تونسہ شریف، ڈیرہ غازی خان سے محترم محمد عامر مَلغانی لکھتے ہیں:
’’ایک گتھی ایک عرصے سے میرے ذہن میں اُلجھی ہوئی ہے، کسی روز سُلجھا کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں کہ حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے اسم گرامی کے ساتھ جمع کا صیغہ (اولیا) کیوں لگایا جاتا ہے؟‘‘
صاحب! آپ کی اِس گتھی کا شمار ’غلطی ہائے مضامین‘ ہی میں کیا جائے گا۔ غالباً یہ لقب پہلے پہل غلط العوام ہوا ہوگا، پھر ایسا غلط العام ہوا کہ بڑے بڑے علما بھی اب اس ولی کو ’اولیا‘ ہی کہا کرتے ہیں۔ اس گتھی کو سلجھانا اور سب کو سمجھانا شاید اب ممکن نہیں رہا۔
سلسلۂ چشتیہ کے اِن مشہور صوفی بزرگ کا اسم گرامی سید محمد نظام الدینؒ تھا۔ ’سید‘ کو سب نے ’خواجہ‘ سے بدل دیا۔ سو، آپ خواجہ نظام الدینؒ کہے جانے لگے۔ خواجہ صاحب کے متعدد القاب تھے، جن میں سے سلطان المشائخ اور محبوبِ الٰہی بہت معروف ہوئے۔ مگر آپؒ کا ایک لقب ’نظام الاولیا‘ بھی تھا۔ یہ لقب لگاکر آپ کا نامِ نامی خواجہ نظام الدین، نظام الاولیاؒ بنتا تھا۔ ’نظام‘ کی تکرار شاید زبانوں پر بار بنی۔ لہٰذا کثرتِ تکرار سے آخری ’نظام‘ حذف ہوگیا۔ یوں خلقِ خدا میں آپ خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے نام سے پہچانے جانے لگے۔
اردو کے بعض محاوروں میں بھی جمع کا یہ صیغہ بطورِ واحد استعمال ہوا ہے۔ مثلاً جس شخص کا مزاج ایک حال پر قائم نہ رہتا ہو، کبھی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتا ہو اور کبھی یکایک غصے میں آجاتا ہو، بدمزاجی اور گالی گلوچ پر اُتر آتا ہو، اُس کے لیے کہا جاتا ہے ’’گھڑی میں اولیا، گھڑی میں بھوت‘‘۔ اس محاورے سے شبہ ہوتا ہے کہ بھوت بھی کسی گھڑی ’اولیا‘ کا روپ دھار سکتے ہیں اور اس کے برعکس بھی۔ اگر کوئی سیدھا سادہ، بھولا بھالا نیک آدمی ہو، جو مکرو فریب سے کام لینا نہ جانتا ہو تو اُسے بھی اُردو محاورے میں مجازاً ’اولیا‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی ’مرأۃ العروس‘ میں ایک مکالمہ یوں ملتا ہے:
’’بیگم صاحب تو اولیا آدمی ہیں اور اِنھیں کے قدم کی برکت سے گھر چلتا ہے‘‘۔
خالد یوسفؔ بھی اپنے ایک شعرمیں اعتراف کرتے ہیں:
ہم اولیا نہیں تھے جو دل پھیرتے مگر
اُس کو بھی گفتگو کا اِک انداز تو ملا
ہمارے برادرِ بزرگ محمد زکریا صدیقی مرحوم ہمارے لڑکپن میں ہمیں ایک طویل تعلّیانہ نظم سنایا کرتے تھے، جس میں شاعر اپنی تعریف کے ہر بند کے بعد ٹِیپ کے مصرعے میں یہ اعلان کرتا تھا :
بس ایک چیز نہ ہوتی تو اولیا ہوتے
ہمیں اُس وقت پتا چلا نہ آج تک جان سکے کہ وہ کون سی ’ایک چیز‘ ہے جس کے نہ ہونے سے بندہ ’اولیا‘ بن جاتا ہے۔
اولیا ہی نہیں بھوت بھی جانتے ہیں کہ ’اولیا‘ ولی کی جمع ہے۔ ولی کا لفظ ’وِلا‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب محبت، دوستی، نزدیکی، قربت اور ملکیت ہے۔ ’ولی‘ کے بھی متعدد معانی ہیں۔ محبت کرنے والا، دوست، مددگار، حلیف، نگراں اور وارثِ تخت و تاج، جسے ’ولی عہد‘ کہا جاتا ہے۔ حکمراں یا بادشاہ چوں کہ لوگوں کی معاشی فلاح کے بھی ذمہ دار، نگراں اور نگہبان ہوتے ہیں چناں چہ ’ولیِ نعمت‘ کہلاتے ہیں۔ ولی سے ’والی‘ بھی بنا ہے۔ اردو میں عموماً ’والی وارث‘ ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یتیموں کا والی ہو یا صوبے کا، دونوں کا کام دیکھ بھال اور نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ ’گورنر‘ کے لیے یہ کتنا دل کش لفظ ہے۔ اگر ہم ’گورنر آف سندھ پراونس‘ کو ’والی صوبہ سندھ‘ کہنے لگیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ اور اگر ایسا ہو توشاید ہم اپنے اکثر ’والیوں‘ سے یہ بھی کہہ سکیں کہ ’’تجھے ہم ولی سمجھتے……‘‘
حاکم اور سربراہ کے علاوہ ’والی‘ کا مطلب حمایتی، محافظ اور مددگار بھی ہے۔ تمام مخلوقات کا ’اللہ والی‘ ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک نام’الوالی‘ اور ایک نام ’الولی‘ بھی ہے۔ امیرؔ مینائی کہتے ہیں:
میں غریب اور غریبوں کا خدا والی ہے
ہونے دو سارے زمانے کو اُدھر ہونے دو
جب کہ داغؔ اپنی توبہ اور زاہد کی جوانی دونوں سے مایوس ہوچکے ہیں:
ہماری توبہ، زاہد کی جوانی، دونوں بے کس ہیں
نہ کوئی اِس کا وارث ہے، نہ کوئی اُس کا والی ہے
اللہ کا جو بندہ اللہ کا دوست ہو، اللہ سے محبت کرنے والا ہو اور اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جاتا ہو، ایسے شخص کو ولی اللہ کہا جاتا ہے۔ مختصراً ’ولی‘ کہتے ہیں۔ اُردو محاوروں میں ولی کا بالعموم یہی مطلب لیا جاتا ہے۔ غالبؔ اپنے ہم عصروں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں:
دیکھیو غالبؔ سے گر اُلجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
کسی نیک، متقی اور پرہیزگار شخص کی اولاد اگر بُری نکل جائے توکہا جاتا ہے کہ ’’ولی کے گھر شیطان‘‘پیدا ہوگیا۔ فارسی کا ایک محاورہ اُردو میں بھی خوب بولا جاتا ہے کہ ’ولی را ولی می شناسد‘۔ مطلب تو یہ ہوا کہ ولی کو صرف ولی پہچانتا ہے، مگر یہ محاورہ اس مفہوم میں بولا جاتا ہے کہ کسی شخص کی اصلیت کو صرف اُسی کے جیسا شخص سمجھ سکتا ہے۔ انسانوں میں سے کوئی شیطان اگر کسی شیطان کو پہچان لے تب بھی یہی کہا جائے گا کہ ’ولی را ولی می شناسد‘۔
’وِلا‘ ہی سے بنا ہوا ایک لفظ ’مولیٰ‘ (یا مولا) بھی ہے۔ اس کے معنی اب صرف آقا، سردار اور مالک لیے جاتے ہیں۔ مگر ’مولیٰ‘ کے لغوی معنی ہیں: جس سے محبت اور قربت کا تعلق ہو۔ اللہ اپنے بندوں سے اُس سے زیادہ محبت کرتا ہے جتنی محبت مائیں اپنے بچوں سے کرتی ہیں۔ قربت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہم سے قریب ہے۔ سو، اللہ ہمارا مولا ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا ہم سے اور ہمارا اپنے آقا و مولا سے محبت و قربت کا تعلق ہے۔ ’علیؓ مولا‘ کا بھی یہی مفہوم ہے۔ مولیٰ دو طرفہ رشتہ ہے۔ آقا اور غلام دونوں ایک دوسرے کے مولیٰ ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اگر دو دوست ہوں تو دونوں ایک دوسرے کے دوست کہے جائیں گے، اور اگر دو بھائی ہوں تو دونوں ایک دوسرے کے بھائی کہے جائیں گے۔ سیدنا عمرؓ سیدنا بلالؓ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ بلالؓ ہمارے مولیٰ ہیں، کیوں کہ وہ ہمارے آقاؐ کے مولیٰ ہیں۔ اپنی شہادت کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
’’اگر سالم ؓ مولیٰ حذیفہؓ زندہ ہوتے تو خلافت کے لیے انھیں نام زد کردیتا‘‘۔
حضرت سالمؓ حضرت حذیفہؓ کے غلام تھے اور خوف و خشیتِ الٰہی کا پیکر تھے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت سالمؓ کو حضرت حذیفہؓ کا مولیٰ اسی وجہ سے کہا کہ غلام اور آقا دونوں ایک دوسرے کے مولیٰ ہوتے ہیں۔
جو لوگ ہمیں دین کی تعلیم دیتے اور سیدھا رستہ دکھاتے ہیں، اُنھیں ہم محبت سے ’مولانا‘ کہتے ہیں۔ اب تو خیر تلفظ خاصا بدل گیا ہے، مگر جس شخص کی قربت ’اللہ مولیٰ‘ سے ہوتی اور اُس میں زہد و تقویٰ پایا جاتا اُسے ’مَولَوی‘ (میم اور لام دونوںپر زبرکے ساتھ) کہا جاتا تھا۔ یعنی مولیٰ سے نسبت رکھنے والا۔ پَر اب ہم کسی کے کردار کی طرف نظر کیے بغیر صرف شکل دیکھ کر مولوی کہہ دیتے ہیں۔ شکلاً مولوی نظرآنے والے خاصے خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اکبر ؔ الٰہ آبادی کی اس دعا پر ہمیشہ آمین کہتے رہیے:
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے
خصوصاً مولوی بدرالدجیٰ سے