ایٹمی جنگ کا خطرہ؟

روس نے 24 فروری کو یوکرین پر لشکر کشی کی، تب سے ایٹمی جنگ کا خطرہ ایک بار پھر پیدا ہوگیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے 27 فروری کو باضابطہ اعلان کیا کہ روس کی ایٹمی فورس کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دی بلیٹن آف دی ایٹمک سائنٹسٹس نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ ایک بار پھر انتہائی خطرناک اور تباہ کن صورتِ حال کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کس حد تک وزن رکھتی ہے؟ کیا آج کی دنیا میں کوئی بھی ریاست ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں کتنے ایٹمی ہتھیار ہیں اور کس کے پاس کتنے ایٹمی ہتھیار ہیں؟ اور اس سے کہیں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آج کے ایٹمی ہتھیار کتنے طاقتور ہیں؟
آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن نے بتایا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے ماہرین کی رائے میں اس وقت برطانیہ، فرانس، چین، روس، شمالی کوریا، اسرائیل، پاکستان، بھارت اور امریکہ کے پاس مجموعی طور پر کم و بیش 13 ہزار ایٹمی ہتھیار ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان تمام ریاستوں کے پاس مجموعی طور پر اس سے کہیں زیادہ ایٹمی ہتھیار ہوں۔
برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کی سینئر لیکچرر این ہیرنگٹن کہتی ہیں کہ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ کن ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ کس ملک کے پاس کتنے ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اس معاملے میں ہمیں متعلقہ ملک کے فراہم کیے ہوئے اعداد و شمار تک ہی محدود رہنا پڑے گا۔ ہم پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اسرائیل کے پاس کتنے ایٹمی ہتھیار ہیں، کیونکہ اسرائیل نے خود کو باضابطہ طور پر ایٹمی ملک کے طور پر پیش نہیں کیا۔ چین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کے حوالے سے بھی متعلقہ حلقوں میں بحث چھڑتی رہتی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور روس نے ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ گھٹانے پر خاصی توجہ دی ہے اور اب دونوں کے پاس سرد جنگ کے زمانے کے مقابلے میں کہیں کم ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ہوم لینڈ سیکورٹی نیوز وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق 1967ء میں امریکہ کے پاس 31225 ایٹمی ہتھیار تھے۔ ہارورڈ کینیڈی اسکول میں قومی سلامتی کے تجزیہ کار گراہم ایلیسن کی مرتب کی ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے وقت یوریشیا کے خاصے وسیع رقبے پر کم و بیش 31 ہزار ایٹمی ہتھیار اُن ریاستوں میں منقسم تھے جو 9 ٹائم زونز میں واقع تھیں۔
آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کی جنوری میں شایع ہونے والی فیکٹ شیٹ کے مطابق آج روس کہتا ہے کہ اس کے پاس 6257 ایٹمی ہتھیار ہیں، جبکہ امریکہ 5550 ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ہونا تسلیم کرتا ہے۔کیمپین فار نیوکلیئر ڈزآرمامنٹ (سی این ڈی) سے تعلق رکھنے والی سارہ میڈی جونز کہتی ہیں کہ امریکہ اور روس کے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے میں رونما ہونے والی اتنی بڑی کمی اس حقیقت کے تحت ہے کہ ریٹائر ہوجانے والے ایٹمی ہتھیاروں کو غیر مؤثر بنادیا گیا۔ سارہ میڈی جونز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران اس امر کے شواہد ملے ہیں کہ نصب یا تعینات کیے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اور ایٹمی ہتھیاروں کی اَپ گریڈیشن بھی غیر معمولی پیمانے پر اور تیزی سے جاری ہے۔ فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے نیوکلیئر انفارمیشن پراجیکٹ کے منیجر اور سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ میٹ کورڈا کہتے ہیں کہ ہم پورے یقین سے تو نہیں بتاسکتے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کس طور نئی شکل اختیار کررہے ہیں اور اُن کی اَپ گریڈیشن کس درجے میں ہے، تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چین، بھارت، شمالی کوریا، پاکستان اور ممکنہ طور پر برطانیہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا درجہ بلند کرنے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ میٹ کورڈا نے ’’لائیو سائنس‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ یہ بات بھی پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ کتنے ایٹمی ہتھیار نصب کی ہوئی حالت میں ہیں اور ان میں سے کتنے ہائی الرٹ پر ہیں، یعنی کسی بھی وقت چلائے جاسکتے ہیں۔ امریکہ اور روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں سے ایک خاص تعداد کو انتہائی الرٹ حالت میں رکھتے ہیں یعنی انہیں محض پندرہ منٹ کے نوٹس پر بھی چلایا جاسکتا ہے۔ 2015ء میں دی یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹس نے ایک تحقیقی مقالے میں بتایا تھا کہ مجموعی طور پر امریکہ اور روس کے 900 ایٹمی ہتھیار انتہائی ہائی الرٹ کی حالت میں ہیں۔
میٹ کورڈا کا کہنا ہے کہ چین، اسرائیل، پاکستان اور بھارت اپنے ایٹمی ہتھیار سینٹرل اسٹوریج میں رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں اگر نوبت اُن کے استعمال تک جاپہنچے تو اُنہیں اسٹوریج سے نکالنے، متعلقہ مشینری سے جوڑنے اور پھر چلانے میں کئی دن، بلکہ کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ برطانیہ کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو بیلسٹک میزائل آبدوزوں میں نصب رکھتا ہے مگر ان کا کوئی ہدف مقرر نہیں ہوتا، یعنی اگر استعمال کرنا پڑے تو اُنہیں چلانے کی پوزیشن میں لانے کے لیے کئی گھنٹے یا کئی دن درکار ہوسکتے ہیں۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ اس وقت جو ایٹمی ہتھیار پائے جاتے ہیں اُن کی طاقت کتنی ہے؟ ایٹمی ہتھیاروں کے موجودہ امریکی ذخیرے میں سب سے طاقتور بم B83 ہے جس کی طاقت 1.2 میگاٹن ہے جو ناگاساکی کو راکھ کا ڈھیر بنانے والے ایٹم بم کی طاقت سے 60 گنا ہے۔ نیوکلیئر ویپن آرکائیو کے مطابق B83 ٹائپ کے 650 ایٹم بم ’’ایکٹو سروس‘‘ میں ہیں، یعنی کسی بھی وقت بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔
B83 کی طاقت روس کے تیار کردہ ’’دی زار بومبا‘‘ کے سامنے کچھ بھی نہیں، جو اب تک تیار کیا جانے والا سب سے طاقتور بم ہے۔ اس بم کی مجموعی طاقت 50 ٹن ہے، یعنی ناگا ساکی کو تباہ کرنے والے بم کی طاقت سے ڈھائی ہزار گنا زیادہ۔ یہ بم سابق سوویت یونین کے زمانے میں پوری دنیا کو سوویت یونین کی طاقت کے درشن کرانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تب سے اب تک ایسا کوئی دوسرا بم تیار نہیں کیا گیا۔
B83 اور ’’دی زار بومبا‘‘ جیسے ہائیڈروجن بم جوہری امتزاج کے اصول کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، جبکہ عام ایٹم بم جوہری انشقاق کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ معروف امریکی جریدے ٹائم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طاقت کے مقابلے میں دونوں بموں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں۔ ہائیڈروجن بم عام ایٹم بم سے ایک ہزار گنا تک زیادہ طاقت کے حامل ہوتے ہیں۔
ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم میں ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کو اسٹرے ٹیجک اور نان اسٹرے ٹیجک درجہ بندی میں رکھا جاتا ہے۔ سینٹر فار آرمز کنٹرول اینڈ نان پرولیفریشن کے محقق و تجزیہ کار سیموئل ہکی کہتے ہیں کہ اسٹرے ٹیجک ہتھیار ماسکو سے چلایا جائے تو واشنگٹن میں ہدف تک پہنچ سکتا ہے، جبکہ نان اسٹرے ٹیجک ہتھیار بہت چھوٹے فاصلے کے لیے ہوتا ہے۔ اسے حربہ یعنی ٹیکٹیکل ویپن بھی کہا جاتا ہے۔
سرسری نظر ڈالنے سے ایسا لگتا ہے کہ اسٹرے ٹیجک اسلحے کے مقابلے میں نان اسٹرے ٹیجک اسلحہ زیادہ کارگر نہیں ہوتا۔ بہت حد تک ایسا ہے مگر ہر معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ مثلاً امریکہ نے ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ’’لو ییلڈ‘‘ W76-2 تیار کیا تھا۔ یہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار آبدوز پر نصب کیا جاتا ہے۔ اس کی طاقت پانچ کلو ٹن ہے۔ ناگا ساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم ’’فیٹ مین‘‘ (موٹا آدمی) کی طاقت 21 کلو ٹن تھی۔ اُس ایٹم بم سے فوری طور پر 40 ہزار ہلاکتیں واقع ہوئی تھیں جبکہ بم پھٹنے سے پھیلنے والی تابکاری سے کئی نسلیں متاثر ہوئیں۔ سیموئل ہکی کہتے ہیں کہ بحران کو شدید تر ہونے سے روکتے اور ہلاکتوں کی راہ مسدود کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کرنا ممکن ہی نہیں۔ جنوری 2022ء میں امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ اور چین کے سربراہانِِ مملکت و حکومت نے یہ بات درست قرار دی کہ ایٹمی جنگ جیتی نہیں جاسکتی اس لیے یہ جنگ ہونی ہی نہیں چاہیے۔ محض ایک ایٹمی ہتھیار کے استعمال سے ہونے والا جانی و مالی نقصان بھی اتنا زیادہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے جنگ لڑنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
سیموئل ہکی بتاتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے لیے ہر متعلقہ ملک اپنی سہولت کے مطابق اسٹوریج سسٹم اپناتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہیں دھماکوں سے محفوظ ہوتی ہیں اور بالعموم خاصی گہرائی میں بنائی جاتی ہیں تاکہ کسی حادثاتی دھماکے میں کم سے کم نقصان ہو۔ زیر زمین بہت نیچے رکھنے کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کو حملوں کے وقت محفوظ رکھنا بھی ہے۔
امریکہ میں ایٹمی ہتھیاروں کو کرپٹو گرافک کامبی نیشن لاک کے تحت رکھا جاتا ہے تاکہ وہ لوگ اسے چلا ہی نہ سکیں جنہیں اس کے چلانے کا اختیار سونپا نہ گیا ہو۔ عمومی اور روایتی طور پر صرف صدرِ مملکت کو ایٹمی ہتھیار چلانے کی اجازت دینے کا اختیار ہے، تاہم اگر پاس ورڈ لگادیا جائے تو کسی بھی ایٹمی ہتھیار کو منٹوں میں چلائے جانے کے قابل بنایا جاسکتا ہے، مگر اس کے لیے لازم ہے کہ انہیں کسی میزائل سے جوڑا جائے یا پھر کسی طیارے پر اَپ لوڈ کیا جائے۔
یہ بات تو فطری ہے کہ اگر کسی ایک ملک نے ایٹمی ہتھیار چلایا تو تمام متعلقہ ممالک ایٹمی ہتھیار چلانے میں تاخیر نہیں برتیں گے، اور یوں ایک ایسی جنگ چھڑے گی جس میں یہ پوری دنیا تباہ ہوجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی حالت میں بہتر نہ ہوگا کہ تمام ایٹمی ہتھیاروں کو غیر مؤثر بنادیا جائے؟ کیا ایسی دنیا کا تصور کیا جاسکتا ہے جس میں ایٹمی ہتھیار نہ ہوں؟ اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف اسٹرلنگ میں عصری یورپی تاریخ کے شعبے کے چیئرمین ہولگر نیہرنگ کہتے ہیں ’’ایسا ہوتا تو دکھائی نہیں دیتا۔ ایٹمی ہتھیار اصلاً ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ردِّ جارحیت ہیں، اس لیے کوئی بھی ایٹمی قوت ان ہتھیاروں سے جان چھڑانے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔ ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل نجات اُسی وقت ممکن ہے جب کسی عالمی نظام میں تمام ہی ریاستیں ایک دوسرے پر غیر معمولی اعتماد یا بھروسا رکھتی ہوں۔ اور ایسا ہونا بہت ہی مشکل ہے۔ اور مشکل کیا، ناممکن سمجھیے۔‘‘
انگلینڈ کی یونیورسٹی آف لیسٹر میں بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر اینڈریو فٹر کہتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر میں جتنی کمی کی جاسکتی تھی اُتنی کمی کی جاچکی ہے۔ اب مزید کمی کے بارے میں سوچنے کی گنجائش ہے نہ اس حوالے سے بحث و تمحیص کی۔