سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت جاری ہے اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں اور اب علی ظفر اپنے دلائل شروع کریں گے، ان سطور کی اشاعت تک رواں ہفتے اس پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ جاری کرنے والی ہے، عدالت کا فیصلہ کیا ہوگا؟ امکان ہے کہ عدالت جرم ہونے سے قبل کسی قسم کی سزا کا حکم جاری نہیں کرے گی، جرم ثابت ہوجانے پر ہی سزا کا کوئی تعین ہوسکے گا؟ صداری ریفرنس پر سماعت کے دوران بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں جن میں اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے اراکین منحرف ہو جاتے ہیں؟ ہم سے حکومت یہ کام کیوں کرانا چاہتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا صرف اتنا کہا کہ یہ فورم اس سوال کے جواب کے لیے نہیں ہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت قانون ساز نہیں، صرف آئین کی تشریح کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا ذکر ہے نا اہلی کا نہیں، رکنیت ختم ہونا آئین کی زبان کی قریب ترین تشریح ہوگی۔’ابھی تک تو یہی سنا ہے کہ پارٹی سے انحراف بہت بری چیز ہے تمام جماعتیں ہی انحراف کو برا کہتی ہیں۔ جاننا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے منحرف اراکین کے لیے قانون ادھورا کیوں چھوڑا؟‘اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کی مدت کا بھی ذکر نہیں، جو بھی تشریح عدالت کرے گی اس کے الفاظ 63 اے میں نہیں لکھے۔ عدالتی رائے کا اطلاق تمام منحرف اراکین پر ہو گا، اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل مکمل کر لیے ہیں اب دوسرا فریق اپنے دلائل دے گا ۔
اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کی تقریر پر عدالت کے تحفظات پر جواب بھی دیا کہ وزیراعظم نے کمالیہ تقریر میں 1997 سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں بات کی گئی تھی، وزیر اعظم کو عدلیہ پر بھرپور اعتماد اور یقین ہے‘ پارٹی سے انحراف کو معمول کی سیاسی سرگرمی نہیں کہا جا سکتا۔ اسمبلی تحلیل ہوتے ہی اراکین کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے، اراکین اسمبلی کی رکنیت کی مدت کا تعین اسمبلی سے جڑا ہوا ہے۔’اسمبلی کی مدت پورے ہونے تک نااہلی سے آرٹیکل 63A کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔ آرٹیکل 63 اے کا مقصد تاحیات نااہلی پر ہی پورا ہو گا عدلیہ یہ طے کرے گی کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں۔ منحرف رکن کی نااہلی پانچ سال یا تاحیات ہو سکتی ہے۔ منحرف رکن کی نااہلی باقی رہ جانے والے اسمبلی مدت تک بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ منحرف رکن نیوٹرل ہو کر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے تو اس کی نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے۔’مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر نااہلی تاحیات ہے، مس کنڈکٹ پر نااہلی پانچ سال ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر کے نااہلی کے مدعت کے تعین کی وجوہات بتائے، حکومت کا مؤقف ہے کہ منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کو چار حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے کہ منحرف رکن باقی رہ جانے والی اسمبلی مدت تک نااہل ہوسکتا ہے، منحرف رکن پانچ سال کے لیے نااہل ہوسکتا ہے، منحرف رکن تاحیات نا اہل ہوسکتا ہے، منحرف رکن کو آئندہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، عدلیہ میں یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا اختلاف کرنے کا مطلب انحراف ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اختلاف تو جج فیصلوں میں بھی کرتے ہیں۔ اختلاف رائے کا مطلب انحراف کرنا نہیں ہوتا۔ صرف چار مواقع پر پارٹی فیصلے سے انحراف سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے نکتہ اٹھایا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے نااہلی کا نہیں۔ ’جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہو گئی۔ کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرے گا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈیکلریشن دے گا۔ پارٹی سے انحراف غلطی سے نہیں ہوتا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں۔ آرٹیکل 63-P میں وقتی نااہلی کا ذکر ہے۔جھوٹا بیان حلفی دینے پر تاحیات نااہلی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ جھوٹے بیان حلفی پر پانچ سال نااہلی کا قانون بنائے تو وہ کالعدم ہو گا؟‘جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق اور نتائج پر الگ الگ عدالتی فیصلے ہیں یہ بھی سوال سامنے لایا گیا کہ ایماندار شخص کو آئین نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا آئینی حق دیا ہے، تو کیا حکومت ایماندار شخص پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ لینے کی بنیاد پر تاحیات نااہلی کی تلوار لٹکانا چاہتی ہے، آئین بنانے والوں کے لیے ڈی سیٹ ہونا بہت بڑی بات ہے۔ ڈی سیٹ کیا بڑی سزا نہیں ہے۔ چوری ثابت کرنے کے لیے طریقہ کار کو اپنانا پڑے گا، اٹارنی جنرل کا مؤقف ہے کہ استعفی دینا کوئی گناہ نہیں ہے سوال ہے کہ انحراف کے بعد رکن دوبارہ الیکشن لڑنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں عدلیہ نے یہ پوچھا کہ ’آئین سازوں نے جہاں مناسب سمجھا نااہلی لکھ دی۔ آرٹیکل 63 اے میں آئین سازوں نے نااہلی کا نہیں لکھا۔