پاکستان کی دھماکہ خیز سیاسی صورتِ حال

پاکستان کی سیاست کو اگر ایک نام دیا جائے تو کہا جائے گا کہ پاکستان کی سیاسی صورتِ حال ہمیشہ سے ’’دھماکہ خیز‘‘ ہے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں پہلا مارشل لا لگا دیا اور ملک کی سیاسی صورتِ حال دھماکہ خیز ہوگئی۔ جنرل یحییٰ نے ایک سہانی شام چند اعلیٰ فوجی اہلکاروں کے ساتھ ایوانِ صدر جاکر جنرل ایوب سے کہا: جنابِ صدر اب آپ کو جانا ہوگا۔ اور جنرل ایوب مستعفی ہوگئے۔ ان کے استعفے نے سیاسی صورتِ حال کو ایک بار پھر دھماکہ خیز بنادیا۔ 16 دسمبر 1971ء کو ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ ہوگیا، ملک ٹوٹ گیا اور سیاسی صورتِ حال دھماکہ خیز ہوگئی۔ 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگادیا اور ملکی حالات دھماکہ خیز ہوگئے۔ 4 اپریل 1979ء کو بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے اور سیاسی صورتِ حال دھماکہ خیز ہوگئی۔ جنرل ضیا الحق کے بعد ملک پر 58(2)B کی تلوار لٹک گئی اور چار سیاسی حکومتیں اپنی مدت پوری کیے بغیر رخصت ہوگئیں۔ ان حالات نے ملکی صورتِ حال کو دھماکہ خیز بنادیا۔ جنرل پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کو برطرف کرکے ملک پر مارشل لا مسلط کردیا، اور ملک کی سیاسی صورتِ حال کی دھماکہ خیزی ایک بار پھر حقیقت بن کر سامنے آگئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیراعظم عمران خان کا یہ انکشاف ایک بہت بڑا سیاسی دھماکہ تھا کہ امریکہ نے ان کی حکومت کو ہٹانے کی منصوبہ بندی کی ہے اور حزبِ اختلاف کی تحریک عدم اعتماد امریکی ایما پر پیش کی جارہی ہے۔ حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے عمران خان کے اس بیان کو پروپیگنڈا قرار دیا، مگر عمران خان نے امریکی دھمکی پر مبنی دستاویز قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی اور قومی سلامتی کمیٹی نے خط کے مندرجات کو تشویش ناک اور درست قرار دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی میں تمام سروسز چیفس اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شامل ہوتے ہیں، چنانچہ کمیٹی کی جانب سے دھمکی آمیز خط کی تصدیق بڑی اہمیت کی حامل تھی، اس سے حزبِ اختلاف کے اس پروپیگنڈے کی قلعی کھل گئی کہ عمران خان اپنا اقتدار بچانے کے لیے جھوٹ بول رہے ہیں۔ ابتدا میں امریکہ کی جانب سے دھمکی دینے والے کا تشخص نامعلوم تھا، مگر اب روزنامہ ڈان کراچی نے ایک خبر کے ذریعے اطلاع دی ہے کہ دھمکی دینے والا جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بارے میں امریکہ کا اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لُو ہے اور اس نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید کے ساتھ ملاقات میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان کی قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو اس کے سنگین مضمرات ہوں گے۔ ڈونلڈ لو نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر عمران خان اقتدار سے ہٹ گئے اور ان کی جگہ کوئی اور آگیا تو امریکہ پاکستان کی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کردے گا۔ یہ دھمکی بجائے خود ایک بہت بڑا دھماکہ ہے، اور اتنا ہی بڑا دھماکہ یہ خبر تھی کہ عمران خان کی حکومت نے امریکہ کے نائب ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے امریکی دھمکی پر سخت احتجاج کیا ہے۔ پاکستان کی 74 سال کی تاریخ میں بڑے بڑے واقعات ہوئے مگر کبھی پاکستان کے کسی حکمران کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ امریکی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کرے اور اس سے پاکستان کے معاملات میں امریکی مداخلت پر احتجاج کرے۔ بدقسمتی سے نواز لیگ کے رہنما شہبازشریف نے دھمکی آمیز خط سے متعلق عمران خان کے بیان کو ’’جھوٹ‘‘ قرار دیا۔ اس طرح انہوں نے ثابت کیا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اتنی لاعلم اور احمق ہے کہ اس نے عمران خان کے جھوٹ پر یقین کرکے دھمکی آمیز خط پر تشویش کا اظہار فرمادیا ہے۔ میاں شہبازشریف کو اپنی ہولناک اور شرمناک غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے فرمادیا کہ ہماری قوم تو بھکاری ہے اور بھکاری اپنی تقدیر کے مالک نہیں ہوسکتے۔ یہ پاکستان کی سیاست کی تاریخ میں دیئے گئے شرمناک ترین بیانات میں سے ایک بیان تھا۔ نواز لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ دھمکی آمیز خط پر عمران خان کے مؤقف کے بعد امریکہ پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے، وہ ہمیں معاشی بحران میں مبتلا کرسکتا ہے، حتیٰ کہ وہ ہمارے لیے تیل کی ترسیل کو ناممکن بناسکتا ہے۔ نواز لیگ کے رہنمائوں کے ان بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ دھمکی آمیز خط کے سلسلے میں عمران خان جھوٹ نہیں بول رہے۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عمران خان کا یہ خیال سو فیصد درست ہے کہ امریکہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے خلاف سازش کررہا تھا اور حزبِ اختلاف اس سلسلے میں امریکہ کے آلہ کار کا کردار ادا کررہی ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبریہ ہے کہ ڈونلڈ لو بھارت کے دورے پر پہنچے تو بھارت کے صحافیوں نے ان کی عمران خان کو دی جانے والی دھمکی کے حوالے سے سوال کیا۔ روزنامہ جنگ کراچی کی خبر کے مطابق ڈونلڈ لو نے دھمکی کی تردید نہیں کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بہت بڑا سیاسی دھماکہ ہے کہ پاکستان کا ایک وزیراعظم اور سیاسی رہنما نہ صرف یہ کہ کھل کر امریکی مداخلت کی نشاندہی کرنے میں کامیاب رہا بلکہ اُس نے اس سلسلے میں ایک کھلا عوامی مؤقف اختیار کیا۔ امریکہ نے بھٹو صاحب کے خلاف بھی سازش کی تھی، مگر بھٹو صاحب امریکہ کا نام نہیں لیتے تھے، وہ اسے ’’سفید ہاتھی‘‘ کہتے تھے۔ امریکہ نے جنرل ضیا الحق کا طیارہ تباہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا مگر جنرل ضیا الحق نے کبھی امریکہ کے خلاف کوئی عوامی مؤقف اختیار نہیں کیا۔ مگر عمران خان پوری بے خوفی کے ساتھ امریکہ کا نام بھی لے رہے ہیں اور وہ امریکہ کی مزاحمت کا اعلان بھی کررہے ہیں۔ کیا عمران خان ملک میں امریکہ مخالف سیاست کا آغاز کررہے ہیں؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، مگر اب تک عمران خان نے پوری جرأت کے ساتھ امریکہ کی مزاحمت کا حق ادا کیا ہے۔ امریکہ کی مزاحمت کے حوالے سے اب اُن کا نام میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ لینا بھی عمران خان اور پاکستان کی توہین ہے۔
پاکستان کی گزشتہ چند روزکی سیاسی دھماکہ خیزی کا تعلق تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی میں اس کے حشر کے ساتھ ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں دعویٰ کررہی تھیں کہ ان کے پاس 174 سے زیادہ ووٹ ہیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کی تحریک عدم اعتماد کو 197 اراکین کی حمایت حاصل ہوگئی ہے، مگر عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کو ’’سرپرائز‘‘ دیں گے، اور عمران خان نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبولؐ کے بعد قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اطلاعات کے وفاقی وزیر فواد چودھری کو تقریر کی دعوت دی۔ فواد چودھری اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمارے سفیر کو 7 مارچ 2022ء کو ایک میٹنگ میں طلب کیا گیا، ہمارے سفیر کو بتایا گیا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جارہی ہے۔ اُس وقت تک پاکستان میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آرہی ہے۔ فواد چودھری نے کہاکہ ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا انحصار تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو پاکستان کو اُس کی غلطیوں پر معاف کردیا جائے گا، لیکن اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی تو آپ کا اگلا راستہ بہت سخت ہوگا۔ فواد چودھری نے کہاکہ اس کے ساتھ ہی اتحادیوں اور ہمارے 22 اراکین کا ’’ضمیر‘‘ جاگ گیا۔ فواد چودھری نے سوال اٹھایا کہ کیا 22 کروڑ افراد پر مشتمل پاکستانی قوم اتنی نحیف و نزار ہے کہ باہر کی طاقتیں یہاں حکومت بدل دیں؟ کیا یہ آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے عوام کٹھ پتلیاں ہیں؟ کیا ہم غلام ہیں؟ فواد چودھری نے کہاکہ اگر ہم غیرت مند قوم ہیں تو یہ تماشا نہیں چل سکتا۔ فواد چودھری نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ اس سلسلے میں ’’رولنگ‘‘ دیں۔ فواد چودھری کے بعد قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے قومی اسمبلی کے اراکین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو پیش کی گئی۔ عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق آنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے۔ فواد چودھری نے وزیر قانون کی حیثیت سے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں، لہٰذا میں رولنگ دیتا ہوں کہ تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 5، قومی خودمختاری اور آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے بھی خلاف ہے۔ چنانچہ میں تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔ یہ دھماکہ خیزی کم نہ تھی کہ کچھ دیر بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم سے مختصر خطاب کر ڈالا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی سفارش صدر مملکت عارف علوی کو بھیج دی اور عارف علوی نے قومی اسمبلی اور کابینہ ختم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔ عمران خان کے اس اعلان سے ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی۔ حزبِ اختلاف بالخصوص نواز لیگ اب تک کہہ رہی تھی کہ ملک کے تمام مسائل کا حل نئے انتخابات ہیں، مگر اب وہ نئے انتخابات کے مطالبے سے دست بردار ہوکر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔
پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ یہاں انصاف کا حصول انتہائی مہنگا بھی ہے اور اس میں مدتیں صرف ہوجاتی ہیں۔ بسا اوقات دادا کے مقدمے کا فیصلہ پوتا سنتا ہے۔ تاہم جیسے ہی تحریک عدم اعتماد مسترد اور اسمبلیاں تحلیل ہوئیں، سپریم کورٹ آدھے گھنٹے میں ’’متحرک‘‘ ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور کئی معزز جج سپریم کورٹ جا پہنچے اور انہوں نے صورت حال کا ازخود نوٹس لے ڈالا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نوٹس اتوار کو لیا گیا جب سپریم کورٹ میں تعطیل ہوتی ہے۔ ایک اور اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ ایک مقدمے میں پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اسپیکر کی رولنگ ’’ایکٹ آف پارلیمنٹ‘‘ ہے اور ایکٹ آف پارلیمنٹ عدالت میں زیر سماعت نہیں آسکتا۔ اب عدلیہ، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو زیر سماعت کررہی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ تمام معاملات بجائے خود دھماکہ خیز ہیں۔ ہمارے ملک میں اعلیٰ عدالتوں کا کردار بڑا عجیب و غریب رہا ہے۔ ہمارے یہاں جنرل ایوب آئے تو ملک کی اعلیٰ عدالت نے اُن کے اقتدار کو تحفظ فراہم کیا۔ جنرل ضیا الحق آئے اور اُن کی آمریت کو سپریم کورٹ کے معزز ججوں نے سہارا دیا۔ جنرل پرویزمشرف کے مارشل لا کو بھی سپریم کورٹ نے جائز بنایا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58(2)B کے تحت برطرف کیا۔ بے نظیر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، مگر سپریم کورٹ نے ان کی حکومت کو بحال نہیں کیا۔ 58(2)B کے تحت ہی صدر غلام اسحاق خان نے میاں نوازشریف کی حکومت کو برطرف کیا۔ وہ سپریم کورٹ پہنچے اور سپریم کورٹ نے اُن کی حکومت کو بحال کردیا۔ غور کیا جائے تو یہ دھماکہ خیزیوں ہی کا ایک سلسلہ ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا تو دشوار ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت قومی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے کیا فیصلہ کرے گی، لیکن اس کے فیصلے کو ’’سیاسی‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ نواز لیگ اور اس کے زیراثر کئی ابلاغی ادارے عدلیہ سے من پسند فیصلہ لینے کے لیے اس پر دبائو ڈالتے نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتِ حال سیاسی فیصلے کے امکانات کو بڑھا رہی ہے۔ چنانچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فیصلہ تو آجائے مگر انصاف نہ ہوسکے۔ ایسا ہوا تو یہ بجائے خود ایک بہت بڑا سیاسی دھماکہ ہوگا۔
ملک کے سیاسی منظرنامے میں یہ خبر بجائے خود ایک بہت بڑے دھماکے کی حیثیت رکھتی ہے کہ روس نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ عمران خان کو ان کے دورۂ روس کی سزا دی جارہی ہے۔ روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے مطابق امریکہ نے عمران
خان پر اس بات کے لیے دبائو ڈالا کہ وہ روس نہ جائیں، لیکن عمران خان نے امریکی دبائو قبول نہیں کیا، چنانچہ روس کے الفاظ میں تحریک عدم اعتماد کی صورت میں عمران خان کو امریکہ کی نافرمانی کی سزا دی جارہی ہے۔ اس پورے سیاسی منظرنامے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہونے کا تاثر دے رہی ہے، مگر اس کی یہ غیر جانب داری بھی دراصل ایک طرح کی جانب داری ہی ہے۔ عمران خان کو الیکٹ ایبلز اسٹیبلشمنٹ ہی نے فراہم کیے تھے، چنانچہ انہیں سنبھالنے کی ذمے داری بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کی تھی، مگر اسٹیبلشمنٹ انہیں نہ سنبھال سکی، اور یہ عناصر حزبِ اختلاف سے جاملے۔ یہ کہنا تو دشوار ہے کہ اس معرکہ آرائی میں کون فاتح رہے گا، لیکن یہ حقیقت عیاں ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سے اینٹی امریکہ سیاست کے روشن امکانات موجود تھے۔ غور کیا جائے تو اینٹی امریکہ سیاست دراصل اینٹی امریکہ سیاست نہیں بلکہ یہ پاکستان کو حقیقی آزادی اور حقیقی خودمختاری سے ہم کنار کرنے کی جدوجہد ہے۔
عمران خان نے اینٹی امریکہ سیاسی جدوجہد کی راہ ہموار کی تو انہیں دھماکہ خیز پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی سرزمین کے نیچے امریکہ مخالف جذبات کا ایک سمندر موجود ہے۔ یہ سمندر سطح پر آگیا تو روایتی سیاست پس منظر میں چلی جائے گی اور ملک میں نظریاتی سیاست کی راہ ہموار ہوجائے گی۔