ایک ’صدارتی قصہ‘ َموَالیوں کا

ولیوں پر کالم شائع ہونے کی دیر تھی کہ ’اللہ کے ولیوں‘ کی یلغار ہوگئی۔ سب اپنے اپنے کشف ہم پر منکشف کرنے کو دوڑ پڑے۔
حیدر آباد دکن (بھارت) سے مولانا عبید اختر رحمانی کا ایک مفصل عالمانہ مضمون موصول ہوا ہے، جس سے علم میں اضافہ ہوا۔مولانا نے، کالم میں نقل کیے گئے، حضرت عمرؓ کے قول پر بھی اسناد کے ساتھ بحث فرمائی ہے اور استنتاج کیا ہے کہ یہ روایت سنداً کمزور ہے۔
’اللہ کے ولی‘ اردو زبان کا روز مرہ ہے۔ قرآنِ مجید کی سورۃ الحجرات، آیت نمبر ۱۱ میں ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارنے کی ممانعت آئی ہے۔لہٰذا جو لوگ قرآنِ کریم کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں وہ غصے میں بھی کسی کو بُرے لقب سے نہیں بلاتے۔اگر کسی کی کسی حرکت پر غصہ آ جائے تواللہ کے یہ ولی طیش میں بھی یوں پکارتے ہیں:’’ارے، ارے، اللہ کے ولی! یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘
ارضِ مقدس، سعودی عرب سے اللہ کے ولی برادر سید شہاب الدین کا نامہ (یا یوں کہہ لیجیے کہ ’شہاب نامہ‘) موصول ہوا ہے:
’’ولی اور اولیا پر بہت عمدہ، معلوماتی اور خوب صورت تحریرہے۔ آپ بھی کسی ولی سے کم نہیں، ماشاء اللہ۔ کیا ’ولایت‘ بھی اسی سے نکلا ہے؟ آپ نے ایک اور ولی کا ذکر نہیں کیا، جس کا لڑکی کے نکاح کے وقت موجود ہونا ضروری ہے‘‘۔
شہاب بھائی! ابھی تو کئی ولی رہتے ہیں۔جی ہاں!’ولایت‘ بھی ’وِلا‘ یا ’ولی‘ سے نکلا ہے۔ اس کے متعدد معانی لیے جاتے ہیں۔ ایک تو ولی کے منصب یا مرتبے پر فائز ہونا۔ دوسرے کسی کا متولی، کفیل یا سر پرست ہونا۔ غالبؔ نے ایک شان دار ’’مثنوی در صفتِ انبہ‘‘ لکھی ہے۔ آم غالباً اُن کو ’ولی عہد‘ شہزادہ جواں بخت نے بھجوائے تھے، یہ خود شہزادے کی خوش بختی و جواں بختی تھی۔غالبؔ کہتے ہیں:
وہ کہ ہے والیِ ولایتِ عہد
عدل سے اس کے ہے حمایتِ عہد
ولایت کے ایک معنی ’’کسی ملک، ریاست، علاقے یا بادشاہ کی عمل داری میں ہونا‘‘ بھی ہیں۔ آج کی زبان میں کہہ لیجیے کہ ’’کسی ملک کی نوآبادی یا کالونی ہونا‘‘۔ برصغیر بہت مدت تک برطانیہ کی’نو آبادی‘ تھا،شاید اب بھی ہو۔ پس، اہلِ ہند کے لیے مدت تک انگلستان ہی ’ولایت‘ بنا رہا۔ ’ولایتی عہد‘ میں، انگریزوں کو اُردو سیکھتے دیکھ کر استادِ شہ حضرتِ ذوقؔ نے بھی شاہِ ولایت سے محبت کی پینگیں بڑھالیں:
زبانِ ریختہ کر دی زباں اہلِ ولایت کی
محبت ذوقؔ کو از بس کہ ہے شاہِ ولایت کی
اُس زمانے میں انگلستان سے آنے یا لائی جانے والی ہر شے ’ولایتی‘ کہلاتی تھی، خواہ وہ باجا ہو یا باجی۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، ولی کا مطلب نگراں، نگہبان، کفیل یا سرپرست بھی ہے۔ لڑکی کے نکاح کے وقت جس ولی کی موجودگی لازم ہے، وہ لڑکی کا باپ بھی ہو سکتا ہے اور باپ زندہ نہ ہو تو ماموں، چچا، تایا، جو بھی لڑکی کا کفیل ہو، وہ اُس کا ولی کہلائے گا۔ باپ زندہ ہو اور کسی مجبوری سے تقریبِ نکاح میں شریک نہ ہوسکے تویہ ’ولایت‘ اپنی طرف سے کسی اور کوبخش سکتا ہے۔تایا، چچا، ماموں یا لڑکی کے بڑے بھائی وغیرہ کو۔ اسلامی نظام میں ریاست یا حکومت ہر بے سہارا لڑکی کے لیے ’ولی‘ ہوتی ہے۔
ولی کا ایک مطلب مخصوص امور کا ماہر ہونا بھی ہے۔ ایسا شخص اپنی مہارت کے شعبے سے متعلق اُمور میں ہمارا ’ولیِ امر‘ہوتا ہے۔ ولیِ امر کی جمع ’اولی الامر‘ ہے۔ ’اولی الامر‘ سے مراد عموماً صرف حکام یا خسروان ِ وقت لیے جاتے ہیں جو ’رموزِ مملکت خویش‘ کے ماہر گردانے جاتے ہیں۔ بے شک حکام کا شمار بھی ’اولی الامر‘ ہی کے زُمرے میں ہوگا کہ وہ ’اجتماعی اُمور‘ کے نگراں، نگہباں اور قوم کے کفیل ہوتے ہیں،نیز قرآنِ مجید نے اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے بعد اُن کی اطاعت بھی لازم ٹھیرائی ہے۔ مگر یہ اطاعت صرف معروف میں ہوگی، مُنکَر میں نہیں اور خالق کی فرماں برداری میں ہوگی، نافرمانی میں نہیں۔ تاہم وہ لوگ بھی ’ولیِ امر‘ کے زُمرے میں ہیں جوکسی خاص معاملے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔مثلاً طبیب اور مفتی۔ اگر طبیب آپ سے کہہ دے کہ بڑا گوشت نہ کھائیے، آپ کی صحت کے لیے مضر ہے، تو از رُوئے شرع آپ پر اس کی اطاعت لازم ہے کیوں کہ صحت کے معاملے میں وہ آپ کا ’ولیِ امر‘ ہے۔
دہلی (بھارت) سے محترم ڈاکٹر تابشؔ مہدی صاحب کوہمارا کالم پڑھ کر سلطانِ سخن علامہ شہبازؔ صدیقی امروہوی مرحوم کا ایک شعر یاد آگیا۔ یہ شعر علامہ شہبازؔکی نظم ’’بھنگیوں کی ہڑتال‘‘ کا آخری شعر ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:
رکھے درِ اجابت کب تک کوئی دبا کے
ہر شخص میں نہیں ہیں اوصاف اولیا کے
اللہ کے ایک اور ولی ہیںڈاکٹر محمد سلیم صاحب۔یہ جامعہ ملک عبدالعزیزرابغ (سعودی عرب) میں کلیۃ العلوم و الآداب کے استاذ ہیں۔ تعلق الٰہ آباد (بھارت) سے ہے۔ ہندی الفاظ، اصطلاحات اور محاوروں کی تفہیم میں اکثر ہماری ’’فاصلاتی‘‘ رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔ (دیکھیے ‘Remote’کے لیے اردو میں کتنا دل کش لفظ بس ہونٹ بھر کے فاصلے پر پایا جاتا ہے) گزشتہ کالم پر تبصرہ فرماتے ہوئے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب لکھتے ہیں:’’عمدہ۔ لیکن موالی کا ذکر نہ ہونے سے تشنگی کا احساس ہوا‘‘۔(گویا: تشنگی عام ہوئی، نام کو سب تک پہنچی)
’موالی‘ یوں تو مولیٰ کی جمع ہے۔ اس کا مطلب غلاموں یا نوکروں چاکر وں کا مجمع ہونا چاہیے، سو ہے۔مگر عصرِ حاضر میں لفظ ’موالی‘ سے وہی سلوک کیا جانے لگاہے جو گھریلو نوکروں، چاکروں یا خادموں سے کیا جاتا ہے۔ اردو ادب میں لفظ ’موالی‘ کا استعمال دوستوں، جاں نثاروں، وفاداروں، اہل ِدربار اور حاضر باشوں کے لیے بھی کیا گیا ہے۔کسی مرثیے کا مصرع یاد آیا، شاعر کا نام نہیں معلوم، مگر کوئی نہ کوئی اُٹھ کر بتا ہی دے گا، انداز انیسؔ و دبیرؔ کا ہے کہ’’اس دُکھ میں نہ یاور تھے نہ مولیٰ کے موالی‘‘۔موالی کے اِنھیں معنوں سے مَوَالات بنا ہے۔ مطلب باہمی اتحاد، آپس کی دوستی، وفاداری یا کاروباری معاہدہ ۔دوستی کے معنوں میں میرؔ کہتے ہیں:
سبب ہو تو کہے کوئی موالی
کہاں کی دشمنی تجھ سے نکالی
گویا ’اولیا‘ کی طرح ’موالی‘ کو بھی بطور واحد استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔یوںغلام، فقیر، درویش، زرعی خدام (ہالی موالی) سے ہوتے ہوتے بے چارا ’ موالی‘ پہلے مجذوب بنا، پھر فاتر العقل ٹھیرا، پھرآوارہ گرد کہلایا، آخر کارنشئی ہوگیا۔ نشہ چڑھتے ہی غنڈہ اور بد معاش بھی ہو گیا۔ پس آج کل ’موالی‘ کالفظ ان سب ہی معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ ’موالی‘ پر(باقی صفحہ 41پر)
صدر ضیاء الحق یاد آگئے۔وہ بھی ’مردِ موالی‘ تھے۔
کراچی کے ایک ہوٹل میں ’اُردو ڈائجسٹ‘ لاہور کی سال گرہ کی تقریب تھی۔ لکھاری سمجھ کر یا موالی جان کر ہم بھی بلا لیے گئے۔دیگر مہمانوں کے ساتھ بلوچستان کے مشہور عالمِ دین مولانا عبداﷲ خلجی بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ ضیاء صاحب اُن کے علم اور تقویٰ سے بہت متاثر تھے۔ صدارتی خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو صدر صاحب نے مولانا عبداﷲ خلجی کا خاص طور سے ذکر کیااور ایک قصہ سنایا کہ کسی جگہ کچھ چرسی موالی بیٹھے چرس کے سُوٹے لگا رہے تھے۔اُدھر سے ایک مولوی صاحب کا گزر ہوا۔ مولوی صاحب نے موالیوں کو دیکھا توگزرتے گزرتے اُن سے بِالجہرفرماتے گئے:’ ’السلامُ علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہٗ‘‘ اوریہ فرماکر آگے بڑھ گئے۔ موالیوں پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ ساکت ہوکر سب موالی مولوی صاحب کو دور تک جاتے دیکھتے رہے۔ دیرتک سکتے میں رہنے کے بعد جب ایک موالی کو ہوش آیا تونہایت معترفانہ انداز میں گردن ہلاتے ہوئے بولا:’ ’ مولویوں میں بھی مسلمان موجود ہیں!‘‘
یہ سن کرمولانا عبد اﷲ خلجی سمیت تمام حاضرین نے ایک زبردست قہقہہ لگایا۔ خود صدر صاحب کا قہقہہ سب سے بلند تھا، کیوں کہ وہ بلند گو (Loud Speaker) سے منہ بھڑائے جو کھڑے تھے۔