جامع مسجد سری نگر کی تالہ بندی کا خاتمہ حقیقی نارملسی کا انتظار

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ بھارت کشمیر میں حالات نارمل کرنے کے لیے کچھ اقدامات کررہا ہے۔ یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب بھارت نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں تیس ہفتے بعد نمازیوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت دی، جس کے بعد لوگوں نے طویل عرصے بعد نمازِ جمعہ ادا کی۔ خطبۂ جمعہ سید احمد نقشبندی نے دیا، جبکہ میرواعظ 5 ا گست 2019ء سے بدستور نظربندی کا شکار ہیں۔ او آئی سی نے میرواعظ عمر فاروق کو اسلام آباد میں وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی، مگر ان کی نظربندی ختم نہ ہوسکی، اور یوں ان کی جگہ حریت کانفرنس کے نمائندوں نے او آئی سی اجلاس میں شرکت کی۔ جامع مسجد کے تالے کھلنے پر ایک نمازی کا کہنا تھا کہ بھارت نے ہمیں جامع مسجد سے دور رکھ کر ہمارے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔
جامع مسجد سری نگر پانچ سو سال قدیم اور تاریخی حیثیت کی حامل عبادت گاہ ہے جس کا تعلق کشمیر کے اُبھرنے والے اسلامی نقش کے ابتدائی زمانے سے ہے۔ میرواعظ خاندان اس مسجد کی نگرانی کا فریضہ صدیوں سے نبھا رہا ہے۔ میرواعظ کشمیر ہر جمعہ کو یہاں خطبہ دیتے ہیں، اور اس دوران دینی اور سماجی موضوعات کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے سیاسی پہلو اور وہاں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ بھی ہوتا ہے، اور نمازی اس موقع پر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے نعرے بازی بھی کرتے ہیں۔ جامع مسجد کے اس کردار کے باعث گرد ونواح میں ایک مزاحمانہ ذہن اور جذبات کا غلبہ ہے، اور بھارت کو ہر دور میں ان جذبات کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا سامنا رہا ہے۔
کسی مسجد کا کھلنا کشمیریوں کا بنیادی انسانی اور مذہبی حق ہے جو بھارت نے دو سال سے زیادہ عرصے سے سلب کررکھا تھا۔ اس سے پہلے بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں 4G انٹرنیٹ کی بحالی پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈپرس نے خیرمقدمی بیان جاری کیا تھا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ بھارتی کشمیر میں 4Gانٹرنیٹ کی بحالی کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ’’بھارتی کشمیر‘‘ کی اس اصطلاح پر پاکستان نے حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے احتجاج کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس پر باضابطہ احتجاجی ٹویٹ بھی جاری کیا تھا۔ ’’بھارتی کشمیر‘‘ اور ’’پاکستانی کشمیر‘‘ کی اصطلاحات سفارتی سطح پر استعمال ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک نہ بھارت کے کہنے پر ’’پاکستانی مقبوضہ کشمیر‘‘ اور نہ پاکستان کے کہنے پر ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرسکتے ہیں۔ دنیا معاملات و مسائل کو اپنی عینک سے دیکھتی ہے۔ اِس وقت اس بات پر کامل اتفاق نظر آتا ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے۔ پاکستان کے احتجاج پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کو پریس بریفنگ میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ کشمیر سے متعلق کیا امریکہ کی پالیسی بدل گئی ہے؟ امریکی ترجمان نے وضاحت کے ساتھ کہا تھاکہ کشمیر کے بارے میں امریکہ کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا اور وہ کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہے۔ امریکہ کی اس وضاحت کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خیرمقدم کیا تھا۔ اس وضاحت کے بعد اب کشمیر پر امریکہ کی پالیسی کو سمجھنا آسان ہوا تھا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ چین کی طرح امریکہ بھی پانچ اگست کے واقعات پر بھارت کا مؤقف قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت نے جس زعم میں یہ قدم اُٹھایا تھا وہ قطعی بے نتیجہ رہا، اور بھارت جس حصے کو یونین ٹیریٹری قراردیتا ہے دنیا اسے بدستور متنازع سمجھتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ یا اندرونی مسئلہ کہہ رہا ہو۔ امریکہ سے برطانیہ، اور روس سے چین تک بڑی عالمی طاقتیں ہوں یا جرمنی، فرانس اور ترکی یا جاپان… کہیں بھی کشمیر کے بارے میں بھارتی مؤقف کو من وعن قبول نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تنازع رات کی تاریکی میں دو ملکوں کی کھینچا تانی سے شروع نہیں ہوا، اور صرف دو ملکوں کے درمیان ہی اُلجھ کر نہیں رہ گیا، بلکہ یہ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوا جب اپنے وقت کی سپر طاقت برطانیہ زوال کا شکار ہوکر برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جارہی تھی، اور پیچھے رہ جانے والے طاقت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے تھے۔ اس طرح یہ ایک عالمی طاقت کے زوال اور اس کے اثرات سے جڑی ہوئی کہانی کا حصہ ہے۔ جب مسئلہ شروع ہوا تو بھی یہ دوملکوں کے دالان اور دہلیز تک محدود نہیں رہا، بلکہ طاقتور فریق بھارت اسے اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں برسوں اس مسئلے پر بحث ہوتی رہی۔کشمیریوں کو سنا جاتا رہا، پاکستان اور بھارت کا مؤقف جاننے کی کوشش کی جاتی رہی۔ سر اوون ڈکسن جیسے آزاد مبصرین اور محققین سے اس بندگلی سے نکلنے کی رائے معلوم کی جاتی رہی۔ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے ممبر ممالک اس ساری بحث میں حصہ لیتے رہے، اپنی رائے ظاہر کرتے رہے، اور آخر میں اقوام متحدہ قراردادیں منظور کرکے خوابِ خرگوش میں گم ہوگئی۔ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ رہا۔ بحث نہ ہونے کے باوجود اس مسئلے کی فائل حل طلب مسائل کی الماری میں آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح روس، چین، برطانیہ جیسے ممالک موجودہ دور میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے اسباب اور عوامل کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوں گے تو لامحالہ وہ ماضی میں اپنے راہنمائوں اور سفارت کاروں کے بیانات اور سرگرمیاں دیکھتے ہوں گے، اور تاریخ کے صفحات پر محیط 74 سالہ عرصے میں جابجا انہیں اپنا عکس دکھائی دیتا ہوگا۔ اس تاریخ کو نظرانداز کرنا کسی ملک کے لیے ممکن نہیں۔