رمضان کے واقعات

ماہِ رمضان کے بارے میں اس زمین پر سب سے پہلے اترنے والی آیات یہ تھیں: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘(البقرۃ:185)
آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قرآن کریم نفوس کا صیقل گر ہے، دلوں کا طبیب ہے، روحوں کی دوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے۔
غزوہ بدر بھی رمضان میں ہوا، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کی مدد کی اور اپنے دین کو غالب کیا۔ اور یہ مسلمانوں کی عملی دعوت کا پہلا دور تھا۔
’’آخر اس سے پہلے جنگِ بدر میں اللہ تمہاری مدد کرچکا ہے حالانکہ اُس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔‘‘
(آل عمران:123)
فتح مکہ بھی رمضان میں ہوئی اور اسی کی بدولت جزیرۃ العرب میں مختصر مدت میں اسلام پھیلا۔ اور یوں ایمان اور شرک کے مابین موجود فاصلہ مٹ گیا کیونکہ ایمان نے جزیرہ عرب کے دل پر، جزیرہ عرب کے شہروں کے کوہان کی چوٹی پر، اور فرزندانِ جزیرہ کے فخر پر اور عزت و تقدس کے گھر مکۃ المکرمہ پر قبضہ کرلیا جو اللہ تعالیٰ کے پرانے گھر کا مستقر ہے۔
’’اے نبیؐ! ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے اور تم کو زبردست نصرت بخشے۔‘‘
(الفتح 3-1: )
اور رمضان میں وہ لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات میں کائنات مقرب فرشتوں سے آباد ہوتی ہے اور روح امین کے وجود سے شرف یاب ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں:
رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس کے دن روزے سے معمور ہوتے ہیں اور راتیں قیام سے۔ یہ ماہِ خلوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مساجد میں اعتکاف سے نمایاں کیا ہے۔ لوگوں کے میل جول سے پیدا ہونے والے شوروغوغا سے دور رہنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ دنیاوی معمولات میں چلت پھرت کے مضر نتائج سے محفوظ رہنے کے لیے اعتکاف کو پسندیدہ ٹھیرایا ہے تاکہ روح کی خلوت کمال پائے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ سچے دلوں پر حق کے فیض عام ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے رابطہ مضبوط ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کو ایک موقع غنیمت جان کر فائدہ اٹھاتے تھے۔ آپؐ اسے طرح طرح کی نیکیوں سے آباد رکھتے تھے۔ ہمارے گزشتہ نیک بزرگوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم دن کے روزے کو بطریق احسن رکھتے تھے، اور یہ وہ فریضہ ہے جو اللہ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ماہِ مبارک میں جودوسخاوت کا مظہر کامل ہوتے، کھل کر صدقات دیتے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے۔ سخاوت یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سال بھر کا معمول تھا مگر رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کئی گنا بڑھ جایا کرتی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رات کو نماز تہجد اور نوافل سے آباد کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے تو نماز کو مختصر کرتے، مگر جب اپنے گھر تشریف لے جاتے تو نماز لمبی پڑھتے، پھر اسے اور لمبا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تسبیح و قرآن میں گزار دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل امین علیہ السلام کے ساتھ کتاب اللہ کا دور کرتے تھے۔ اس لیے کہ ماہِ رمضان دراصل ماہِ قرآن ہے۔ لہٰذا روحانی سرگرمی اور تزکیۂ نفس کے لیے رمضان و قرآن باہم دگر لازم و ملزوم ہیں۔ اسی سے صیام و قیام کے انوار براہِ راست دل پر پڑتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کو سمجھتے اور اس میں تدبر کرتے، اس کے معنی میں غور کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشروں میں معتکف ہوتے، مستعد وچوکس ہوتے، اپنی کمر کس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بیدار کرتے۔
یہ تھا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حال ماہِ رمضان میں۔ اور اسی کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنایا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا۔ اس امت کے تابعین صالحین نے صحابہ کی پیروی کی۔ ان میں سے وہ صاحب بھی تھے کہ جب رمضان آیا تو آپ نے اپنے دوستوں کو عید تک الوداع کردیا اور پھر مکمل طور پر اطاعتِ الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ اپنے جسم و روح اور قلب و فواد کو لیے اللہ کی طرف راہِ فرار اختیار کی۔
(حسن البناء شہید کی کتاب ’’افکارِ رمضان ‘‘سے انتخاب۔ ترجمہ: محمدظہیر الدین بھٹی)