دو قومی نظریہ

جب یہ کتاب میرے ہاتھ میں آئی اور میں نے اسے کھول کر اس کے تین چار صفحے پڑھے تو یوں محسوس ہوا کہ کسی بہت بڑے عالم و ادیب کی کتاب پڑھ رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ عرصے بعد ایسی عمدہ اور مثبت سوچ پر مبنی اعلیٰ و ارفع اردو نثر میں اپنے مافی الضمیر کو خوش اسلوبی سے بیان کرتی یہ تحریر خوش آئند ہے۔ اردو ادب میں وقیع اضافہ ہے۔ ایسی فصیح و بلیغ علمی نثر اب زیادہ لوگ نہیں لکھتے۔
جناب ابوجنید عنایت علی 3 اکتوبر 1953ء کو شکرگڑھ (نارووال پنجاب) میں پیدا ہوئے، جبکہ آبا و اجداد کا تعلق پٹھان کوٹ سے تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی اگست 1947ء میں ہجرت کرکے شکر گڑھ میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم مسلم ماڈل ہائی اسکول بہیڑی خورد سے حاصل کی، اور ایف ایس سی گورنمنٹ کالج شکر گڑھ سے کیا۔ بعدازاں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے 1975ء میں امتیازی حیثیت میں مکینکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی چالیس سالہ پیشہ ورانہ زندگی کے دوران 5 سال بیرونِ ملک اور 35 سال پاکستان میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے پاکستان جوہری توانائی کمیشن سے 2016ء میں بطور چیف انجینئر/ ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے۔ دورانِ ملازمت عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر چار مرتبہ تعریفی اسناد اور طلائی تمغا ملا۔ آپ پاکستان انجینئرنگ کونسل، پاکستان انجینئرز فورم اور اقبال اکادمی پاکستان کے تاحیات رکن ہیں۔ صاحبِ قلم ہیں، ان کے قلم سے اقبالیات پر متعدد کتابیں نکلی ہیں۔ ’’اقبال… بچوں اور نوجوانوں کے لیے‘‘ نے نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد کے تحت ہونے والے 2019ء کے مقابلۂ کتب میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ ان کی ’’اسفارِ اقبال‘‘، ’’قائداعظم محمد علی جناح… بچوں اور نوجوانوں کے لیے‘‘ کے نام سے کتب شائع ہوچکی ہیں۔ مشہور ادبی رسائل ادبِ لطیف، اخبارِ اردو، خواتین میگزین اور روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں اور زیر نظر کتاب ’’دو قومی نظریہ… علامہ اقبال، قائداعظم اور سید مودودیؒ‘‘ جدید ترین ہے۔
جناب ابو جنید عنایت علی تحریر فرماتے ہیں:
’’برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال سے ہوتی ہوئی قائداعظم محمد علی جناح تک پہنچتی ہے۔ زیر نظر کتاب میں علامہ اقبالؒ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور سید مودودیؒ کی علمی، فکری اور سیاسی جدوجہد کا انتہائی مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں سید مودودیؒ کی مذہبی اور دینی حوالے سے خدمات جیسے تفہیم القرآن اور دوسری معرکہ آرا تصانیف اور قادیانی تحریک میں ان کے کردار وغیرہ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ تصورِ پاکستان علامہ اقبال کی فکر سے پھوٹا ہے، اسی طرح پاکستان کی بقا اور ترقی بھی علامہ اقبال کے افکار کی صحیح تعبیر پر منحصر ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے علم و عمل کی دنیا میں فکرِ اقبال سے تخلیقی اکتساب کے بجائے شعوری طور پہ انحراف کی راہ اپنا رکھی ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اگرچہ تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے رہنما نہیں تھے، مگر انہیں علامہ اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ ایک تو وہ علامہ اقبال کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شمال مغربی ہندوستان منتقل ہوئے، دوسرے انہوں نے مجوزہ اسلامی ریاست کے لیے علامہ اقبال کی اسلامائزیشن کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے علمی اور فکری جدوجہد شروع کردی۔ علامہ اقبال کی زندگی کے آخری دنوں (مارچ۔ اپریل 1938ء) میں وطنی قومیت کا فتنہ اٹھا تھا، اگرچہ علامہ اقبال نے اس کا شافی جواب ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ کی شکل میں روزنامہ احسان میں ایک مضمون لکھ کر دے دیا تھا، مگر علامہ اقبال کی وفات کے بعد پھر یہ بحث شروع ہوگئی جس کا سید مودودیؒ نے مدلل، دوٹوک اور غیر معذرت خواہانہ جواب ’’مسئلہ قومیت‘‘ اور دوسرے لٹریچر کی شکل میں دے کر کانگریس کو لاجواب کردیا، اور اس کے علاوہ بہت سے دوسرے معاملات میں بھی مسلم لیگ کو زبردست علمی مواد فراہم کیے رکھا، جسے مسلم لیگ اپنے خرچ پر چھپوا کر تقسیم کرتی تھی۔
قائداعظم محمد علی جناح بھی علامہ اقبال کا انتخاب تھے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے ایک دفعہ علامہ اقبال سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ اپنے کلام میں جس خودی کا ذکر کرتے ہیں، کیا اس پیمانے پر برصغیر میں کوئی فرد پورا اترتا ہے؟ علامہ نے برجستہ جواب دیا: محمد علی جناح۔ گویا سادہ لفظوں میں یہ دونوں رہنما یعنی قائداعظم اور سید مودودیؒ مرادِ اقبال تھے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے 1937ء سے لے کر 1947ء (قیام پاکستان) تک دس سالوں میں تواتر کے ساتھ مختلف تقاریر، بیانات اور پیغامات میں نئی مجوزہ اسلامی ریاست کے لیے سو سے زیادہ مرتبہ اور قیامِ پاکستان سے وفات تک 13 ماہ کے عرصے میں تقریباً 14 بار مختلف مواقع پر اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی۔ آزادی کے بعد سب پرانے محکمے نئے انتظام و انصرام کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئے۔ صرف ایک نیا محکمہ ’’احیائے ملّتِ اسلامیہ‘‘ بنایا گیا، جس کے اغراض و مقاصد میں اسلامی دستور، اسلامی معاشی نظام، اسلامی نظامِ تعلیم، اسلامی نظامِ عدل وغیرہ شامل تھے۔ مولانا مودودیؒ کو قائداعظمؒ نے ریڈیو سے اسلامی نظامِ حیات کے عنوان سے تقاریر کرنے کا حکم دیا، مگر قائد کی موت کے ساتھ ہی یہ سب کچھ لپیٹ دیا گیا۔ اس کے علاوہ علامہ محمد اسد کو بھی ریڈیو پر اسلامی موضوعات پر تقاریر کرنے کا کہا۔ اُن کی سات نشری تقریریں ’’ندا برائے جملہ مسلمانان‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ سید مودودیؒ نے اسلامی نظام کی یہ جدوجہد جاری رکھی، قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مختلف مکاتبِ فکر کے 31 علما کے ساتھ مل کر 22 دستوری نکات حکومت کے سامنے پیش کیے۔ اس سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد (جس میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور سید مودودیؒ کا نمایاں کردار تھا) دستور ساز اسمبلی سے منظور کرواکے گویا ریاست پاکستان کو کسی حد تک مسلمان کردیا تھا۔ سید مودودیؒ نے تادمِ حیات اسلامی نظام کے نفاذ اور دوسرے سیکولر، سوشلسٹ، کمیونسٹ عناصر کے خلاف علمی و عملی اور سیاسی سطح پر کوشش جاری رکھی۔
یہ سب عظیم لوگ تھے کیونکہ اس کارگہِ حیات میں عظیم شخص وہ نہیں جسے محض حُسنِ اتفاق یا قوم کی نااہلی نے عظیم بنادیا ہو، بلکہ عظیم وہ ہے جس نے پیکارِ حیات میں مقاصدِ عظیمہ کے لیے تیغ آزمائی کرکے اپنا سکہ بٹھایا ہو:
ہرکہ شمشیر زند سکہ بنامشن خواند
(جو کوئی تلوار چلاتا ہے اس کے نام کا سکہ چلتا ہے)
ان تینوں اکابرین سے متعلق ڈنکے کی چوٹ پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے پوری تیغ آزمائی کی، اور تمام مخالفتوں، مخاصمتوں، مزاحمتوں اور رکاوٹوں کے باوجود اپنا کام جاری رکھا اور آج تک زمانہ ان کی عظمت کا معترف ہے۔
کتاب کے آخر میں ان تینوں شخصیات کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے مختصر حالاتِ زندگی دیئے گئے ہیں تاکہ قارئین کو ان معرکہ آرائیوں کا ہلکا سا احساس ہوسکے جن سے یہ پوری عمر نبرد آزما رہے، اور یہ گمان نہ رہے کہ یہ لوگ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے، بلکہ کچھ اندازہ کرسکیں کہ یہ کس کس کوہِ گراں سے ٹکراتے رہے اور پھر بھی اپنی زندگی کے مقصد پہ پوری یکسوئی کے ساتھ ثابت قدم رہے۔
برصغیر جو تقسیم کے وقت 562 (بعض مؤرخین کے مطابق 565) چھوٹی بڑی ریاستوں پر مشتمل تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے ان میں سے چند ریاستوں کے پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ادغام کو بہت ہی اختصار سے بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں لارڈمائونٹ بیٹن، ہندوستان اور اقوام متحدہ کے کردار اور ان کی پاکستان دشمنی کا بھی مختصر سا ذکر ہے۔
علامہ اقبال نے ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں ملّتِ اسلامیہ کے احیا کو برصغیر (پاکستان) سے بڑھاکر ایشیا تک پھیلانے کا منصوبہ دیا ہے، مگر ہمارا المیہ ہے کہ ہماری کم ہمتی، کوتاہ نظری اور عاقبت نااندیشی ہمیں پستی کی اس سطح تک لے آئی ہے کہ اِس (فکرِ اقبال) کا بوجھ پاکستان کے اندر بھی اٹھانا مشکل ہورہا ہے۔
اس وقت دنیا میں جو فتنہ و فساد بڑھ رہا ہے، اس کا حل صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں عادلانہ نظام کے قیام میں ہے۔ بانیانِ پاکستان کو Clash of Civilization and Role of Pakistan کی روشنی میں یہ توقع تھی کہ پاکستان امتِ وسط ہونے کے ناتے اور اس منصب کے حامل ہونے کی وجہ سے مستقبل میں یہ کردار ادا کرے گا۔ یعنی پاکستان ایک بہت بڑے آئیڈیل کو Realize کرنے کے لیے، ایک بہت بڑی خدمت کے لیے وجود میں آیا تھا، مگر جب یہ ملک بن گیا تو یہ سارے مقاصد ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان جیسی نعمتِ غیر مترقبہ کی قدر کرنے کی توفیق دے، تاکہ ہم اسے بانیانِ پاکستان کی توقعات کے مطابق آگے بڑھا سکیں۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ زیرنظر کتاب جناب ریاض احمد چودھری ڈائریکٹر بزم اقبال لاہور کی تحریک پر ترتیب دی ہے، جنہوں نے اس کے مسودے پر نظرثانی کی‘‘۔
کتاب کے محتویات کا ہم تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے، آپ دیکھیں کس خوب صورتی سے کتاب کی ترتیب قائم کی ہے۔
پہلا باب:قومیت اور مسلم قومیت، علامہ اقبال کا قومیت پہ مؤقف، قائداعظم کا قومیت پہ مؤقف، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا مؤقف
دوسرا باب: علامہ اقبال، قائداعظم اور سید مودودیؒ کی سیاسی وابستگی، علامہ اقبال اور قائداعظم میں سیاسی اختلاف، علامہ اقبال اور قائداعظم میں سیاسی مفاہمت، سید مودودیؒ کی سیاسی وابستگی، سید مودودیؒ اور تحریکِ پاکستان، کانگریس نواز علما کی لاعلمی، واردھا اسکیم، وریا مندر اسکیم، شدھی اور سنگٹھن تحریکیں
تیسرا باب: قائداعظم کو ’’اسلامی معاشی نظام‘‘ کے قیام کا مشورہ
چوتھا باب: علامہ اقبالؒ کی سید مودودیؒ کو پنجاب آنے کی دعوت، علامہ اقبال کے نزدیک اجتہاد اور قانون سازی کی بنیاد، قانونِ جدید کی قرآنی نقطہ نگاہ سے تدوینِ نو، قانونِ اسلام کی تدوینِ نو، قومی سطح پر اسلامی نظام سیاست کی تشکیلِ نو کی تجویز
پانچواں باب: فکری اور نظریاتی ہم آہنگی، علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کی فکری ہم آہنگی، علامہ اقبالؒ کا مردِ مومن اور سید مودودیؒ کا مردِ صالح، قائداعظمؒ اور سید مودودیؒ کی فکری ہم آہنگی، اردو زبان، علامہ اقبالؒ اور اردو زبان، قائداعظمؒ اور اردو زبان، سید مودودیؒ اور اردو زبان
چھٹا باب: ریاست کا آئینی ڈھانچہ، تحریکِ پاکستان کے دوران میں قائم کیے گئے نظریاتی ادارے، مجلس نظامِ اسلامی کا قیام، کمیٹی آف رائٹرز، ادارہ احیائے ملّتِ اسلامیہ، علامہ محمد اسدؒ کی ریڈیو پر سات تقاریر، یادداشت۔ برائے نفاذِ شریعت‘‘، ادارۂ اسلامی تشکیلِ نو کے اغراض و مقاصد کی اشاعت، سید مودودیؒ کی ریڈیو پر تقاریر، اسلام کا اخلاقی نظام، اسلام کا سیاسی نظام، اسلام کا معاشرتی نظام، اسلام کا اقتصادی نظام، اسلام کا روحانی نظام، پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے؟، قراردادِ مقاصد (Objectives Resolution)، قرارداد پر بحث اور فیصلہ، بنیادی اصولوں کی دوسری رپورٹ کی تیاری میں بورڈ کا کردار، بورڈ کی تجاویز، 31 علما کے 22 دستوری نکات، دستورِ اسلامی کے لیے علمائے کرام کے متفقہ بائیس نکات
ساتواں باب: حاصلِ بحث، سودی معیشت، جاگیرداری نظام، نظامِ تعلیم، عدالتی نظام
آٹھواں باب: علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور سید مودودیؒ کے مختصر حالاتِ زندگی، علامہ محمد اقبالؒ کے مختصر حالاتِ زندگی، قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مختصر حالاتِ زندگی، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا مختصر سوانحی خاکہ، ضمیمہ (اسمائے گرامی علمائے کرام/ شرکائے مجلس) (برائے بائیس نکات)
کتاب خوب صورت طبع کی گئی ہے۔
یہ کتاب اسلامک پبلی کیشنز کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ اس ادارے نے ساٹھ سالوں سے زائد عرصے سے طباعت و اشاعت کے میدان میں بڑا نام پیدا کیا ہے اور ہر اہم موضوع پر بہت قیمتی لٹریچر شائع کیا ہے۔ ادارے کی مطبوعات میں یہ کتاب ایک اچھا اور مثبت اضافہ ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پاکستان کی حقیقی منزل یعنی اسلامی ریاست کا صحیح شعور عطا فرمائے اور اس منزل کے حصول کے لیے جدوجہد کی توفیق بھی بخشے، آمین۔