ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کی بندش

آج دنیا کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب کی اسیر ہے، اور ویڈیوز بنانا اور یوٹیوب پر شیئر کرنا ایک وبا کی صورت میں جاری ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ آن لائن پیسے کمانے کی دوڑ بھی ہے۔ آن لائن کونٹینٹ کے ذریعے پیسے کمانے کے لیے تین بڑے پلیٹ فارم ہیں: یوٹیوب، فیس بک اور بلاگنگ۔ یوٹیوب کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ ایک متعصب پالیسی کے تابع ہے اور نفرت اور تشدد سے متعلق اپنی پالیسی کو بظاہر بنیاد بناکر وقتاً فوقتاً اسلام اور اُس سے متعلقہ وہ مواد جو مغرب اور اس کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے.. اپنے نشانے پر رکھتا ہے، اور اس نے ایک مرتبہ پھر اپنی متعصب پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے یہود مخالف لیکچرز کو بنیاد بناکر معروف مذہبی اسکالر مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کا چینل بند کردیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار کا یوٹیوب آفیشل چینل خاصا مقبول رہا ہے، چینل کو سلور اور گولڈن یوٹیوب بٹن ملے کیونکہ اس پر سبسکرائبرز کی تعداد35 لاکھ کے قریب ہے۔ اس چینل پر اُن کے پرانے لیکچرز موجود تھے، جنہیں مجموعی طور پر کروڑوں بار دیکھا جا چکا ہے۔
یوٹیوب نے مصری اسکالر واگڈی غنیم کو بھی ہٹادیا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ جنہوں نے افغانستان میں نیٹو افواج کے ساتھ ”تعاون“ کیا تھا وہ طالبان کی طرف سے سزا کے مستحق تھے۔
ڈاکٹر اسرار احمد نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ مشرق وسطیٰ، یورپ و امریکہ سمیت عالمِ اسلام کے جانے مانے اسکالر تھے۔ یہ لیکچرز اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی موجود ہیں، اور پاکستان کے علاوہ بھارت، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں بھی دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔
اور یوٹیوب نے اپنا جو بیان جاری کیاہے اس میں یہی کہا ہے کہ ”ڈاکٹر اسرار کے دو چینلز کو نفرت اور تشدد سے متعلق پالیسیوں کی خلاف ورزی پر معطل کیا گیا ہے۔“
یوٹیوب اُس وقت حرکت میں آیا جب ہفتہ وار اخبار جیوش کرونیکل نے ڈاکٹر اسرار احمد کے بارے میں متعدد رپورٹیں شائع کیں اور دعویٰ کیا کہ برطانوی پاکستانی ملک فیصل اکرم جس نے ٹیکساس کی عبادت گاہ کو یرغمال بنایا تھا، ڈاکٹر اسرار احمد کے لیکچرز سے متاثر تھا۔
ملک فیصل کا تعلق برطانیہ کے شہر بلیک برن سے تھا۔ ہفتہ وار جریدے دی جیوش کرونیکل کا دعویٰ ہے کہ انھیں ملک فیصل کی فیملی نے بتایا تھا کہ وہ یوٹیوب پر ڈاکٹر اسرار کی ویڈیو دیکھتے تھے۔ یہودی ویب سائٹ نے ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کی بندش کو اپنی اور یہودیوں کی اہم کامیابی بھی قرار دیا ہے۔ ملک فیصل کے اس فعل کے پس منظر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ پاکستانی نیورو سائنس دان عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے، جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو گولی مارنے کی کوشش کے جھوٹے الزام میں فورٹ ورتھ کی جیل میں عزم و ہمت کے ساتھ ظالموں کا تشدد برداشت کررہی ہیں۔
دی انڈیپنڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق عافیہ صدیقی کی وکیل نے بتایا کہ فیصل اکرم کا ان کی موکل یا ان کے اہل خانہ سے ’بالکل‘ کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کی موکل نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ان کے نام پر کوئی تشدد نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس واقعے اور یہودی پس منظر سے متعلق ایف بی آئی کے خصوصی ایجنٹ انچارج میٹ ڈیسرنو نے کہا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ ”اس شخص کی توجہ صرف ایک مسئلے پر مرکوز تھی اور اس کا خاص طور پر یہودی برادری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔“
اس کے بعد یہودی رہنماؤں نے مبینہ طور پر ایف بی آئی کی اس واضح رائے کی مذمت کی ہے کہ عبادت گاہ پر حملے کا یہود دشمنی سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، خاص طور پر عافیہ صدیقی سے ممکنہ تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے۔“
تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے یوٹیوب پر ڈاکٹر اسرار احمد آفیشل یوٹیوب چینل کو بند کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اسلاموفوبیا کی بدترین شکل قرار دیا اور کہا کہ اسلاموفوبیا کے اس شرمناک فعل کے جواب میں تنظیم اسلامی نے متعلقہ پلیٹ فارمز کے ذریعے بھرپور قانونی چارہ جوئی کا آغاز کردیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار کے چینل کے ایک پارٹنر آصف حمید نے بی بی سی کو بتایا کہ ”یہ تو ایسے ہی ہے جیسے پب جی گیم دیکھ کر والدین کو مارنے والوں کا ذمے دار پب جی بنانے والوں کو قرار دیا جائے، یا ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھ کر کوئی اقدام کرنے کا ذمے دار فلم بنانے والوں کو سمجھا جائے۔ ڈاکٹر اسرار کی یہ تقاریر اب کی تو نہیں ہیں، یہ کئی سال پرانی ہیں۔ وہ قرآن و احادیث کی روشنی میں بات کرتے تھے۔ قرآن میں یہودیوں کا جو ذکر ہے اس کا حوالہ دیتے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کو بھڑکانے کی بات نہیں کی۔ ہمارے احتجاج بھی پُرامن ہی ہوتے ہیں۔ تنظیم اسلامی قانون کو ہاتھ میں لینے کے ہر اقدام کی مذمت کرتی ہے۔“ آصف حمید کا کہنا ہے کہ رمضان کے دنوں میں ڈاکٹر اسرار کی تقاریر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سنی جاتی ہیں۔ اس مہینے میں چینل بند کرنا ”اسلام دشمنی کا ثبوت“ ہے۔ انہوں نے ایک اہم بات کی کہ سوشل میڈیا تو اختلافِ رائے کا ایک پلیٹ فارم ہے، اس پر اسلام کے خلاف بھی مواد موجود ہے، ان کے خلاف کیا کوئی ایکشن لیا گیا ہے؟ ایک خبر کے مطابق پی ٹی اے نے باضابطہ طور پر یوٹیوب سے رابطہ کیا ہے اور نفرت انگیز تقریر کے الزام میں مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کے چینل کو بلاک کرنے کا معاملہ اٹھایا ہے۔ اتھارٹی نے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم سے بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے چینل کی یک طرفہ بندش آن لائن اظہارِ رائے کی من مانی حدود کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے۔
ڈاکٹر اسرار کا یو ٹیوب چینل بند ہونے پر ہر سطح پر احتجاج جاری ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ”ڈاکٹر اسرار احمد کا چینل بحال کرو“، اور ”اسلاموفوبیا“ کے نام سے ٹرینڈ جاری ہیں جن میں یوٹیوب کو ٹیگ کرکے لوگ مطالبہ کررہے ہیں کہ چینل بحال کیا جائے۔ ٹوئٹر پر 5 اپریل کو ”ری اسٹور ڈاکٹر اسرار احمد یوٹیوب چینل“ کا ٹرینڈ ٹاپ پر آگیا اور لوگوں نے اسٹریمنگ ویب سائٹ کے منتظمین سے اسلامی اسکالر کے چینل کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ اوریا مقبول جان نے ٹوئٹر پر ہی لکھا ہے:
”یہودیوں کے پندرہ روزہ مجلے جیوش کرونیکل کے کہنے پر یوٹیوب نے ڈاکٹر اسرار صاحب کا یوٹیوب چینل بند کردیا، بہانہ یہ لگایا کہ ٹیکساس کی یہودی عبادت گاہ کو یرغمال بنانے والا ان کی ویڈیو دیکھتا تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھر قاتل، چور، ڈاکو جن فلموں کو دیکھ کر جرم کرتے ہیں ان سب پر بھی پابندی لگاؤ۔“
اسی طرح ابوبکر خان کاکیز نے لکھا ہے کہ یوٹیوب پر پابندی لگائی جائے اور پاکستان اور او آئی سی کے دیگر ارکان کو اس پر واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ یہ پاکستان یا کسی یوٹیوب چینل کا معاملہ نہیں، اسلام کا معاملہ ہے۔ ڈاکٹر اسرار کی ویڈیوز بالکل وہی سکھا رہی ہیں جو اسلام کے بارے میں ہے۔ جو وہ نہیں چاہتے۔“
اس پورے منظرنامے پر جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسامہ شفیق جن کا موضوع سوشل میڈیا ہے اور وہ ان ایشوز پر گہری نظر رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ”سوشل میڈیا پر آزادیِ اظہارِ رائے کے دعوے کی قلعی کھلنا شروع ہوچکی ہے، روایتی میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا بدترین پابندیوں کا شکار ہے، بار ہا فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر اکاؤنٹ کی معطلی اور اس سے ڈیٹا کو ڈیلیٹ کیے جانے کی شکایات اب عام ہیں، اس سے بڑھ کر یہ نیٹ ورکس مسلمانوں کی پروفائلنگ کے لیے (باقی صفحہ 41پر)
مواد بھی اداروں کو فراہم کررہے ہیں جس کا آغاز سب سے پہلے خود آزادیِ اظہار کے علَم بردار امریکہ میں نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ہوا جس نے مسلمانوں کے احتجاج پر اعتراف کیا کہ انہوں نے مسلمانوں کی پروفائلنگ کے لیے فیس بک سے ڈیٹا حاصل کیا۔ اس ضمن میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس ٹیکنالوجی کا استعمال متروک کردیا جائے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ بہتر یہ ہوگا کہ پہلے تو عالم اسلام کے نمائندہ ممالک سوشل میڈیا کو ضابطے قاعدے کا پابند کرنے کے لیے اپنے ممالک میں قانون سازی کریں تاکہ اس کو بے لگام نہ چھوڑا جائے، دوسرا یہ کہ عالم اسلام ان سوشل نیٹ ورکس کے مقابلے میں اپنے سوشل نیٹ ورک کا آغاز کرے۔ یہ کام طویل مدتی ضرور ہے، اس کے ثمرات سمیٹنے میں کچھ عرصہ لگ سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سوشل نیٹ ورکس پر مسلمانوں کے لیے جگہ تنگ کردی گئی ہے، لہٰذا دلیل کے مقابلے میں دلیل اور میڈیا کے مقابلے میں میڈیا ہی اس کا مقابلہ کرسکتا ہے۔“