قومی اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ اراکین میں ماسوائے زبیدہ جلال کے باقی تمام اراکین نوابزادہ خالد مگسی، احسان اللہ ریکی، محمد اسرار ترین اور روبینہ عرفان نے تحریک انصاف سے ناتا توڑلیا۔ قومی اسمبلی میں نوابزادہ خالد مگسی اس جماعت کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ وہ اور جام کمال خان متحدہ حزب اختلاف سے بات چیت اور مذاکرات میں رہنمائی کرتے رہیں، تاآنکہ متحدہ حزب اختلاف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرہی لیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی بھی حزب اختلاف کا حصہ ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بی این پی نے تحریک انصاف کی حمایت کی۔ ان کے اسمبلی میں چار اراکین کی اہمیت تھی۔ بعد میں حکومتی صفوں سے نکل آئی۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہی یہی تھا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قومی اسمبلی میں ان کے اراکین اتنے مختار ضرور تھے کہ وہ بلوچستان کی سیاست کی حد تک اپنی بات منوالیں۔ سو اس ذیل میں سردست بلوچستان میں وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی تبدیلی کا نکتہ شامل تھا اور منوایا بھی گیا۔ جمعیت علماء اسلام بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت ہے، جس نے خالد مگسی اور جام کمال خان کو صوبے میں تبدیلی کی یقین دہانی کرائی اور آگے متحدہ حزب اختلاف کو پشتونخوا میپ اور بلوچستان نیشنل پارٹی سے بات کرنی ہے، خاص کر مولانا فضل الرحمان کو ۔جام کمال خان اس عرصہ اسلام آباد ہی میں رہے ہیں۔ کوئٹہ بھی آتے اور بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے اراکین سے ملاقاتیں اور مشاورت کرتے ۔ مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کی حمایت جام کمال کو اب بھی حا صل ہے۔ باپ پارٹی کے بعض اراکین قدوس بزنجو سے نالاں ہیں۔ اکبر آسکانی اور ظہور بلیدی جام کمال حلقہ کے تمام نشستوں و اجلاسوں میں موجود رہے ہیں۔ اکبر آسکانی اور ظہور بلیدی جام کے خلاف عدم عتماد میں پیش پیش تھے۔ آسکانی غیر مؤثر شخص ہے، دامن بھی صاف نہیں ہے۔ ظہور بلیدی جام کے خلاف منحرف اراکین کے اہم نمائندہ تھے ۔یہاں تک کہ عبدالقدوس بزنجو کے لئے اپنے ٹوئٹر پر symbol of persistency کا لفظ ادا کیا یعنی اُسے عزم و استقامت کی علامت قرار دیا تھا۔
بلوچستان میں پی ٹی آئی کے سات اراکین کا قبلہ منتشر ہے،ہر ایک اپنی اپنی راہ پر ہے۔مبین خان جام کمال خان گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ آئندہ شاید کسی اور جماعت کا حصہ بنے۔ سردار یار محمد رند پہلے ہی الگ ہیں ۔ اول انہیں عمران خان نے اہمیت نہیں دی ہے ۔دوئم خود بھی پارلیمانی پارٹی اپنے گرد اکٹھا کرنے کی مہارت اور اہلیت سے محروم تھے۔غرضیکہ حکومتیں چلتی ہیں تو عبدالقدوس بزنجو کا منصب سے فارغ کیا جانا یقینی ہے ۔ یقینا اس عرصہ میں بلوچستان ہر لحاظ سے تنزل میں گیا ہے۔ حکومت کاوقار سرے سے ہے ہی نہیں۔ عدم شفافیت کی فضا ہے، اوپر سے نیچے تک بد عنوانی اور ہیرا پھیری کے چرچے ہیں۔ بیورو کریسی کے اندر معیارات روندے گئے ہیں ۔ تقرر و تبادلے ضابطہ کے برعکس ہورہے ہیں۔ افسران کو وزراء اور اراکین اسمبلی اپنی ماننے پر مجبور کرتے ہیں،سودے بازی پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ بد عنوان افسران کی چاندی ہے۔ جو خود ان عوامی نمائندوں سے تقرریوں کے لئے رابطہ کرتے ہیں ۔ وزراء ہی کی خواہش اور مطالبے پر سیکریٹریوں، کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور دوسرے افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کے ڈپٹی سیکریٹریز اور سیکشن افسران کے تبادلے بھی وزراء کی مرضی کے تحت ہورہے ہیں۔ مدت پوری نہ ہونے دینا عام ہے حالاں کہ اس بارے عدالت کے احکامات موجود ہیں۔ کئی اہم محکموں میں جونیئر افسران اہم عہدوں پر تعینات کئے گئے ہیں ۔حتیٰ کہ جونیئر ز سیکریٹری کے عہدوں پر تعینات کئے جاچکے ہیں۔ گریڈ 19کے افسران گریڈ20کے عہدوں پر بٹھائے گئے ہیں۔ کئی گریڈ 20کے افسران اسپیشل سیکریٹری بنا کرجونیئر افسران کے ماتحت کام پر مجبور ہیں۔ گریڈ21اور20کے کئی افسران او ایس ڈی ہیں یا پھر وزیراعلیٰ کی معائنہ ٹیم میں شامل کرنے کی چال چل کر ایک طرف پھینک د یے گئے ہیں۔ یعنی گورننس بہت ہی بری حالت میں ہے ۔ اس تناظر میںقومی احتساب بیورو بلوچستان نہ جانے کیوں فائلیں دبا کر بیٹھا ہے۔ یعنی کیا اس ادارے کو انتظار ہے کہ جب اچھی طرح صوبے کی دولت ہڑپ کرلی جائے تب حرکت کرے گی۔ محکموں کی کئی کئی گاڑیاں معہ پٹرول و ڈیزل وزراء کے استعمال میں ہیں۔جام کمال کے دور کے بعض وزراء جو اب مزید پرکشش محکمے لے چکے ہیں کے زیر استعمال ہنوز سابقہ محکموں کی گاڑیاں ہیں ۔ نئی اور قیمتیں گاڑیاں ناکارہ بنا چکے ہیں۔ بعض کے گھروں میں گاڑیاں تباہ حال حالت میں کھڑی ہیں۔ نیب اس منظر نامے سے بے خبر ہر گز نہیں ہے۔ اب تو سیاست مداخلت سے پاک ہو نے کی بات بھی عام ہے تو پھر نیب نے آنکھیں کیوں بند رکھی ہے؟ بات عدلیہ کی،کی جائے تو کیا قانونی موشگافیاں ہیں کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اڑھائی سال سے سٹے لے کھی ہے ۔ان کی بطور رکن قومی اسمبلی کامیابی کونوابزادہ لشکری رئیسانی نے چیلنج کیا تھا ۔نادرا نے ووٹوں کی بایومیٹرک رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ حلقے میں ڈالے گئے 52 ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے ۔ جس کی بنیاد پر 27 ستمبر2019ء کو الیکشن ٹریبونل کے جج جسٹس عبداللہ بلوچ نے حلقہ این اے 265 میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تھاتاہم اکتوبر2019ء میںسپریم کورٹ نے حکم امتناع دے دیا تھا۔یادرہے کہ قاسم سوری کے وکیل جے یو آئی کے سینیٹر کامران مر تضیٰ ہیں۔