الخدمت کا سفر قطرے سے گوہر

اکتوبر2005ء، رمضان کی بابرکت ساعتیں… ملک میں سردی کا آغاز ہوچکا ہے، خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر میں قیامت خیز زلزلے کے بعد فنڈنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ میں مال روڈ لاہور پر ایک فنڈ ریزنگ کیمپ کا حصہ تھا۔ الخدمت کے زیراہتمام اس فنڈ ریزنگ کیمپ کا آغاز ہوا ہی تھا کہ ایک کم سن بچہ، جو اشارے پر کھڑا بھیک مانگ رہا تھا، بھاگتا ہوا آیا اور دس روپے کا نوٹ وہاں موجود باکس میں ڈال دیا۔ یوں وہ بھیک مانگنے والا بچہ ہمارے اس کیمپ کا پہلا ڈونر بنا۔ میں حیرت اور تخیل میں ڈوبا ہوا اس ڈونر بچے کو جاتا دیکھ رہا تھا کہ اچانک غبارے بیچنے والا ایک بچہ آیا اور اس نے پچاس روپے کا نوٹ اس باکس میں ڈال دیا۔ آج 17برس گزر جانے کے باوجود بھی ان دو بچوں کے چہرے میرے تخیل میں محفوظ ہیں۔ ان بچوں کا الخدمت پر اعتماد آج بھی میرا سر فخر سے اونچا کردیتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں انسانوں کو بڑے خواب دیکھنے چاہئیں تاکہ ان کی تعبیرکے لیے جدوجہد سے بھرپور زندگی گزاری جاسکے۔ اگر انسان بڑے خواب نہیں دیکھے گا تو اس کی زندگی جمود کا شکار ہوجائے گی، اس کی صلاحیتوں کو گھن لگ جائے گا۔ لیکن اس کرۂ ارض پر کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے خواب دیکھتے ہیں، جو اوروں کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر مسرور ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو معاشرہ تو دیوانے کہتا ہے مگر ان کی یہی دیوانگی انہیں دوسروں سے ممتاز کردیتی ہے۔ ان دیوانوں کا اوڑھنا، بچھونا خدمتِ خلق ہوتا ہے۔ خلقِ خدا کی خدمت کا مقصد اگر محض رضائے الٰہی کا حصول ہو تو اس میں شدت زیادہ آجاتی ہے۔
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں ان دیوانوں کی تعداد دیگر ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بعض دیوانے اپنا سرمایہ خدمتِ خلق میں لگاتے ہیں تو چند ایک دیوانے اس مقصد کے لیے اپنی حیات ہی وقف کردیتے ہیں۔ انہی دیوانوں کے سفر کا آغاز قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ہوگیا تھا جب لٹے پٹے قافلوں، منزل سے ناآشنا مسافروں، بے یارو مددگار خاندانوں کی آبادکاری کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت محدود وسائل کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا۔ تاہم 1990ء میں چند ہزار روپوں اور گنتی کے چند رضاکاروں کے ہمراہ الخدمت فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی گئی، جس کے رضاکاروں کو خدمت کی عبادت کی گھٹی پلائی گئی، جس کا ابتدائی مقصد ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں اور افراد کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر ان کی مالی مدد کرنا تھا۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگا، جوں جوں وطنِ عزیز کے مسائل میں اضافہ ہونے لگا الخدمت کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی۔
آج سے 32برس قبل محدود وسائل سے لگایا گیا یہ پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے، جس کی جڑیں کراچی کے ساحلوں سے لے کر گلگت کے پہاڑوں تک ہیں، اور جس کی شاخوں نے گوادر سے خیبر تک وطنِ عزیز کے مجبورو لاچار اور دکھی شہریوں کو اپنی چھائوں تلے سمو رکھا ہے۔آج جذبۂ خدمت سے سرشار سلیقہ مند، سلیقہ شعار، حُسنِ اخلاق کی عملی تصویر الخدمت کے رضاکار بروقت اور ہمہ وقت وطنِ عزیز کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔ ملک بھر میں الخدمت فائونڈیشن کے 9 ریجنلر اور 150 اضلاع میں دفاتر قائم ہیں۔ اس وقت ملک بھرکے 17 ہزار شہری، ادارے اور تنظیمیں الخدمت فائونڈیشن کے ساتھ ماہانہ بنیادوں پر تعاون کررہے ہیں۔ الخدمت وطنِ عزیز کے شہریوں کو تعلیم، صحت، صاف پانی، مواخات یعنی بلاسود قرضوں کی فراہمی، سماجی خدمات اور آفات سے بچاؤ کے شعبوں میں بھی اپنے بھرپور فرائض بخوبی انجام دے رہی ہے۔ تین دہائی قبل جو خواب دیکھا گیا آج وطنِ عزیز کے طول و عرض میں اس کی تعبیر نظر آرہی ہے۔
ملک میں کوئی ناگہانی آفت آئے یا کوئی مجبور اہلِ وطن مدد کا طلب گار ہو… حادثے ہوں یا چھت سے محروم کوئی بیوہ… بیٹیوں کے لیے جہیز کی ضرورت ہو یا کسی یتیم بچے کی تعلیم میں رکاوٹ… تھر کے ریگستان اور خیبر کے پہاڑوں میں کوئی پانی سے محروم ہو یا پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں کوئی مریض تڑپ رہا ہو… الخدمت فائونڈیشن کے رضا کاروں کا نیٹ ورک ملک کے ہر کونے میں قوم کی خدمت کے لیے حاضر ہوتا ہے۔ الخدمت کے رضاکار سندھ میں ہولی کی خوشیوں میں ضرورت مند ہندوؤں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، تو کبھی دیگر اقلیتوں کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔
32برس قبل پاکستان میں لگائے گئے خدمت کے اس پیڑ کی شاخیں اس وقت بنگلہ دیش، ترکی، شام اور افغانستان تک پھیل چکی ہیں۔ روہنگیا مسلمان ہوں یا شام کے بے بس اور مجبور بچے… کسمپرسی میں مبتلا افغان ہوں یا اسرائیلی طیاروں کی بمباری کا شکار فلسطینی عوام… ہر جگہ الخدمت کے رضاکار دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ الخدمت بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب بے سہارا اور دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروفِ عمل ہے۔ یہ مکمل طور پر خودمختار، غیر سرکاری اور غیر سیاسی ساکھ کی حامل ہے۔ الخدمت فائونڈیشن کی جانب سے کی جانے والی تمام تر خدمات تنظیم کے خصوصی اصول و ضوابط کے تحت سر انجام دی جاتی ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کو نہ صرف عوام بلکہ سرکاری سطح پر بھی پذیرائی مل رہی ہے(کورونا کے دوران بے پایاں خدمات کے اعتراف میں صدرِِ پاکستان کی جانب سے شانِ پاکستان ایوارڈ اس کی نمایاں مثال ہے)، الخدمت نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ عوام کا اعتماد بحال رکھتے ہوئے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے لیے اپنی خدمات کا سفر جاری رکھے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں سیکڑوں این جی اوز اور خیراتی ادارے موجود ہیں، پھر الخدمت ہی کیوں؟
الخدمت کی چار خصوصیات اسے دیگر اداروں اور این جی اوز سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان خصوصیات میں سب سے پہلی چیز الخدمت کا ملک بھر میں رضا کاروں اور دفاتر کا نیٹ ورک، دوسرا الخدمت کے رضاکاروں کا بغیر کسی لالچ کے کام کرنے کا جذبہ، جس کا مقصد ذاتی مفاد نہیں بلکہ رضائے الٰہی کا حصول ہے، الخدمت کی تیسری خاصیت لوگوں کا اس پر اعتماد ہے۔ اور سب سے آخری اور اہم اس ادارے کی جانب سے مکمل لگن کے ساتھ کام کی تکمیل ہے۔
الخدمت رضاکار
الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی واحد این جی او ہے جس کے ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد رضاکار موجود ہیں، جو بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی حادثہ، سانحہ یا آفت آتی ہے تو یہ رضاکار سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ جب تمام لوگ آفت زدہ علاقوں سے محفوظ مقامات کی جانب بھاگ رہے ہوتے ہیں اُس وقت بھی الخدمت کے رضاکار اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آفت زدہ علاقوں میں پہنچتے ہیں۔ الخدمت کے رضاکاروں کے حوالے سے 8مئی 2021ء کو چترال اسکائوٹس کے کمانڈنٹ کرنل علی محمد ظفر نے کہا تھا کہ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی واحد این جی او ہے جو کسی بھی آفت زدہ علاقے میں سب سے پہلے پہنچ جاتی ہے، اور جب تک سرکاری ادارے اپنے منصوبے تیار کرتے ہیں، الخدمت کے رضاکار ریسکیو اور ریلیف کا کام شروع کرچکے ہوتے ہیں۔ ہر سال الخدمت مختلف کالجوں اور جامعات کے طلبہ وطالبات کے لیے ایک یوتھ گیدرنگ کا اہتمام کرتی ہے، جس میں نوجوانوں میں والنٹیئر ازم کو فروغ دیا جاتا ہے۔
الخدمت اور مقصدیت
دنیا بھر میں خیراتی کاموں کا مقصد اپنے ادارے کی تشہیر اور کمائی ہوتا ہے، مگر الخدمت فائونڈیشن کے رضاکاروں کا مقصد ذاتی مفاد کے بجائے صرف رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے بیوروکریٹ اور افسران سے لے کر عام مزدور تک الخدمت کے رضاکار اہلِ وطن کی مدد کے لیے خود آگے آتے ہیں، دور دراز علاقوں میں کئی کئی کلومیٹر تک کندھوں پر سامان اٹھائے پیدل جاتے ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے جو انہیں دریاؤں کی موجوں، سیلاب کی لہروں، برفانی طوفانوں، قحط زدہ علاقوں اور وبائی علاقوں تک لے کر جاتا ہے۔ جب ہر انسان کو اپنی جان کی فکر ہوتی ہے، الخدمت کے رضاکار اہلِ وطن کی جان بچانے کے جتن کررہے ہوتے ہیں۔
اعتماد
الخدمت کی کامیابی کی سب سے بنیادی وجہ اہلِِ وطن کا اس ادارے پر اعتماد ہے۔ عام شہریوں کے اعتماد کا ایک واقعہ اس مضمون کے شروع میں بیان کیا، لیکن ایک اور تازہ واقعہ جو کورونا وبا کے دوران میرے ساتھ پیش آیا۔ کورونا کے دوران الخدمت کا بنیادی مقصد دہاڑی دار مزدوروں تک راشن فراہم کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ادارے نے فنڈنگ کا آغاز کیا۔ ایک ڈونر نے الخدمت کو ایک کروڑ روپے کا چیک دیا۔ ہم نے ڈونر سے سوال کیا کہ کیا ہم اس رقم کا کچھ حصہ کورونا کے ہیلتھ پراجیکٹ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟ اس کے جواب میں ڈونر نے کہا کہ بالکل ایسا نہیں کرسکتے، اس ایک کروڑ روپے سے آپ راشن تقسیم کریں، صحت کے منصوبے کے لیے الگ سے ایک کروڑ بھجوا دیتا ہوں۔ الخدمت فاؤنڈیشن پر یہ عوام کا اعتماد ہی ہے کہ یہ ادارہ ملک کی واحد این جی او ہے جس کی 80فیصد سے زائد فنڈنگ ملک کے اندر سے ہوتی ہے۔
کارکردگی
الخدمت فاؤنڈیشن کی یہ خاصیت ہے کہ وہ جس کام کا بھی آغاز کرتی ہے، اسے بہترین اور منظم انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔کسی بھی حادثے، سانحے اور واقعے کے فوری بعد محض چند منٹوں میں الخدمت کے رضاکار ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیوں کا آغاز کردیتے ہیں۔ فائلوں کے جھنجھٹ سے بے نیازی، وقت کا ضیاع کرنے والے طویل اجلاسوں اور بحث و مباحثے کے بجائے فوری ردعمل دیتے ہوئے الخدمت کے رضاکار میدان میں موجود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ادارے بھی الخدمت کے کاموں کے معترف ہوتے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کاوشوں کے باعث گزشتہ تین دہائیوں سے ہر آنے والے دن میں عوام میں پہلے سے زیادہ مقبول ہورہی ہے۔ اس کی مقبولیت میں جہاں اس کے رضاکاروں کی شبانہ روز محنت کا دخل ہے، وہیں عوام کا اعتماد ان رضاکاروں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
……٭٭٭……
ڈاکٹر مشتاق احمد مانگٹ ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ ہیں اور آپ نے ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں ٹیکنیکل یونیورسٹی لیبیرس سے ڈاکٹریٹ کیا۔ اب تک ان کے بہت سے تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔ ٹیکسٹائل اور ریسرچ مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ ہیومن سائیکالوجی، تاریخ اور سیاحت پسندیدہ موضوعات ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے نائب صدر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔