“ری بلڈ کراچی”ٹرنسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ ماضی حال اور مستقبل

کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ سنگین ہے اور ہمارے کرپٹ سیاسی نظام کا عکس ہے۔ عالمی جریدے بلومبرگ نے 2020ء میں اپنی رپورٹ میں کراچی کو بدترین پبلک ٹرانسپورٹ رکھنے والا شہر قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی شہر سیاسی یتیم ہوتا ہے تو یہ حال ہوتا ہے، برسوں پرانی بسیں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھیڑ بکریوں کی طرح لوگ بسوں میں سفر کرتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ بسوں کی چھتوں کو بھی مسافروں کے بیٹھنے اور سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کراچی ایسا شہر ہے جس کے مسائل حل کرنے کا کوئی ذمے دار ہی نہیں، ٹریفک کے قوانین پر کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات معمول کی بات ہے۔ اور یہ صورتِ حال ہنوز برقرار ہے۔ البتہ ماضی کے حکمرانوں کے دور میں شروع ہونے والا گرین لائن بس منصوبہ اب مکمل ہوا ہے جو شہر کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل میں آٹے میں نمک کے برابر  ہے۔
اس وقت کراچی میں بسوں میں سفر کرنے والے 42 فیصد مسافر پرانی اور کھٹارا بسوں اور اکثر اوقات بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں تقریباً 34 افراد کے لیے کراچی میں صرف ایک سیٹ ہے۔ 20سال قبل 25 ہزار منی بسیں اور بسیں ہوتی تھیں، جو اب صرف 5ہزار کے قریب رہ گئی ہیں۔ اس میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں، یہ سارا کاروبار پرائیویٹ سیکٹر چلا رہا ہے۔ سندھ حکومت ستمبر 2021ء میں کیے گئے نئی بسوں کے اعلانات پر تاریخ پر تاریخ دیے جارہی ہے۔ ستمبر کے بعد دسمبر 2021ء، پھر جنوری 2022ء کی تاریخ دی، اس کے بعد مارچ کی، اور اب ايڈمنسٹريٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ ديرسوير ہوجاتی ہے، تاخير پر معذرت خواہ ہوں، اور اب انہوں نے نئی بسیں آنے کی اپریل کے آخر کی تاریخ دے دی ہے، جس سے حکمرانوں کی شہر کراچی کے لیے سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ایسے میں جماعت اسلامی کراچی کے لوگوں کے لیے مستقل آواز بنی ہوئی ہے، اور تواتر کے ساتھ کراچی کے ایشوز پر صرف احتجاج نہیں کررہی بلکہ مسائل کا حل بھی پیش کررہی ہے، اسی سلسلے میں جماعت اسلامی کے تحت ’’ری بلڈ کراچی‘‘ کے تسلسل میں پاکستان انجینئرز فورم کراچی چیپٹر کے تعاون سے ”ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ… ماضی، حال اور مستقبل“ کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا، جس کی صدارت نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے کی۔ سیمینار سے سابق صوبائی سیکرٹری محکمہ ٹرانسپورٹ ڈاکٹر طاہر سومرو، کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے چیئرمین ارشاد بخاری، پاکستان انجینئرز فورم پاکستان کے صدر الکاظم منصور و دیگر نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر اسامہ رضی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام کے لیے شہر میں عملاً سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں ٹرانسپورٹ سمیت شہر کے دیگر مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں، سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں شروع کیے گئے ماس ٹرانزٹ پروگرام کو اگر بروقت مکمل کرلیا جاتا تو آج شہر میں ٹرانسپورٹ کے موجودہ مسائل نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کراچی مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگیا ہے، مسائل کی اس دلدل سے نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، کراچی کے ان مسائل پر جو افراد بات کرسکتے ہیں وہ مسائل کو اجاگر کریں۔ جماعت اسلامی کی سیاست عوام کے بنیادی مسائل کا حل ہے، سیاسی اور عوامی جدوجہد کے ذریعے عوام کی آواز کو بلند کرنا چاہتے ہیں۔ سیاست کا مرکزی نقطہ عوام کی خدمت ہونا چاہیے۔ موجودہ حکومت اور اس کے نظام میں عوام کے مسائل حل کرنے کی کوئی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر طاہر سومرو نے کہا کہ ساڑھے 3 کروڑ آبادی والے شہر میں کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے، اگر اس منصوبے پر پہلے ہی عمل درآمد کرلیا جاتا تو آج کراچی کو ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام میں 6 کوریڈور بنائے جانے تھے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوجاتے، جس سے پورے کراچی کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم ہوجاتی۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام کا منصوبہ پیش کیا جسے بدقسمتی سے بعد میں آنے والی حکومت نے نظرانداز کردیا، جس کی وجہ سے آج کراچی ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہے۔
ارشاد بخاری نے کہاکہ 2010ء میں 20 سے 22 ہزار گاڑیاں تھیں جن میں منی بسیں، بسیں اور کوچز بھی شامل تھیں، ہماری بہت سی بسیں کراچی کے حالات خراب کرنے کے لیے جلائی گئیں، ایم کیو ایم والے اکثر زور زبردستی ہماری گاڑیاں لے جایا کرتے تھے، کراچی میں بس ڈرائیوروں کی تربیت کے لیے اسکول قائم تھا جو کہ ایک ماہ کی تربیت کے بعد بس چلانے کا لائسنس جاری کرتا تھا۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ صرف پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے حل ہوسکتا ہے، سرمایہ کار اور بڑی کمپنیاں آگے آئیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں۔
الکاظم منصور نے کہا کہ کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے، یہ وہ لاوارث شہر ہے جس میں ماس ٹرانزٹ پروگرام موجود نہیں ہے۔ اب تو افریقہ اور ایتھوپیا میں بھی ماس ٹرانزٹ پروگرام آگیا ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ ہی معرضِ وجود میں آیا ہے، وہاں 14 شہروں میں ماس ٹرانزٹ پروگرام موجود ہے۔ سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے 90 فیصد ایم پی ایز نے کراچی سے ہی تعلیم حاصل کی اور کراچی ہی میں رہائش پذیر ہیں، اس کے باوجود کراچی کو اون نہیں کرتے۔ کراچی تمام زبانیں بولنے والوں کا شہر ہے، افسوس کہ نہ وفاقی حکومت اور نہ صوبائی حکومت کراچی کو اون کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ کراچی کو مل کر اون کریں۔ ہم سب کو مل کر کراچی کی اونرشپ لینا ہوگی۔