نئے وزیراعظم کا ”امتحان“

الحمد للہ! کئی ہفتوں سے بحران آلود سیاسی فضا میں قدرے ٹھہرائو کی کیفیت پیدا ہوئی ہے، اقتدار کے ایوانوں میں بے یقینی کا خاتمہ ہوا اور مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت وجود میں آ گئی ہے۔ نئے وزیر اعظم ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں حکمرانی کا خاصا طویل تجربہ رکھتے ہیں اس دوران چونکہ ان کے بڑے بھائی محمد نواز شریف وفاق میں وزیر اعظم رہے، اس لیے انہیں وفاقی حکومت کے امور میں حصہ لینے کا موقع بھی ملتا رہا۔ تاہم جس طرح کے عالمی اور ملکی حالات میں انہوں نے اقتدار سنبھالا ہے اس میں وزارت عظمیٰ ان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہو گی بلکہ انہیں کئی ایک سنگین اندرونی و بیرونی مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن میں سے اولین اپنے ان اتحادیوں کو مطمئن اور راضی رکھنا ہوگا جن کے مابین عمران کی مخالفت کے علاوہ کوئی نکتہ اتفاق موجود نہیں، پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) نامی اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت، جمعیت العلماء اسلام (ف) کی تشکیل، اٹھان، دستور، منشور اور وابستگان ہر حوالے سے ملک میں شریعت کی بالادستی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے علمبردار ہیں جب کہ اس کے برعکس اکثر دیگر اتحادی جماعتیں خصوصاً پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم اور بلوچستان کی صوبائی جماعتیں کم و بیش سبھی، ملک کا سیاسی ڈھانچہ سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی داعی ہیں، اس کے علاوہ ان میں سے اکثر اپنے سیاسی پروگرام اور منشور وغیرہ کے حوالے سے ایک دوسرے کی مد مقابل قرار پاتی ہیں۔ اس لیے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جمع کر کے بھان متی کا جو کنبہ عمران خاں کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے جوڑا گیا تھا ان کو زیادہ دیر تک اکٹھے رکھنا اور ساتھ لے کر چلنا آسان نہیں ہو گا خود نواز لیگ اور پیپلز پارٹی حقیقی سیاسی میدان میں ایک دوسری کی حلیف نہیں بلکہ حریف ہیں دونوں جماعتیں قبل ازیں 2008ء میں بھی ایک بار فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے مقابلہ کے لیے اکٹھے چلنے کا ناکام تجربہ کر چکی ہیں، اسی دوران میں جناب آصف علی زرداری سے یہ معرکۃ الآرا جملہ سرزد ہوا تھا کہ ’’وعدے اور معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ ان کا احترام اور پابندی کی جائے۔‘‘ اس پس منظر میں موجودہ حکومتی اتحاد کو جاری رکھنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہو گا اور اس امر کا امکان موجود ہے کہ سانجھے کی یہ ہنڈیا کسی بھی وقت عین چوراہے میں پھوٹ جائے کیونکہ اتحادیوں میں باہم شکوے شکایات اور ایک دوسرے کے مد مقابل نعرہ بازی کا سلسلہ شروع بھی ہو چکا…!
دوسرا اہم چیلنج ملکی معیشت کی بحالی ہو گا، عالمی کساد بازاری، کورونا اور روس یوکرائن جنگ کے بین الاقوامی تناظر اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روز گاری، اندرونی و بیرونی قرضوں اور ان پر بڑھتے چڑھتے سود کے ناقابل برداشت بوجھ، گردشی قرضوں کے شیطانی چکر اور مبینہ طور پر 5600 ارب کے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی خسارے کی موجودگی میں اس چیلنج سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہو گا ۔ وزیر اعظم نے اپنے انتخاب کے بعد پہلی تقریر میں جہاں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو دس فیصد اضافہ کی نوید سنائی وہیں سرمایا کاروں کو بھی ایک لاکھ تک تنخواہ پانے والے ملازمین کو دس فیصد اضافہ کرنے اور کم از کم اجرت پچیس ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے جو یقینا خوش آئند ہے مگر اعلان سے کہیں زیادہ اہم اور مشکل مرحلہ نجی شعبہ سے ان اعلانات پر عملدرآمد کرانا ہو گا۔ وزیر اعظم کے لیے اپنی اولین تقریر کے دوران کئے گئے اعلانات پر عملدرآمد کو یقینی بنانابھی کامیابی کے لیے لازم ہو گا۔ اس کے علاوہ خارجہ محاذ پر بھی نہایت محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ ایک جانب اگر بین الاقوامی سطح پر سرد جنگ کا از سر نو آغاز ہو چکا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمہ کے ضمن میں جو متنازعہ سفارتی مراسلہ عمران خان سامنے لائے ہیں اس سے پیدا شدہ صورت حال نہایت محتاط رویہ کی متقاضی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی قومی اسمبلی کی تقریر میں اس مراسلہ کے معاملہ کو پارلیمان کی سیکیورٹی کمیٹی کے بند کمرے کے اجلاس میں زیر بحث لانے اور بیرونی سازش ثابت ہونے پر استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان کی جانب سے اسمبلی سے استعفوں کے اعلان کے بعد گویا پارلیمانی سیکیورٹی کمیٹی میں حزب اختلاف کی موثر نمائندگی موجود نہیں ہو گی تو وہاں ہونے والی کسی کارروائی کو قابل اعتماد کیسے ٹھہرایا جا سکے گا۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کی تجویز نہایت صائب ہے جنہوں نے دیر پائن میں بلدیاتی نمائندوں اور امیدواروں کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ امریکہ کی پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ڈھکی چھپی نہیں جماعت اسلامی ماضی میں اس صورت حال سے نجات کے لیے ’’گو امریکہ گو‘‘ کی تحریک چلاتی رہی ہے۔ اب نئی حکومت اگر واقعی اس معاملہ میں ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی، کرنے میں سنجیدہ ہے تو لازم ہے کہ جناب سراج الحق کی تجویز کے مطابق عدالت عظمیٰ کی جانب سے ’’جوڈیشل کمیشن‘‘ قائم کیا جائے تاکہ کسی قابل اعتماد اور قابل عمل نتیجہ تک پہنچا جا سکے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)