سنامکی

سناء مکی کی اصل جائے پیدائش مکہ (عرب) ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اور یہیں سے پہلے درآمد کی جاتی تھی، لیکن اب ہندوستان میں عام ملتی ہے اور کئی جگہ خودرو حالت میں بھی ملتی ہے اور یہی دوا بازار میں بھی دستیاب ہوتی ہے۔ اس کے پتوں کا استعمال ہی دست لانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کی پیتاں ایک سینک پر برابر لگی ہوتی ہیں۔ ان کو سُکھاکر کام میں لایا جاتا ہے۔ اس کی پتیاں زرد بہ مائل سبز ہوتی ہیں، جو پنواڑ کی شکل میں مگر سائز میں بڑی ہوتی ہیں۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سنا اور سنوت میں ہر بیماری سے شفا ہے‘‘۔
سنا حجاز کی ایک خودرو نبات ہے، جس کی عمدہ ترین قسم مکہ میں پائی جاتی ہے۔ یہ پیٹ سے صفراء کو خارج کرتی ہے۔ سودا کو نکالتی اور دل کے پردوں کو تقویت دیتی ہے۔ پٹھوں اور عضلات سے اینٹھن کو دور کرتی ہے۔ بالوں کو گرنے سے روکتی اور صحت مند بناتی ہے۔ جسمانی دردوں کو مٹاتی ہے۔ اس کے استعمال کی بہترین صورت اس کا جوشاندہ ہے۔ اس جوشاندہ کو پکاتے وقت اگر بنفشہ اور منقیٰ بھی شامل کرلیا جائے تو زیادہ مفید ہوتا ہے۔
رازی کا کہنا ہے کہ سنا کے سفوف سے اس کا جوشاندہ بہتر ہے۔ اسے پکاتے وقت اس میں شاہترج کی شمولیت غلاظتوں کے اخراج میں زیادہ مفید ہوتی ہے۔
عرب کے پرانے اطباء پہلے اس کی پھلیوں کو بطور دوا استعمال کرتے تھے، بعد میں اطباء نے پتیوں کو بہتر بتایا اور استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس کا استعمال خارجی طور پر نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک عمدہ مسہل دوا ہے۔ یہ دیر سے عمل کرتی ہے، اس کا اثر 6 سے 8 گھنٹے کے بعد ہوتا ہے۔ دیر سے اثر ہونے کی وجہ سے ہی اسے رات کو دینا موزوں ہے۔ سناء کے اندر ایک خاص بات یہ پائی جاتی ہے کہ اگر اسے دودھ پلانے والی عورت کو دیا جائے تو دودھ پینے والے بچے کو بھی دست آنے لگتے ہیں۔
اسے ادویہ مسہلہ میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ یہ سوداوی، صفراوی اور بلغمی مادوں کو جسم سے نکالنے کا شاندار ملکہ رکھتی ہے۔ اس وجہ سے دمہ میں پھنسا ہوا بلغم نکل جاتا ہے۔ دماغی نالیوں میں پھنسی ہوئی رطوبتیں نکلنے سے دردِ شقیقہ، مرگی، عرق النساء، گنٹھیا اور پرانے سردرد میں افاقہ ہوتا ہے۔ قلب کے عمل کو تقویت دیتی ہے۔ دماغ سے وسواس نکالتی ہے۔ خون صاف کرتی ہے اور پیٹ کے کیڑے مار دیتی ہے۔ سنا کو مفرد استعمال کرنا مناسب نہیں، اس کے جوشاندہ میںگلاب کے پھول اور روغنِ بادام ملالینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ گلاب کے پھول 7 ماشہ آدھا سیر گائے کے دودھ کے ساتھ ایک تولہ برگِ سنا پکاکر اس میں کھانڈ ملا کر پینا زیادہ منفعت بخش ہوتا ہے۔ اگر اسے تھوڑی مقدار میں دیا جائے تو ملین ہے۔ زیادہ مقدار میں مسہل ہے۔ اس سے پیٹ میں مروڑ اُٹھتے ہیں۔ مگر ریوند چینی کی طرح بعد میں ردعمل کے طور پرقبض نہیں کرتی۔ پیٹ سے سنا کی خاصی مقدار خون میں داخل ہوجاتی ہے۔ پھر پیشاب کے ذریعے اسے سرخ رنگ دے کر خارج ہوتی ہے۔
اس کے استعمال سے کچھ لوگوں کو جی متلانے و مروڑ کی شکایات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اس کا استعمال دودھ پلانے والی عورتوں، نازک مزاج اشخاص اور حاملہ عورتوں کے لیے منع ہے۔ جن لوگوں کو سنا سے مروڑ پیدا ہوجاتے ہوں، انہیں لعابِ ریشہ خطمی یا چھلکا اسپغول کے ہمراہ استعمال کرانا چاہیے۔
ویدک طب میں اس کا خیساندہ۔ برگ سنا ڈھائی تولہ، تراشیدہ ساڑھے تین تولہ، لونگ (قرنفل) ساڑھے تین تولہ، پانی 25 تولہ۔ ان کو ایک گھنٹے ہلانے کے بعد قبض کے مریضوں کو تین سے پانچ تولہ کی مقدار میں دیا جائے۔ اس کے پینے کے آدھے گھنٹہ بعد پیشاب میں سرخی آجاتی ہے۔ اس کی قولنجی صلاحیت کھانڈ ملانے سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ نمک کے ساتھ کھانے سے چہرہ شفاف ہوتا ہے۔ چھاچھ کے ساتھ کھانے سے پرانا بخار ٹوٹ جاتا ہے۔ بکری کے دودھ کے ساتھ کھانے سے بدن فربہ ہوتا ہے۔ اونٹنی کے دودھ کے ساتھ کھانے سے سرکا بادی کا درد جاتا رہتا ہے۔ املی کے پتوں کے ساتھ کھانے سے جنون اور مرگی میں فائدہ ہوتا ہے۔ آملہ کے رس کے ساتھ اس کا استعمال کوڑھ اور مقعد کے پھوڑے میں مفید ہے۔ بکری کے دہی کے ساتھ کھانے سے زہر اُترتا ہے۔ انار کے دانوں کے رس کے ساتھ کھانے سے پیٹ سے ریاح نکل جاتے ہیں۔ ادرک کے رس کے ساتھ کھانے سے بدہضمی رفع ہوتی ہے۔ انگوروں کے رس کے ساتھ کھانے سے آنکھ کی روشنی بڑھتی ہے۔ نرگنڈی کے رس کے ساتھ کھانے سے بادی اور دل کا گھٹنا کم ہوتا ہے۔ نیم کے پتوں کے رس کے ساتھ کھانے سے برص مٹتا ہے۔ پیپل کے دانوں (دار فلفل) کے ساتھ کھانے سے پاگل پن جاتا رہتا ہے۔
طبِ جدید میں قبض کو توڑنے کے لیے اب تک پانچ ہزار سے زائد ادویہ مستعمل رہی ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے کی ادویہ کی فہرست بھی سینکڑوں میں تھی۔ مگر آج کے دوا فروش کے پاس صرف تین ایسی ادویہ ہیں جو اس غرض سے کام آتی ہیں، جن میں سے ایک سنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار سالوں پر محیط طویل مشاہدات کے بعد سنا وہ منفرد دوائی ثابت ہوئی ہے جس کی مقبولیت اور اہمیت آج بھی وہی ہے جو ہزار سال پہلے تھی۔ برٹش فارما کوپیا کوڈیکس نے اسے بطور ملین سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے۔
جلدی امراض میں سنا ایک لاجواب دوائی ہے۔ اسے مہندی اور کلونجی کے ساتھ ملا کر اگر سرکہ میں حل کرکے استعمال کیا جائے تو یہ پھپھوندی سے پیدا ہونے والی تمام بیماریوں اور خاص طور پر ان حالتوں میں جب زخموں پر تکلیف دہ چھلکے آئے ہوں ، کمال کی دوائی ہے۔ ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں بھی سنا کو کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہاضمہ کی خرابی کی وجہ سے جب آگزیلیٹ اور یوریٹ زیادہ مقدار میں پیدا ہورہے ہوں تو سنا کا استعمال ان کے اخراج کا باعث ہوتا ہے۔ پیشاب میں آگزیلیٹ کا آنا آئندہ کی پتھری کا پیش خیمہ ہونے کے ساتھ ساتھ جلن اور ذہنی پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ یوریٹ اور آگزیلیٹ پیشاب میں حل نہیں ہوتے اور مریض کوسفید رطوبت کی صورت میں علیحدہ نظرآتے ہیں جسے ان پڑھ معالج
جریان قرار دیتے ہیں۔ ایسے مریضوں کے لیے سنامکی کا ملٹھی اور سونف کے ساتھ مرکب بڑے شاندار اثرات رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے چند روزہ استعمال سے پیشاب میں آنے والی سفید رطوبتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ سنامکی کا مسلسل استعمال گردوں، پتہ اور مثانہ سے پتھری کو حل کرکے نکالنے میں شہرت رکھتا ہے۔ نوبتی بخاروں کے لئے 10 گرام یا کم وبیش حسب عمر صبح پانی سے استعمال کریں۔ ایک ہفتہ کے استعمال سے بخار رفع ہوجائے گا۔ زچہ اور نازک مزاجوں کے لئے سنا 3گرام،گڑ 20 گرام کو 200 گرام پانی میں جوش دیں۔ جب نصف رہ جائے تو مَل اور چھان کر 100 گرام دودھ ملا کر پلانے سے صرف ایک اجابت کھل کر ہوگی۔ سنا 6 گرام، گل قند20 گرام۔ سنا کو 200 گرام پانی میں جوش دیں، جب نصف رہ جائے تو مَل اور چھان کر گل قند ملا کر پلانے سے پیٹ کے درد میں تسکین ہوگی۔ سنا، مغز بادام، تربد… ہر ایک دس دس گرام باریک پیس کر گولیاں بقدر نخود بنالیں۔ دو گولی نفع دماغ کے لئے صبح اور شام کھانے سے سردرد میں آرام آجاتا ہے۔