت کھو چکی تھی اور اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد کے لیے مطلوبہ تعداد تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب سابق وزیراعظم عمران خان ایک بہتر فیصلہ کرکے ملک کو بے یقینی کی صورتِ حال سے نکال سکتے تھے، مگر اُن کا مسلسل اصرار تھا کہ شکست نہیں مانیں گے۔ وہ آخری گیند تک مقابلہ کرنے کی جو بات کرتے رہے وہ غالباً یہ تھی کہ سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈلائن کے آخری لمحوں تک انہوں نے ووٹنگ نہیں ہونے دی، جس سے ہیجان پیدا ہوا اور ایک بڑے بحران کے خطرات منڈلانے لگے۔ یہ بات ظاہر ہوچکی تھی کہ وہ ا کثریت کھو چکے ہیں۔اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ اس پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کرائی جائے۔ بہرحال اب یہ سارے واقعات تاریخ میں محفوظ ہو گئے ہیں۔ اب مرحلہ آگے بڑھنے کا ہے۔ عمران خان اب اپوزیشن میں ہیں، انہوں نے اپنے آخری خطاب میں خود بھی یہ اشارہ دیا تھا کہ عوام میں جائیں گے۔ متحدہ اپوزیشن اب متحدہ حکومت بن چکی ہے، بہتر راستہ تو یہی ہوگا کہ حزبِ اختلاف اور حکومت مل کر مستقبل کا روڈ میپ طے کریں، انتخابی اصلاحات پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے تاکہ آئندہ ہونے والے انتخابات صاف و شفاف ہوں۔ حکومت ہاتھ سے چھن جانے پر تحریک انصاف اپنا احتساب کرے اور سڑکوں پر احتجاجی سیاست کا باب اسے بند کرنا چاہیے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بھی اس جانب اشارہ دیا ہے۔ اگر اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جمہوریت ہے تو اس کا حل بھی صرف اور صرف بہترین جمہوریت میں ہی ہے۔
پاکستان کی سیاست کی کہانی یہی ہے کہ یہاں تخت اور تختے کا فاصلہ بہت کم ہوتا ہے۔ 75سالوں میں کوئی بھی وزیراعظم پانچ سال تک عہدے پر نہیں رہ سکا،تبدیلی کبھی آئین و قانون کی حدکے اندر ہوئی اور کبھی تبدیلی کے لیے قانون طاقت کی گرفت میں آیا۔ عمران خان ملک کے غالباً پہلے وزیراعظم تھے، جن کا اقتدار ایک صفحے سے شروع ہوا اور انہیں ابتدا میں تاریخی ساز گار ماحول ملا ،مگر وہ اپنے تکبر،ضد، اَنا پرستی اور ایک نااہل ٹیم کے باعث اقتدار سے بے دخل ہوئے، وہ چاہتے تو سازگار ماحول کا فائدہ اٹھاکر ملک اور عوام کے لیے بہتری لاسکتے تھے، لیکن انہوں نے حلف کے بعد ایوانِ وزیراعظم کی بھینسیں فروخت کرنے کے عمل سے امورِ حکومت کا آغاز کیا۔کٹوں، مرغیوں کی مدد سے ملکی معیشت چلانے کی کوشش کی۔
اپوزیشن کو پہلے بدعنوان کہتے رہے اور اقتدار جاتا دکھائی دیا تو انہیں غدار قرار دے دیا۔ ان کے مشیر ہی ایسے نکلے اور ہر مشورہ ایسا دیا کہ آخر آج کا دن آ لگا۔ افسوس، وہ نوجوان جو عمران خان کو اپنی امید سمجھتے تھے کس قدر مایوس ہوں گے۔ خان صاحب نے ان برسوں میں کچھ نہ کچھ اچھا بھی کیا ہوگا، لیکن ان کے دور میں بدزبانی کے فن کو جو عروج نصیب ہوا وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان کی بحرانوں سے اٹی سیاسی تاریخ میں اگر کوئی چیز سب سے کمزور ہے اور جسے کسی بھی وقت گرایا جا سکتا ہے وہ ہے وزیراعظم… چاہے وہ بھاری مینڈیٹ والی نوازشریف کی یا سادہ اکثریت والی عمران خان کی حکومت ہو۔ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑانے سے ایک بات واضح ہے کہ عوام کے ووٹ کی طاقت سے آئے منتخب نمائندوں کو ہٹانا سب سے آسان کام ہے۔ وزیراعظم کے کمزور ہونے کی غالباً سب سے بڑی وجہ محدود معاشی وسائل پر مخصوص گروپوں کے درمیان جنگ ہے۔ ذاتی یا ادارہ جاتی مفادات کے آگے اصول اور قانون محض کاغذ پر لکھی تحریر بن کر رہ جاتے ہیں۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران حالات کا اتار چڑھائو اس قدر تھا کہ دائیں ہاتھ میں جو کچھ تھا، بایاں ہاتھ بھی اسے دیکھنے کے باوجود کچھ کہنے سے گریزاں تھا۔ غیر معمولی سرگرمیوں، فیصلوں اور واقعات کی ایسی داستانیں ہیں کہ کچھ بیان کرتے ہوئے پَر جلتے ہیں۔ یہ کہانیاں کیمروں اور کمروں میں زیادہ عرصے تک بند نہیں رہ سکیں گی۔ فیصلوں کے تین کردار تھے: ایک عدلیہ جس نے فیصلہ دیا، دوسرا انتظامیہ جسے اس فیصلے کو تسلیم کرنا تھا، اور تیسرا پارلیمنٹ، جس میں عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر حکومت نے اسے سنجیدہ نہیں لیا، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو پہلی بار محسوس ہوا کہ اب آنکھیں ماتھے پر رکھ لی گئی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت تاخیری حربے اختیار کرکے وقت گزاری کرتی رہی تاکہ کوئی درمیانی راہ نکل سکے۔ لہٰذا گہما گہمی کے مرکز پارلیمنٹ ہاؤس میں کبھی اجلاس کی کارروائی چلا کر، کبھی ملتوی کرکے مذاکرات کیے جاتے رہے۔ لیکن تحریک عدم اعتماد حزبِ اختلاف جیت چکی تھی۔ تحریک عدم اعتماد کے نتائج پر مستعفی اسپیکر اسد قیصر نے دستخط کیے۔ اسد قیصر قومی اسمبلی سے روانگی سے پہلے رزلٹ شیٹ پر دستخط کرکے گئے۔ ووٹنگ کے نتائج مکمل ہونے پر صرف نتائج کا اندراج کیا گیا۔ رولز کے تحت تحریک عدم اعتماد کے نتائج فوری طور پر صدر کو بھجوانا ضروری ہیں، صدرِ پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک عدم اعتماد کی منظوری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ صدر کی منظوری سے نوٹیفکیشن سیکرٹری قومی اسمبلی نے جاری کیا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں چاہیے یہ تھا کہ سیاسی بے چینی ختم ہوجاتی، تاہم یہ ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اس نے جمہوریت اور آئین کی پاس داری کی خاطر یہ قانونی جنگ جیتی ہے۔ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ بیرونی سازش سے حکومت ختم کی گئی۔ لہٰذا یہ سیاسی کشمکش 70 اور80 کی دہائی کی سیاسی کشمکش سے بہت زیادہ خطرناک ہے۔ اس کشمکش کا نتیجہ غیر جمہوری قوتوں کے اقتدار میں آجانے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ عمران خان نے پورے ملک میں مظاہروں کا بھی
اعلان کردیا ہے، جس سے نہ صرف ملک میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ اگر حکومت تحریک انصاف کے مظاہروں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے تو مظاہرے متشدد ہوسکتے ہیں، کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک قومی ایجنڈا ہونا چاہیے جس میں صوبوں کے حقوق اور اداروں کی آئینی حدود کے حوالے سے ڈائیلاگ ہو، اور پھر ایک ایجنڈا تیار کیا جائے، جو کچھ سالوں تک نافذ کیا جائے۔ ورنہ قومی ایجنڈے کے بغیر عدم استحکام بڑھے گا-