کیسے کیسے اہلِ علم، عمدہ اوصاف کے حامل انسان اور گوہرِ نایاب ہمارے درمیان سے رخصت ہوتے جارہے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کا خلاء پُر کرنے والا یا ان کا متبادل کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا قحط الرجال آن پڑا ہے کہ ہول سا اُٹھنے لگتا ہے۔ بیشتر جدا ہونے والی اور داعیِ اجل کو لبیک کہنے والی شخصیات ایسی ہیں کہ وہ ’’ہمہ صفت موصوف‘‘ کے مصداق تھیں اور ہمہ جہت خوبیوں اور اوصاف کی حامل تھیں۔ ایسی ہی بچھڑنے والی شخصیات میں سے ایک پروفیسر محمد ادریس قریشی مرحوم بھی تھے جو جنوری 1940ء کو جیکب آباد میں پیدا ہوئے اور 29 فروری 2020ء کو انتقال کرگئے، لیکن اپنے پیچھے اپنی قیمتی یادوں اور بے مثال خدمات کا ایک ایسا مشک بار تذکرہ چھوڑ گئے ہیں جو تادیر ان کی یاد دلاتا رہے گا۔
پروفیسر محمد ادریس قریشی نے اپنی ساری زندگی ایک مقصد اور مشن کے تحت گزاری۔ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک طرف نسلِ نو کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کی بھرپور سعی کی، تو دوسری جانب تطہیر افکار کے لیے اردو، سندھی جرائد و رسائل اور اخبارات میں اصلاحی، دینی اور معلوماتی مضامین لکھے۔ پروفیسر موصوف کا جب آتش جوان تھا اور وہ سلسلۂ تعلیم و تعلم سے وابستہ تھے تو باوجود سرکاری ملازم ہونے کے تادم آخر حق گوئی کو اپنا شعار بنائے رکھا اور اس حوالے سے کسی مداہنت کا شکار نہیں ہوئے۔ وہ جماعت اسلامی سے تنظیمی طور پر تو وابستہ نہیں ہوئے لیکن عملاً اس کے لیے بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ بذریعہ تحریر و تقریر کام کرتے رہے، جس کی وجہ سے انہیں بارہا دشواریوں اور تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک مرتبہ محفل میں دورانِ گفتگو بتایا کہ ممتاز بھٹو مرحوم کی صوبہ سندھ میں وزارتِ عُلیا کے دور میں ان کی تحریک اسلامی کے لیے سرانجام دی گئی سرگرمیوں سے ناراضی کی بنا پر مرحوم وزیراعلیٰ نے بذاتِ خود ان کی فائل پر kick him out لکھ کر ان کا تبادلہ سندھ کے ایک دور افتادہ مقام کے کالج میں کرادیا تھا، لیکن انہوں نے اس کے باوجود اپنے نظریات سے رجوع کیا اور نہ ہی وقت کے سخت گیر حکمرانوں سے معذرت یا معافی کے طلب گار ہوئے، اور بقول ان کے: مشکل وقت کو گزرنا تھا اس لیے جیسے تیسے کرکے وہ بالآخر گزر ہی گیا۔
پروفیسر محمد ادریس قریشی مرحوم کی آواز اور لب و لہجے میں بڑا اثر تھا اور وہ اپنا مافی الضمیر بلاخوف و خطر کسی کی پروا کیے بغیر بیان کردیا کرتے تھے۔ وہ جب کسی موضوع پر اپنی مؤثر، دبنگ اور گرج دار آواز میں تقریر کیا کرتے تو ساری محفل پر سکوت طاری ہوجاتا تھا اور حاضرین کامل یکسوئی کے ساتھ ان کی پُراز معلومات تقریر سے استفادہ کرتے اور کی گئی تقریر کا گہرا اثر لے کر محفل سے رخصت ہوا کرتے تھے۔ راقم اپنے (1990ء) دورِ طالب علمی میں بارہا گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد میں درجہ یازدہم (فرسٹ ایئر) میں اسلامیات کے گھنٹے (پیریڈ) میں ان کے لیکچر میں شریک رہا، جیکب آباد کی مسجد نورِ ایمان میں ان کے خطبات اور جمعیت اور جماعت کے پروگرامات میں ان کے دروس اور تقاریر بھی سنی ہیں۔ بلاشبہ وہ اپنی طرز کے ایک بے مثال اور زبردست مقرر تھے جو اپنے موضوع کے حق میں ایسے دلائل اور مثالیں پیش کیا کرتے جنہیں جھٹلانا یا رد کرنا بے حد مشکل ہوتا تھا۔ بحیثیت ایک انسان کے اُن میں بھی خوبیوں کے ساتھ کچھ خامیاں اور کمزوریاں تھیں۔ مثلاً وہ قدرے جذباتی اور زودرنج واقع ہوئے تھے، تاہم ان کی خوبیاں اور اوصاف ان کی خامیوں پر حاوی تھے۔
راقم کو الخدمت ضلع جیکب آباد کے صدر غلام حیدر پیرزادہ نے بتایا کہ ’’بظاہر سخت مزاج اور سخت گیر پروفیسر محمد ادریس قریشی دراصل بے حد نرم مزاج اور خوش مزاج انسان تھے۔ انہوں نے بارہا میرے ساتھ جماعت کے پروگرامات کے سلسلے میں گوٹھ نوازو جاگیر، تنگوانی اور دیگر دیہاتوں کے اسفار کیے اور میں نے انہیں ایک مردِ مومن پایا۔ گوٹھوں میں رات پڑجانے پر قیام ہوتا تو باوجود شدت کی گرمی اور مچھروں کے ستانے کے، وہ حرفِ شکایت تک زبان پر نہ لایا کرتے تھے۔‘‘
معروف دانش ور، کالم نگار، اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد کے سابق رہنما، چیئرمین پاکستان پرچم پارٹی ملک الطاف حسین کے مطابق پروفیسر محمد ادریس قریشی ایک سچے اور پکے، نظریاتی وابستگی کے حامل جماعت اسلامی کے شیدائی تھے۔ جس زمانے میں وہ کالج میں پروفیسر ہوا کرتے تھے وہ کمیونزم اور اسلام کی آویزش کا دور تھا۔ قوم پرستوں اور جیالوں کے سامنے وہ ببانگِ دہل اپنے نظریات پیش کرتے تھے۔‘‘
مرحوم کے ہونہار صاحبزادے محمد ابراہیم قریشی نے جو گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب آباد میں معلم ہیں، مجھے بتایا کہ پروفیسر مرحوم اخبارات، جرائد اور رسائل میں ’’ابوالیاس‘‘ کے قلمی نام سے مضامین اور کالم لکھا کرتے تھے۔ پروفیسر ادریس قریشی اپنے برادر کلاں پروفیسر محمد یونس قریشی کے دورِ امارت (2002ء) میں سنتِ یوسفی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے امریکا کو شہباز ایئربیس جیکب آباد مشرف حکومت کی جانب سے حوالے کرنے کے خلاف جماعت اسلامی کی طرف سے منعقدہ دھرنے میں بھی اسیر رہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہر میدان میں کھل کر جماعت اسلامی کا ساتھ دیا، جو بلاشبہ نظریاتی طور پر ان کے پختہ اور پُرعزم ہونے کی واضح دلیل ہے۔ پروفیسر مرحوم امیر جماعت ہدایت اللہ کے مطابق جماعت کے پروگرامات میں نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان کے شہروں خضدار، ڈیرہ مراد جمالی وغیرہ جایا کرتے تھے۔ انہوں نے متعدد تحریکی اور اصلاحی کتابچوں کے اردو سے سندھی اور سندھی سے اردو زبان میں تراجم بھی کیے۔ ان کے شاگرد بہت بڑی تعداد میں ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں۔ انہوں نے ایم اے اسلامک کلچر میں کر رکھا تھا اور اپنے مضمون پر کامل دسترس تھی۔ سارے قرآن مجید کا ترجمہ یاد تھا۔ عربی گرائمر کے بھی ماہر تھے جو انہوںنے عربی کے ماہر سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد پروفیسر محمد علی
سانگی مرحوم سے سیکھی تھی، جس کی تعلیم وہ پھر اوروں کو بھی دیتے رہے۔ پروفیسر محمد ادریس قریشی 1998ء تا 2000ء گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد میں بڑے احسن انداز میں پرنسپل شپ کی ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتے رہے جس کے بعد وہ (غالباً) 2001ء میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر گریڈ 19 میں ریٹائر ہوگئے۔
پروفیسر موصوف ایک سادہ مزاج اور سادہ اطوار انسان تھے۔ سچے محب وطن اور دینِ اسلام کے شیدائی تھے۔ اردو، سندھی، بلوچی، سرائیکی، عربی اور انگریزی بخوبی جانتے تھے۔ ان کا سارا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ’’ہمہ خانہ آفتاب است‘‘ کے مترادف ہے۔ ان کے بڑے بھائی پروفیسر محمد یونس قریشی سابق امیر جماعت جیکب آباد (تعارف فرائیڈے اسپیشل میں چھپ چکا ہے)، پروفیسر محمد یعقوب قریشی مرحوم (تینوں بھائیوں کی شادی بگٹی قبیلے میں ہوئی) معروف ماہر تعلیم، جبکہ ایک برادرِ خورد و معروف ماہر امراض چشم ڈاکٹر محمد ہاشم قریشی ہیں۔ والد کا نام محمد قاسم قریشی اور نانا کا نام محمد اعظم پٹھان تھا۔ صاحب زادوں میں سے محمد الیاس سول انجینئر، محمد ابراہیم ہائی اسکول ٹیچر، محمد یاسین واپڈا ملازم اور محمد ہارون یوٹیلیٹی اسٹور پر ملازم ہیں۔ تین صاحب زادیوں میں سے دو اسکول ٹیچر اور ایک خاتونِ خانہ ہیں۔
اللہ مرحوم کی جملہ مساعی کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین