دوسرا اور آخری حصہ
اسلامی تحریک کے سرگرم، متحرک اور فعال رہنما حسین خاں گزشتہ دنوں اپنے خالق حقیقی سے جاملے، آپ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ رہے اور جاپان میں دعوت اسلامی اور اسلامی تحریک کے کام کو آگے بڑھانے میں اہم خدمات انجام دیں۔ زیر نظر مضمون آپ نے ماہنامہ ترجمان القرآن کے مولانا مودودیؒ نمبر کی خصوصی اشاعت کے لئے تحریر کیا جو اکتوبر 2003ء میں شائع ہوا۔ حسین خاں کی یاد میں ان کے اس مضمون کی دوسری اور آخری قسط ملاحظہ کیجئے (ادارہ)
شاہ فیصل نے جب جاپان کا سرکاری دورہ کیا تھا‘ اُس وقت مسلمانوں کا ایک وفد ان سے ملنے گیا، جس میں میرے علاوہ مرحوم پروفیسر عبدالکریم سائتو اور کچھ دوسرے مسلمان رہنما شامل تھے۔ ہم لوگوں نے اس وقت ٹوکیو میں شاہ فیصل کے سامنے جاپان میں مسلمانوں کی تنظیم و یکجہتی اور دعوتِ اسلام کے فروغ کے لیے جو تجاویز رکھی تھیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر صالح مہدی سامرای کو اسلام کے مبلغ کے طور پر سعودی حکومت کے خرچ پر جاپان واپس بھیجا جائے کیوں کہ اس وقت تک وہ ٹوکیو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جاپان سے واپس چلے گئے تھے اور سعودی عرب کی جدہ یونیورسٹی میں شعبہ زراعت کے پروفیسر کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔
اس طرح جب ڈاکٹر سامرای دوبارہ جاپان واپس آئے تو انہوں نے عربوںسے چندہ جمع کرکے کئی لاکھ ڈالر کا ایک اسلامک سینٹر تعمیر کیا۔ پھر ڈاکٹر سامرای ہماری درخواست پر پاکستان گئے اور وہاں سے عبدالرحمٰن صدیقی کو جاپان لے کر آئے۔ عبدالرحمٰن صدیقی صاحب نے 1975ء سے 1999ء تک یہاں پر اسلامک سینٹر میں نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان دونوں افراد کی وجہ سے اسلامی سینٹر کی ساری سرگرمیوں میں فکر مودودی مختلف انداز میں اپنے اثرات دکھاتی رہی۔
مولانا کے کئی چیدہ چیدہ مضامین ان کے سہ ماہی رسالہ ”اسلام“ میں شائع ہوئے اور آج بھی جاپانی زبان میں ترجمہ کروا کے شائع کیے جاتے ہیں۔ عبدالرحمٰن صدیقی صاحب نے مولانا مودودی کے 14 فکر انگیز کتابچے بھی شائع کرکے مفت تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔ رسالہ ”دینیات“ کو بھی چھپوا کر اہتمام کے ساتھ ہر سال دل چسپی رکھنے والے جاپانیوں میں مفت تقسیم کرنے کا سامرای صاحب اور صدیقی صاحب نے نظامِ کار بنایا۔ اب اسلامک سرکل آف جاپان نے جاپان مسجد فائونڈیشن کے تحت بھی اسے شائع کیا ہے۔ مولانا مودودی کے خطبے ”سلامتی کا راستہ“ کا جاپانی ترجمہ مساجد میں مفت تقسیم ہوتا ہے۔
مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ختم ہوگئی تو اس کی جگہ جاپان مسلم ایسوسی ایشن بنی‘ جو اس وقت سے اب تک یعنی گزشتہ تقریباً چالیس سال سے دعوت اسلامی کے کام میں کسی نہ کسی شکل میں مشغول ہے۔ اس میں فکر مودودی کی سرایت کی ایک شکل تو یہ رہی ہے کہ اس فکر کے علَم بردار غیر جاپانی مسلمان اس کی قیادت میں شامل رہے۔ کافی عرصے تک اس کے صدر ایک جاپانی بزرگ مسلمان پروفیسر عبدالکریم سائتو تھے اور میں ان کے ساتھ سیکرٹری جنرل رہا اور ڈاکٹر سامرای صاحب اس کے ڈائریکٹروں میں رہے۔ ابتدا میں یہ خیال تھا کہ جاپانی اور غیر جاپانی مسلمان سارے اکٹھے ہو کر جاپان میںدعوت اسلامی کا کام کریں۔ چنانچہ ہم سب لوگوں نے مل کر قرآن کے پہلے جاپانی ترجمے کی اشاعت ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کروانے کی شروعات کیں۔
ابتدا میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے بعد جاپان مسلم ایسوسی ایشن ہی کافی عرصے تک مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت رہی۔ مجھے جاپان آنے کی دعوت دینے والی جماعت بھی یہی تھی۔ جب عبدالرحمٰن صدیقی صاحب کی طالب علمی کا دور ختم ہوا اور انہوں نے پاکستان واپسی کا ارادہ کر لیا تو ان کی یہ ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ پاکستان سے کسی ایسے فرد کو تلاش کرکے جاپان بھیجیں جو اس ملک میں دعوتِ اسلامی کے کام کے لیے ہمہ وقت کارکن بن کر مستقل یہیں سکونت اختیار کر سکے۔ اتفاق سے یہ مشرقی پاکستان میں ایک کمپنی میں افسر بن کر چٹاگانگ آئے۔ اس وقت میں بھی چٹاگانگ میں اٹلی کی ایک کار کمپنی کا منیجر تھا۔ دونوں کے دفاتر قریب ہونے کی وجہ سے ان سے میری ملاقاتیں ہوتی رہیں اور انہوں نے مجھے جاپان جانے پر آمادہ کیا۔ اس وقت مجھ پر چٹاگانگ حلقہ کی جماعت کی طرف سے مزدوروں میں کام کرنے کی ذمہ داری تھی۔ الحمدللہ ہمارا اسلامی گروپ چٹاگانگ ریلوے یونین کی قیادت بیس سالہ دیرینہ کمیونسٹ لیڈروں کو انتخابات میں شکست دے کر اپنے ہاتھوں میں اس کی باگ ڈور لینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ ان حالات میں توقع نہیں تھی کہ مجھے چٹاگانگ حلقہ کی جماعت اسلامی کی طرف سے جاپان جانے کی اجازت ملے گی۔ لیکن امیر حلقہ مرحوم عبدالخالق صاحب نے خلاف توقع اس کی اجازت دے دی اور میری جگہ پروفیسر عثمان رمز (مرحوم) کو ڈھاکہ سے چٹاگانگ بلا کر مزدوروں کی ذمہ داری سپرد کی۔ مولانا مودودی نے بھی اس اقدام کے حق میں مشورہ دیا۔ یہ بات بعد میں بنگلہ دیش کے امیر عباس علی خان نے اپنی ایک کتاب میں اس طرح لکھی ’’مولانا مودودی نے حسین خاں کو جاپان دعوتِ اسلامی کے کام کے لیے بھیجا تھا۔‘‘
اس وقت جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر مرحوم پروفیسر عبدالکریم سائتو تھے‘ انہی کے دعوت نامے اور گارنٹی کی بنا پر مجھے اور میری اہلیہ اور بچوں کو جاپانی سفارت خانہ سے ایک سال والا ویزا ملا تھا جس میں ہر سال توسیع ہو سکتی تھی۔ ٹوکیو ائرپورٹ پر میرا استقبال کرنے والوں میں پروفیسر سائتو کے علاوہ ڈاکٹر سامرای‘ ٹوکیو مسجد کے ترک امام و مؤذن وغیرہ سب مسلمانوں کے نمائندے شامل تھے۔
ان دنوں میں جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل کے طور پر میری سرگرمیوں میں ایک اور قابل ذکر بات مولانا مودودی کی رہنمائی تھی۔ تو اس طرح کہ جاپان میں دعوت اسلامی کے کام کے سلسلے میں مولانا مودودی نے ایک خط میں مجھے کچھ ہدایات لکھ کر بھیجی تھیں۔ جاپان آنے کے بعد میں پریشان تھا کہ یہاں پر دعوت کا کام کن خطوط پر کیا جائے۔ ایک ریٹائرڈ میجر‘ لندن سے ایک قادیانی مبلغ بن کر جاپان آئے تھے۔ یہ ٹوکیو کے ایک بڑے اسٹیشن شی بویا پر حاچی کو میں پمفلٹ بانٹا کرتے تھے۔ یہاں ایک پارک کتے کے مجسمے کی وجہ سے مشہور ہے‘ لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے اس جگہ پر وقت دیتے ہیں اور پھر یہاں سے قریب ہی کسی ریسٹورنٹ یا کافی شاپس جا کر باتیں کرتے ہیں۔ یہاں پر چونکہ ہمیشہ کچھ لوگ ایک دوسرے کے انتظار میں کافی دیر تک کھڑے رہتے ہیں خصوصاً نوجوان لڑکے اور لڑکیاں‘ اس لیے یہاں پر کوئی پمفلٹ بانٹا جائے تو لوگوں کے پاس اپنے انتظار کی گھڑیاں کاٹنے کے لیے اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ پمفلٹ پڑھ لیں۔ چنانچہ قادیانی میجر صاحب اپنے ’’خود ساختہ اسلام‘‘ کے بارے میں کچھ لکھ کر لاتے تھے اور اسے پمفلٹ کے طور پر تقسیم کیا کرتے تھے۔ میرے ذہن میں بھی یہ سوال ابھرا کہ کیا مجھے بھی صحیح اسلام کے پمفلٹ لکھ کر بانٹنا چاہیے یا کوئی اور طریقہ استعمال کرنا چاہیے؟
اس کے علاوہ دعوت کے کام کے طریقے کے بارے میں دوسرے لوگوں کو دیکھ کر کچھ اور سوالات بھی ذہن میں ابھر رہے تھے۔ نئے مذاہب کے علَم بردار‘ دل چسپی رکھنے والوں سے ان کے گھروں پر جا کر اپنے مذاہب کی تبلیغ کرتے تھے۔ اسی طرح کی بہت ساری تجویزیں ذہن میں آرہی تھیں کہ جاپان میں دعوتِ اسلامی کے کام کو کس نہج پر اٹھایا جائے۔ اسی سلسلے میں‘ میں نے مولانا کو ایک تفصیلی خط لکھ کر ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
مولانا مودودی کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’جاپانیوں میں سے کچھ مسلمانوں پر خصوصی توجہ دے کر انہیں کارکن بنایا جائے اور مسلم ملکوں میں اسلام کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انہیں بھیجا جائے۔‘‘
مولانا کی اس ہدایت کا نتیجہ نکلا کہ میں نے اور پروفیسر عبدالکریم سائتو صاحب نے مختلف مسلم سفارت خانوں اور مصر‘ لیبیا اور سعودی عرب کے دینی اداروں سے رو ابط قائم کرکے نئے نئے مسلمان بننے والے جاپانیوں کو اسکالر شپ دلانے اور انہیں جامعہ ازہر‘ مدینہ یونی یونیورسٹی اور علوم دین کے دوسرے مراکز اور مدرسوں میں بھیجنے کی کوشش کی۔ یہاں سے فارغ التحضیل ہو کر واپس جاپان آنے والوں کو اسلامک مرکز میں ہمہ وقتی کارکن یا مشنری کے طور پر رکھنے کے لیے بھی تجویز دی تھی‘ لیکن اسلامک مرکزکے سربراہ اس کوشش میں ناکام رہے یا تو انہوں نے اس کی اہمیت نہیں سمجھی یا ان دو‘ چار جاپانیوں کو جنہوں نے ان مقاصد کے لیے اسلامک سینٹر کی ملازمت اختیار کی‘ وہ ان کو مطمئن نہیں رکھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس طرح کے فارغ التحصیل افراد کی صورت میں بیش تر افرادی سرمایہ ضائع ہوگیا۔ لیکن جو چند افراد لگے رہے انہوں نے جاپان مسلم ایسوسی ایشن کی طرف سے کچھ ترجمے یا اوریجنل کتابیں شائع کی ہیں‘ جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر ’’صحیح مسلم‘‘ کی احادیث کا تیرہ جلدوں میں مکمل ترجمہ ہے۔ خلافتِ راشدہ اور سیرۃ صحابہؓ پر بھی عربی ماخذ سے ان لوگوں نے کچھ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ اس طرح فارغ التحصیل جاپانیوں کی طرف سے جاپان مسلم ایسوسی ایشن میں جو کچھ بھی کام ہو رہا ہے اس میں مولانا مودودیؒ کی اس ہدایت کو کسی نہ کسی حد تک دخل حاصل ہے، جو انہوں نے اپنے ایک خط میں مجھے دی تھی کہ انہیں مسلم ممالک کے دینی اداروں میں بھیجا جائے۔
جاپان مسلم ایسوسی ایشن اور اسلامک سینٹر اس وقت جاپان میں بھی دعوتِ اسلامی کے فروغ کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ تیس‘ چالیس سال قبل ان کے قیام کے وقت جو کچھ بھی فکرِ مودودی کے اثرات ان پر پڑے تھے‘ اس کا جائزہ لینے کے بعد دو اسلامی تنظیموں کا ذکر ازبس ضروری ہے جو اٹھی ہی مولانا مودودی کی تحریروں سے دعوتی شعور لے کر ۔ ان میں ایک کا نام ہے ’’اسلامک سرکل آف جاپان‘‘ اور دوسری کا ’’اسلامک مشن جاپان۔‘‘
انہیں آپ پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی جاپان میں تحریک اسلامی کہہ سکتے ہیں۔ اوّل الذکر کے سب پروگرام اردو میں ہوتے ہیں اور موخرالذکر کے بنگالی میں۔ اسلامک سرکل آف جاپان اور اسلامک مشن جاپان‘ دونوں کے سرگرم کارکنوں کی تعداد سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان رہتی ہے کیوں کہ ہر سال کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ملک واپس چلی جاتی ہے۔ پاکستان یا بنگلہ دیش جا کر ان میں سے کچھ تو معاشرے میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور صرف انتخابات کے زمانے میں ووٹر بن جاتے ہیں اور کچھ واپس جا کر اور زیادہ سرگرم کارکن بن جاتے ہیں۔ اس کی وہی صورت حال ہے کہ جو اسلامی جمعیت طلبہ کی ہے کہ کچھ لوگ اپنی تعلیمی زندگی کے بعد حصولِ معاش اور یا شادی کے مراحل میں ضائع ہو جاتے ہیں‘ لیکن بالعموم ووٹر کے مقام سے نیچے نہیں گرتے اور کبھی زندگی کی اونچ نیچ کے کسی موڑ پر یکایک سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تحریک اسلامی کا مزاج کبھی یکایک رنگ لے آتا ہے۔
جاپانی میں آمد کے ابتدائی زمانے میں‘ میں نے یہاں کے مسلم سفیروں سے بھی کچھ ذاتی روابط پیدا کیے تھے۔ اس دوران نائیجریا اور دوسرے افریقی و عرب ممالک کے سفرا میں کچھ ایسے لوگ بھی ملے جنہوں نے میرے ذریعے سے پاکستان سے انگریزی میں مولانا مودودیؒ کا لٹریچر منگوایا یا انہیں تحفہ کے طور پر بھی یہ کتابیں دیں۔
طالب علمی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلب کی مرکزی ذمے داریوں پر فائز رہنے کے دوران میں نے ایک مرتبہ مولانا مودودی سے گفتگو میں یہ سوال اٹھایا ’’مجھے طلبہ کے سامنے تقاریر کے جو مواقع ملتے ہیں ان میں کیا باتیں کہی جائیں؟ آیا توحید رسالت و آخرت یا قرآن کے مختلف اہم حصوں کی توضیحات یا اسلام کے سیاسی‘ معاشی و معاشرتی نظام کی تفصیلات یا سیرت رسولﷺسیرت صحابہؓ کے واقعات کی تشریح کرنی چاہیے یا کچھ اور؟‘‘ مولانا مودودی نے ان سارے موضوعات کو چھوڑ کر فرمایا ’’طلبہ کے سامنے طلبہ کے اجتماعی مسائل پر بات کریں اور جمعیت طلبہ انہیں کس طرح حل کرنا چاہتی ہے ان باتوں پر تقاریر میں زور دیں۔‘‘ خود مولانا مودودی کی تقریریں پاکستان کے شہر‘ شہر میں ہمیشہ سیاسی موضوعات پر ہوا کرتی تھیں جن میں اس طرح کے سوالات بھی ان سے پوچھے جاتے تھے۔ مولانا عالم دین ہونے کے حوالے سے ہم تو آپ سے کچھ قرآن و حدیث کی باتیں سننا چاہتے ہیں لیکن آپ حکومتِ وقت کی خرابیاں گنوانے پر اپنی ساری تقریروں کو مرکوز رکھتے ہیں۔‘‘ درحقیقت پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ فکر مودودیؒ کی اوّلیں ترجیحات میں سے تھا۔
طالب علمی کی زندگی کے بعد مجھے مولانا مودودی کے اس دعوتی و تنظیمی پہلو کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب مشرقی پاکستان کے حلقہ چٹاگانگ میں مزدوروں کے کام کا نگراں بنایا گیا۔
جاپان آیا تو یہاں پر ایک برائے نام پاکستان ایسوسی ایشن بنی ہوئی دیکھی۔ اس کا کام سال میں ایک دفعہ کوئی ڈراما کرنا یا ناچ گانے کا کوئی پروگرام رکھنا تھا۔ جب ادھر توجہ کی تو مولانا مودودی کی دانش کے اس نسخۂ کیمیا کو استعمال کیا جو انسان کو فوراً قیادت کی منزل پر پہنچا دیتا ہے۔ یعنی پاکستانیوں کے مسائل میں دل چسپی لینا اور اس میں آگے بڑھ کر حصہ لینا اور ان مقاصد کے لیے دوڑ دھوپ کرنا۔