جمہوریت کا چیلنج اور سیاسی جنگ

پاکستان کی قومی سیاست میں جو اتھل پتھل ہورہی ہے یا جو نئے خدشات ابھر رہے ہیں وہ غیر متوقع نہیں ہیں ۔ کیونکہ سیاست اور جمہوریت جب محض اقتدار اور طاقت کی لڑائی کے کھیل کا حصہ بن جائیں تو ہمیں سیاسی محاذ پر اصول ، قانون، آئین کے مقابلے میں محض جائزو ناجائز طریقے سے اقتدار کے حصول کی جنگ کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔یہ جو سیاسی جنگ ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے اس میں سیاسی اختلافات سیاسی دشمنی اور سیاسی تعصب سمیت ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو قبو ل نہ کرنے کا حصہ بن گئی ہے ۔سیاست، قانون، آئین اور علمی و فکری محاذ سے جڑے سنجیدہ افراد اس پورے کھیل میں محض تماشائی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔ عوام کو اس پوری جنگ میں بطور تماشائی کے طور پر عملاً استعمال کیاجارہا ہے ۔کیونکہ ہر سیاسی گروہ کی نظر میںیہ جنگ عوامی مفادات کے نام پر لڑی جارہی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ اس میں عوام محض تماشائی ہے او ران کا ہر سطح پر استحصال کیاجارہا ہے ۔
حکومت او رحزب اختلاف کے درمیان جو سیاسی جنگ جاری تھی جس کابنیادی نقطہ ’’حکومت گرائو مہم یا حکومت بچائو مہم تھا‘‘اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے ۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری کی رولنگ کے بعد تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی گئی او را س کے نتیجے میں وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر صدرمملکت نے قومی اسمبلی بھی تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیا ہے ۔قومی اسمبلی کی تحلیل او رنئے انتخابات کے اعلان کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔کیونکہ سیاسی طور پر یہ ممکن نہیں کہ ملک میں قومی اسمبلیوں کے تناظر میں تو عام انتخابات ہوں اور صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرسکیں ۔اگرچہ حکومتی اقدام کو بنیاد بنا کر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس غیر آئینی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے بھی ازخود نوٹس لے لیا تھا۔اب گیند بنیادی طور پر عدالت عظمی کی کورٹ میں ہے اور دیکھنا ہوگا کہ اس بڑی سیاست کی جنگ میں کون قانونی محاذ پر سرخرو ہوتا ہے ۔
حزب اختلاف کا الزام ہے کہ عمران خان نے آئین سے بغاوت کی ہے جبکہ عمران خان کے بقول سیاسی مخالفین کا توبنیادی نقطہ یا مطالبہ فوری نئے انتخابات تھے تو اب وہ انتخابات سے خوفزدہ کیوں ہیں ۔جو جنگ سیاسی تھی او رجہاں اس جنگ سے جڑے مسائل کا حل خود سیاسی قوتوں جن میں حکومت او رحزب اختلاف سے جڑے لوگ تھے مل کر کرنا تھا وہ اب اس جنگ کو سیاسی میدان سے نکال کر عدالتی محاذ پر لے گئے ہیں ۔عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے او رجس کو بھی اس فیصلہ سے ریلیف ملے مگر یہ ایک بات طے ہے کہ سیاسی محاذ پر موجود سیاسی مسائل کی سنگینی یا ٹکراو میں کمی کی بجائے اور زیادہ شدت آئے گی ۔عدالتی فیصلہ کچھ بھی ہواو رجس کے بھی حق میں آجائے یہ ملک ایک نئے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ آنے والے دنوں میں نگراں حکومتوں کے قیام ، شفاف او رمنصفانہ انتخابات کی بحث میں اور زیادہ شدت دیکھنے کو ملے گی ۔ اس لحاظ سے قومی سیاست او راس سے جڑے فریق سیاسی اور عدالتی میدان میں ایک دوسرے پر سیاسی وقانونی سبقت لے جانے کی بڑی جنگ میں نمایاں طور پر نظر آئیں گے ۔
اصولی طور پر تو اس وقت جو کچھ قومی سیاست میں ہورہا ہے اس میں کسی کی بھی جیت نہیں۔ اس کھیل میں حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کو ہی سیاسی طور پر شکست ہوئی ہے۔ یہ شکست محض سیاسی جماعتو ں یا افراد کے درمیان سیاسی تناو یا ٹکراو کی ہی نہیں بلکہ اس جنگ میں ہماری قومی سیاست اور جمہوریت سمیت قانون کی حکمرانی کا مقدمہ بھی کمزور ہوا ہے ۔ یہ سماں سیاسی جشن کانہیں بلکہ سیاسی ماتم کا ہے کہ ہماری سیاسی قوتیں سیاسی مسائل کو خود حل کرنے کی بجائے اس کھیل کو عدالتی محاذ پر لے آئی ہیں ۔ عدالتی محاذ پر جاری یہ جنگ سیاسی محاذ کو اور زیادہ سیاسی تلخیوں یا محاذ آرائی کے عمل میں دھکیلنے کا سبب بنے گی ۔جب سیاست انا پرستی یا شخصی ٹکراو یا جیت یا ہار کے کھیل میں تبدیل ہوجائے تو اس میں جذباتیت کا پہلو نمایاں ہوتاہے او رہر فریق دوسرے فریق کو نیچے گرانا چاہتا ہے۔یہ ہی سب کچھ ہمیں قومی سیاست میں دیکھنے کو مل رہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہم ماضی کی سیاسی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کی بجائے ان ہی غلطیوں میں اور زیادہ شدت پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں ۔اس لیے یہ سماں جشن یا ماتم کرنے کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ توجہ طلب ہے اور زیاد ہ سنجیدگی کی بحث مانگتا ہے کہ ہم سیاست او رجمہوریت کے کھیل کو کہاں لے کر جارہے ہیں او راس کا کیا مستقبل ہے ۔
اس کھیل کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ محض سیاست یا سیاست دانوں تک محدود نہیں بلکہ اس کھیل کے دیگر فریق جن میں قانونی ماہرین ، اہل دانش، میڈیا اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کا کردار بھی تنقیدی زمرے میں آتا ہے ۔حالیہ سیاسی لڑائی میں ہمیں چاروں طرف قومی مسائل پر عقلی ، علمی او رفکری مباحث کے مقابلے میں کسی کی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ایک گہری سیاسی تقسیم او رخلیج نمایاں نظر آتی ہے ۔ اسی تقسیم کی وجہ سے سیاسی تعصب ، نفرت اور شدت پسندی کو بھی برتری مل رہی ہے ۔پورے معاشرے یا سماج کو ہم نے سیاست زدہ کردیا ہے اور اس کھیل میں رواداری ، سیاسی ہم آہنگی کی کمی اور عدم برداشت یا نفرت پر مبنی بیانیہ کو برتری حاصل ہوگئی ہے۔ سیاست او رجمہوریت عملی طور پر لوگوں کو جوڑنے کا نام ہے جبکہ یہاں یہ لوگوں کو تقسیم کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئی ہے ۔کچھ لوگ اس لڑائی کو آئین شکنی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہی آئین شکنی ہورہی ہے یا سیاست کا مجموعی کھیل ہی آئین کے برعکس چل رہا ہے ۔ ہر فریق کا اپنا اپنا آئین او راپنی اپنی سیاسی تشریح ہے ۔ اس تشریح کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کو بنیاد بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس میں حقیقی آئین پیچھے اور ذاتی خواہشات یا تعصب کاکھیل نمایاں ہوجاتا ہے ۔
ہم مجموعی طور پر پوری قومی سیاست کو ایک بڑے قومی تماشے کے طور پر داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر پیش کررہے ہیں ۔ اسی لیے میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ عدالتی جنگ کا جو بھی نتیجہ نکلے ہمارا سیاسی کھیل یوں ہی سیاسی تماشے کا منظر نامہ پیش کرتا رہے گا۔ اگر واقعی ہم نے عام انتخابات کی طرف جانا ہے تو تب بھی ہمیں انتخابات کے منصفانہ اور شفافیت کے لیے ایک بڑے مکالمہ کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ ، دیار غیر پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق سمیت کئی مسائل پر حزب اختلاف کے تحفظات ہیں ۔اگر ہم نے انتخابات سے جڑے مسائل کو نظرانداز کرکے روایتی انتخابی عمل کو ہی چلانا ہے تووہ مسائل کو اور زیادہ خراب کرنے کا سبب بنے گا۔ پہلے ہی یہاں انتخابات کی ساکھ اور شفافیت پر لاتعداد سوالات موجود ہیں ۔نگران حکومت کیسے بنے گی ، کون بنائے گا، کیسے اتفاق رائے ہوگا، صوبائی اسمبلیاں کیسے ٹوٹیں گی او رکیا صوبائی اسمبلیوں کی موجودگی میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہونگے ، نئے صوبائی الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری جیسے موضوعات پر تو سیاسی فریقوں میں مکالمہ درکار ہے ، لیکن ہم نے اپنی سیاست دانوں کی ہٹ ڈھرمی نے مکالمہ کا ماحول
بداعتمادی میں تبدیل کردیا ہے جو غیر سیاسی فریق کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے سیاسی نظام پر مسلط کرے ۔ اب جب یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ بیشتر سیاسی معاملات میں نیوٹرل ہے تو پھر ہم کیوں ان کو سیاسی معاملات میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں او رکیوں خود سے اپنے مسائل کو دو طرفہ بنیاد وں پر حل کرنے میں ناکامی سے دوچار ہیں ۔
پاکستان کی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ تو درست عمل ہے او رنہ ہی اس عمل سے ہم اپنی سیاست او رجمہوریت میں حقیقی برتری حاصل کرسکیں گے ۔یہ ایک ہیجانی اور غیر یقینی کی کیفیت ہے جس کے ذمہ دار سیاست دان سمیت دیگر فریق بھی ہیں ۔ بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ ہمیں مجموعی طور پر مسائل کے حل سے زیادہ مسائل کو اور زیادہ پیدا کرنے کا جنون سوار ہوگیا ہے ۔ہر فریق کے بقول ملک میں سیاسی سازشوں کا کھیل نمایاں ہے او رہر فریق کو لگتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش کررہا ہے ۔ حالانکہ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی کسی نہ کسی کھیل میں سازش کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ دار بنا ہوا ہے ۔اس نام نہاد سیاسی وجمہوری کھیل سے قوم کیسے نکل سکے گی یہ ہی بنیادی نوعیت کا سوال ہے جس پر زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔