عالمی منظرنامے میں اس وقت یوکرین کی جنگ ایک نیا رخ اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔ روس نے اقتصادی و معاشی پابندیوں کے خلاف اب تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے، جس کے بعد سے یورپ میں تیل کا بحران پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ادھر جرمنی نے بھی روسی سفارتی عملے کو جرمنی چھوڑنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ یوکرین اور روس کی جنگ گوکہ پاکستان میں بھی سیاست کے لیے استعمال ہوتی رہی، اور وزیراعظم عمران خان کا دورئہ روس اور روس کے صدر پیوٹن سے عین اُس دن ہونے والی ملاقات کہ جب روس یوکرین پر حملہ کررہا تھا، عالمی میڈیا کی بہت زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکی۔ لیکن یورپی یونین نے اس پر باضابطہ سرکاری سطح پر پاکستان سے احتجاج ضرور کیا تھا۔ برطانیہ میں بھی یوکرین کی جنگ پر سیاست زیادہ ہورہی ہے، برطانوی حکومت کو پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے تند و تیز حملوں کا سامنا ہے ان اراکین کا کہنا ہے کہ حکومت یوکرین مہاجرین کی آمد کو برطانیہ میں روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ پہلے حکومت نے اعلان کیا کہ حکومتی وسائل ان مہاجرین کی آبادکاری کے لیے ناکافی ہیں لہٰذا عوام کو آگے آنا چاہیے اور مصیبت زدہ یوکرینی باشندوں کو اپنا مہمان بنانا چاہیے، اس مقصد کے لیے ایک ویب سائٹ پر عوام کو مہاجرین کو اپنے ہاں مہمان بنانے کی دعوت دی گئی، اس پر حوصلہ افزا ردعمل سامنے آیا اور محض چند گھنٹوں میں 43 ہزار افراد نے یوکرین کے مہاجرین کو اپنا مہمان بنانا قبول کیا۔ گوکہ اصولی طور پر حکومت کو ان تمام افراد کو ویزے جاری کرکے برطانیہ میں ان خاندانوں کی کفالت میں دے دینا تھا لیکن تاحال صرف 2700 ویزے جاری کیے گئے ہیں اور برطانوی حکومت ویزوں کے اجرا میں تاخیری حربے استعمال کررہی ہےاور وہ یوکرینی مہاجرین کی آباد کاری میں مخلص نہیں۔ دوسری جانب حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ روس کی جانب سے لاحق سنگین خطرات کے پیش نظر کسی بھی فرد کو سیکورٹی کلیئرنس کے بغیر ویزا جاری نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا ان تمام افراد کو سیکورٹی کلیئرنس سے گزرنے کے بعد ویزا حاصل کرنا ہوگا۔ وزیراعظم بورس جانسن روس یوکرین جنگ میں لفاظی کی حد تک بڑا کردار ادا کررہے ہیں جس میں ان کا یوکرین کے وزیراعظم ولادیمیر زولینسکی کو روز کیا جانے والا ٹیلی فون بھی ہے، تاہم اقدامات کی حد تک کوئی قابلِ قدر پیش رفت حکومتی سطح پر نظر نہیں آتی۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کچھ دن قبل تک حزب مخالف کی جانب سے حملوں کی زد میں تھے اور حزب مخالف اُن سے قانون کی خلاف ورزی پر استعفے کا مطالبہ کررہی تھی، یہ مطالبہ اُس وقت سے شروع ہوا جب برطانوی ذرائع ابلاغ میں” کورونا لاک ڈاؤن“ ‘کے دوران میں ایوانِ وزیراعظم 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں کورونا لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پارٹیوں کے انعقاد کا اسکینڈل سامنے آیا۔ ان پارٹیوں میں وزیراعظم بورس جانسن سمیت اُن کے دفتر کے اراکین نے شرکت کی تھی۔ بورس جانسن پہلے تو اس خبر کو جھوٹ قرار دیتے رہے، تاہم اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج پر وزیراعظم نے سینئر بیوروکریٹ خاتون سیوگرے کی سربراہی میں ان پارٹیوں اور ان میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں کے لیے کمیشن قائم کیا۔ ابھی اس کمیشن کی ابتدائی تحقیقات مکمل ہوئی تھیں اور رپورٹ سامنے آنی تھی کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی تحقیقات شروع کردیں۔ اب پولیس نے باضابطہ طور پر ان پارٹیوں میں کورونا لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں پر جرمانے عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی جریدے دی انڈیپنڈنٹ نے اپنی 31 مارچ 2022ء کی اشاعت میں اس تمام صورت حال پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے ایک کارٹون شائع کیا ہے جس میں بورس جانسن روس یوکرین جنگ کو ڈھال بناکر اپنے آپ کو پولیس کے جرمانوں سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیونکہ یہ جرمانے ان کے مجرم ہونے کا ثبوت بن سکتے ہیں جس کے باعث ان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
برطانیہ میں اخبارات اور میڈیا میں روس یوکرین جنگ اب بھی صفحہ اوّل میں جگہ پارہی ہے اور یوکرینی صدر کے روس پر جنگی جرائم کے الزامات کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کی بازگشت سنی جارہی ہے۔ یوکرین کے صدر نے اس کا عندیہ اُس وقت دیا جب یوکرین کے دارالحکومت کیف کے قریب چار سو سے زائد انسانوں کی اجتماعی قبر کا انکشاف ہوا۔ یوکرین کی حکومت کے مطابق یہ تمام افراد نہتے شہری تھے جن میں سے بعض افراد کے ہاتھ پیچھے سے باندھ کر ان کو انتہائی قریب سے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ اجتماعی قبر کی دریافت اُس وقت ہوئی جب روس کی افواج اس علاقے سے واپس پیچھے چلی گئیں۔ اس کا مغربی میڈیا میں ایک شور ہے اور چہار جانب سے اس اقدام کی مذمت کی جارہی ہے، تاہم روس نے اس کو حقائق کے منافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سب کچھ ازخود کیا گیا تاکہ روس کو بدنام کیا جاسکے۔
ایک جانب برطانیہ یوکرین کی جنگ کو محض سیاست کے لیے استعمال کررہا ہے اور یوکرینی مہاجرین کے لیے وہ دلچسپی نہیں دکھا رہا جو کہ اس نے افغانستان سے مہاجرین کے لیے دکھائی تھی۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد برطانیہ نے بڑی تعداد میں افغان باشندوں کو ہنگامی بنیادوں پر برطانیہ بلایا تھا اور ان کے لیے کسی بھی ویزے کی شرائط کو نرم ترین کردیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں بی بی سی ریڈیو فور پر گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ اس وقت 20 ہزار افغان مہاجرین برطانیہ میں موجود ہیں جن میں سے صرف 4 ہزار کو اب تک
مکان یا مستقل رہائش حکومت کی جانب سے فراہم کی جاچکی ہے جبکہ تقریباً 16 ہزار مہاجرین اب بھی ہوٹلوں میں مقیم ہیں جن کی رہائش و خوراک پر روزانہ تقریباً ایک ملین پاؤنڈ برطانوی حکومت خرچ کررہی ہے۔ یہ حقائق اس لیے بھی انتہائی اہم ہیں کہ اب ان مہاجرین کی شکل میں ایک اور سیاسی قیادت کی پرورش کے لیے خطیر رقم حکومت کی جانب سے مختص کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ماضی میں حامد کرزئی سمیت پوری امریکہ نواز افغان حکومت ایسے ہی افراد پر مشتمل تھی۔ ایک طرف یوکرین کے مہاجرین جو کہ جغرافیائی طور پر نزدیک ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بھی برطانوی معاشرے میں زیادہ قابلِ قبول ہیں، ان کو چھوڑ کر افغان مہاجرین جوکہ زیادہ دور بستے تھے اور ان کو وہاں سے نکالنا ایک مشکل امر تھا اس کے باوجود بیس ہزار افراد کو اپنے پاس رکھنا دراصل اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ عالمی طاقتیں کس طرح ایک طویل منصوبہ بندی کرکے دنیا کو اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہ حقائق نہ صرف چشم کشا ہیں بلکہ پاکستانی سیاست میں بھی ان کی چھاپ نمایاں ہے کہ جہاں ملالہ یوسف زئی سے لے کر آرمی پبلک اسکول حملے میں زخمی ہونے والے اب برطانوی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ احمد نواز بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ان کا بھائی اس حملے میں جانبر نہ ہوسکا تھا۔ اب احمد نواز آکسفورڈ یونیورسٹی کی یونین کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور یقیناً آئندہ آنے والے دنوں میں یہ بھی پاکستانی سیاست میں کردار ادا کریں گے۔