روس،یوکرین جنگ

عالمی منظرنامے پر جس تیزی سے روس اور یوکرین کی جنگ تبدیلیاں لارہی ہے اس کا شاید اندازہ اہلِ مغرب کو بھی نہ تھا۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ تادم تحریر جاری ہے، امن مذاکرات میں بس یہ پیش رفت ہوپائی ہے کہ اب یہ مذاکرات آن لائن کے بجائے بالمشافہ ہوں گے۔ ان مذاکرات کا ڈول ترکی کی جانب سے ڈالا گیا ہے، جبکہ ان کوششوں میں اسرائیل بھی ترکی کے ساتھ ہے۔ مذاکرات کا یہ دور اب ترکی میں ہورہا ہے جس میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود شرکت کریں گے۔ یاد رہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زولینسکی بھی ایک یہودی النسل گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاحال اس جنگ میں اسرائیل نے کسی ایک فریق کا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ لزٹرس نے کہا ہے کہ روس مذاکرات میں مخلص نہیں، بلکہ وہ اس کے ذریعے عالمی برادری کو دھوکہ دے کر وقت حاصل کررہا ہے۔ 29 مارچ 2022ء کے برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق وزیر خارجہ نے ان مذاکرات کو فیصلہ کن بنانے پر زور دیا تاکہ اس مسئلے کا ٹھوس و دیرپا حل نکالا جاسکے۔
ادھر مغربی میڈیا یہ دعویٰ کررہا ہے کہ روس کا اصل ہدف یوکرین کی تقسیم ہے، اور روس سے متصل صوبے کریمیا پر قبضے کے بعد اب روس کا دوسرا بڑا ہدف ماریو پول شہر ہے جس پر قبضے کی جنگ تاحال جاری ہے۔ یہ ساحلی شہر اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ بلیک سی کے ساتھ واقع ہے اور اس شہر پر قبضے کا مقصد بلیک سی پر قبضہ کرکے روس کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ کئی روز کی جنگ کے بعد میڈیا یہ دعویٰ کررہا ہے کہ شہر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور روس کی پیش قدمی دیکھتے ہوئے لگتا تو یہ ہے کہ چند روز میں روس اس شہر پر بھی قابض ہوجائے گا۔ دوسرے محاذ دارالحکومت کیو پر روس کے حملے جاری ہیں لیکن تاحال اس پر روس کا قبضہ ممکن نہیں ہوسکا۔ دفاعی ماہرین اور روسی ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال اس جنگ کے جو مقاصد روس کو حاصل کرنا تھے وہ کرچکا ہے جس میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کو روکنا، اپنی سرحد کی مزید توسیع اور بلیک سی پر قبضہ شامل ہیں۔ یہ وہ معاملات ہیں جن کا براہِ راست تعلق روس اور یوکرین سے ہے، لیکن اس کے علاؤہ روس اور یوکرین کی جنگ میں جو زد مغرب کے مفادات پر پڑی ہے اُس کا اثر عالمی طور پر محسوس کیا جارہا ہے۔
روس پر پابندیوں کے حوالے سے خود یورپ کے ممالک کا ردعمل حوصلہ افزا نہیں رہا۔ جرمنی اور اٹلی نے پابندیوں پر عمل درآمد سے معذرت کی۔ ادھر اب باضابطہ طور پر ایک انٹرویو میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زولینسکی نے کہا ہے کہ فرانس اور جرمنی کا رویہ اس جنگ میں ناقابلِ فہم ہے جبکہ برطانیہ اس جنگ میں مکمل طور پر ہمارے ساتھ ہے۔ یوکرینی صدر کا انٹرویو برطانوی اخبار ڈیلی میل کی 29 مارچ 2022ء کی اشاعت میں شامل کیا گیا۔ زولینسکی کا کہنا تھا کہ سامانِ حرب کی فراہمی سے لے کر روس پر پابندیوں کے معاملے میں جرمنی اور فرانس نے سرد مہری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رویہ روس کی ممکنہ ناراضی سے بچنے کے لیے اختیار کیا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ روس سے تیل و گیس کی خریداری پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور بین الاقوامی مالیاتی لین دین کے لیے سوئفٹ سے روسی بینکوں و مالیاتی اداروں کو باہر کیا جائے۔
یوکرینی صدر کا یہ انٹرویو اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ تاحال یوکرین نے اس جنگ میں روس کے سوا کسی اور کو براہِ راست تنقید کا نشانہ نہیں بنایا تھا، اب سربراہِ مملکت کی جانب سے اس قسم کی تنقید کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں یورپ بھی اب دو حصوں میں واضح طور پر تقسیم ہوچکا ہے، ایک وہ جو روس کی مذمت اور یوکرین کی حمایت کررہے ہیں، اور دوسرے وہ جو بظاہر تو روس کی جارحیت کے خلاف ہیں لیکن روس کی مذمت نہیں کررہے اور اُس کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔
اب ذرا یورپ کا جائزہ لیں تو بنیادی طور پر یورپ کو طاقتور بنانے والے تین ممالک کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس شامل ہیں۔ برطانیہ ازخود یورپی یونین سے علیحدہ ہوچکا ہے، جبکہ موجودہ یورپی یونین کے کلیدی ممالک جرمنی اور فرانس پر اب خود یوکرین تنقید کررہا ہے۔ اس صورت حال میں یہ بات اب نوشتہ دیوار ہے کہ یورپ میں روس کا اثر و نفوذ اس جنگ کے بعد مزید بڑھ گیا ہے اور اُدھر بظاہر خاموش چین درپردہ روس کی مکمل معاونت کررہا ہے۔ بی بی سی ریڈیو فور نے اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے سرد جنگ کا جو سلسلہ سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ بظاہر ختم ہوگیا تھا اب وہ طاقتور طور پر دوبارہ شروع ہوچکا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اس جنگ میں روس بڑی طاقت تھا اور چین اس کا چھوٹا پارٹنر.. اب چین اس جنگ کا قائد ہے اور روس اس کے ساتھ ہے۔ مغربی میڈیا بار بار چین کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے اور روس کی معاشی و اقتصادی طور پر امداد کرنے پر تنقید کا نشانہ بنارہا ہے، لیکن اس کے پاس بظاہر کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں، جبکہ اس کے برعکس یوکرینی صدر کی جانب سے برطانیہ کی یوکرین کا ساتھ دینے پر ستائش اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ برطانوی میڈیا بار بار اس کو رپورٹ کرچکا ہے کہ برطانوی فوجی یوکرین کے دفاع کے لیے یوکرین میں روس کے خلاف برسر پیکار ہیں، اور گزشتہ دنوں پولینڈ کی سرحد سے متصل نیٹو کے فوجی کیمپ پر روس کے میزائل حملے میں برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق برطانوی میڈیا نے کی ہے، تاہم برطانوی حکومت کا کہنا تھا کہ کچھ فوجی اپنے طور پر یوکرین گئے ہیں جن کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی۔ لیکن یوکرین کے صدر کے اس بیان کے بعد محسوس یہ ہورہا ہے کہ برطانیہ یوکرین کی امداد ہر طور پر کررہا ہے۔ شاید کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اس کی مزید وضاحت ہوسکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ شاید یورپی یونین اور نیٹو کے خاتمے کا عنوان بن جائے اور روس و چین مل کر دنیا میں نئے بین الاقوامی معاہدوں کی بنیاد رکھیں۔