رمضان المبارک ایک مرتبہ پھر ہم پر سایہ فگن ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اس کی رضا کے لیے کامل یکسوئی اور ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھیں۔ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے کہ ”ہوشیار اور عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنا ہر عمل آخرت کی نجات و کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے کرے، جبکہ وہ نادان اور بے وقوف ہے جو اپنے آپ کو خواہشاتِ نفس کا تابع کردے اور بجائے احکام ِخداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے اور پھر اللہ سے اُمیدیں باندھے۔“ حدیث ِقدسی ہے نبیِ مہربانﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے رمضان کو پایا اور اللہ کی عبادت کرکے خود کو جہنم سے آزادی کا مستحق نہ بناسکا، ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت کا مستحق نہ بن سکا، ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے میرا نام نامی سنا اور مجھ پر درود نہیں بھیجا۔ “اس لیے رمضان کی آمد سے قبل ہی ہمیں رمضان المبارک کے مرتبے و مقام پر ایک بار پھر غور کرتے ہوئے ان بابرکت ایام میں خود کو اللہ کی رحمتوں اور بخششوں کا مستحق بنانے کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے۔ رمضان المبارک سیدالشہور (تمام مہینوں کا سردار مہینہ) ہے۔ اس لیے اس کی شان و شوکت اور عظمت کے مطابق اس کی آمد سے کماحقہ استفادہ کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ رمضان کی پہلی رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے آسمانِ دنیا پر آتے ہیں اور منادی کرتے ہیں کہ اے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے طالب، آگے بڑھ اور اللہ کو راضی کرلے، اور اے اللہ کے نافرمان، ماہِ مبارک کی عزت و وقار کو دیکھ اور حیا کر اور اپنے گناہوں سے باز آجا۔
آنحضرتﷺکی ایک حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ آپﷺنے پندرہ شعبان کے بعد اہلِ ایمان کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ لوگ تازہ دم ہوکر رمضان کے روزے رکھیں، انہیں جسمانی کمزوری لاحق نہ ہوجائے اور آسانی سے روزہ، تلاوتِ قرآن اور نوافل وغیرہ کی ادائیگی کرسکیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ”جب آدھا شعبان گزرجائے تو تم نفلی روزے نہ رکھو۔“ یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ پندرہ شعبان سے ہی رمضان کے استقبال کی تیاریاں شروع کردی جائیں تاکہ ان کو بروقت عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ رمضان المبارک میں ہر کام کا اجروثواب ستّر گنا سے سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔ قرآن کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اس مہینے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے جس میں مسلمانوں کو مکمل ضابطہ حیات اور نظامِ زندگی عطا کیا گیا ہے۔ لہٰذا رمضان میں بڑے پیمانے پر قرآن کی تلاوت، ترجمہ و تفہیم اور تراویح میں مکمل قرآن کے سننے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
روزہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اسی لیے پہلی امتوں پر بھی روزے کسی نہ کسی طریقے سے فرض رہے ہیں، جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔“ سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں بھی روزے کی عبادت موجود تھی۔ یہودی، عیسائی، ہندو اور سکھ سبھی اپنے اپنے انداز سے روزے رکھتے ہیں۔
روزے اور ایمان کا تعلق بہت گہرا ہے۔ باقی تمام عبادات کسی نہ کسی حوالے سے دوسرے انسانوں کے علم میں آجاتی ہیں، نماز ایسی عبادت ہے جو چھپائے نہیں چھپتی، حکم ہے کہ رکوع کرو، رکوع کرنے والوں کے ساتھ، یعنی اللہ کے آگے رکوع و سجود مل کر کرو۔ باجماعت نماز کو انفرادی نماز سے 27گنا افضل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح حج اور قربانی بھی ایسی عبادت ہے جو لاکھوں مسلمان مل کر کرتے ہیں، زکوٰۃ کا معاملہ بھی یہ ہے کہ کسی دوسرے کو نہ بھی پتا چلے جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے وہ تو جانتا ہے۔ لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے متعلق روزہ دار جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ جانتا ہے، جو علیم بذات الصدور ہے۔ روزہ اسلام کا چوتھا ستون ہے اور یہ ہر عاقل و بالغ مسلمان مردو عورت پر فرض ہے بشرطیکہ کوئی شرعی عذر رکاوٹ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ انسان پر تزکیہ نفس اور تقوٰی و طہارت حاصل کرنے کے لیے فرض کیا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس کے جملہ مقاصد اور تقاضوں کو سامنے رکھ کرروزہ رکھیں۔
روزہ ایمان کو ایک ننھی سی کونپل سے برگ و بار لانے والے شجرِ سایہ دار میں تبدیل کردیتا ہے۔ ایمان کی چنگاری کو شعلہ بنا دیتا ہے۔ ایک بندئہ مومن اپنے رب کے حکم سے اس کی حلال کردہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو روک لیتا ہے،اسے یقین محکم ہوجاتا ہے کہ اس کا خالق و مالک ہر لمحہ اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ شدید پیاس میں بھی ایک قطرہ پانی اپنے خشک حلق سے نیچے اتارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سخت بھوک میں بھی روٹی کا ایک ٹکڑا اپنے پیٹ میں نہیں ڈالتا۔ اس کے اردگرد ہر چیز موجود ہوتی ہے، فروٹ کی ریڑھیاں اسی طرح سجی ہوتی ہیں، ٹھنڈے اور میٹھے مشروبات ہیں، مگر وہ ان تمام چیزوں سے اس لیے بچتا ہے کہ اس کے مالک کا حکم ہے کہ ان کے قریب جاؤ گے تو میرے ساتھ تم نے روزے کی شکل میں جو عہد باندھا ہے وہ ٹوٹ جائے گا۔ اللہ کا وہ بندہ جو سارا دن اللہ کے حکم پر اس کی حلال کردہ چیزوں، جنہیں وہ سارا سال بغیر کسی روک ٹوک کے کھاتا پیتا رہا ہے، ان کا کھانا پینا ترک کردیتا ہے، وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے قریب کیسے جاسکتا ہے؟ یہی روزے کا مقصد اور تقویٰ کا معیار ہے۔
اسی طرح روزے اور قرآن کا تعلق بھی ہمیشہ ہمیشہ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے قرآن کو رمضان میں نازل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہر گھر اور ہر مسجد میں قرآن کی تلاوت کی آوازیں آتی ہیں، تراویح اور شبینہ کے روح پرور اجتماعات ہوتے ہیں اور اللہ کے بندے اپنے خالق و مالک کے در پر ہاتھ باندھے قرآن سنتے ہیں، قرآن کی مجالس برپا ہوتی ہیں، حفاظ کرام اور قراء حضرات قرآن کی منازل دہراتے ہیں۔ علمائے کرام اور خطیب حضرات اپنے خطابات میں قرآن کریم کے نزول اور اس کی عظمت و رفعت کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔
روزے کا ایک اہم مقصد معاشرے میں موجود غربا و مساکین اور ناداروں کی بھوک، پیاس اور ضروریات کا احساس دلانا بھی ہے جو سارا سال غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے بھوک برداشت کرتے ہیں۔ بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کی طرف توجہ دلانا ہے جن کی بے چارگی انہیں ہروقت مجبور و محروم رکھتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ کسی کا روزہ افطار کروانے والے کو ایک روزے کے مطابق اجر وثواب ملے گا خواہ وہ ایک کھجور اور پانی کے گھونٹ سے ہی کیوں نہ افطار کروایا جائے، اور افطار کرنے والے کے اجرو ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اس لیے اپنے اردگرد ایسے افراد کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو روزے تو رکھتے ہیں مگر انہیں سارا دن یہ فکر رہتی ہے کہ آج پکائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا؟ ان کے معصوم بچے بھی چاہتے ہیں کہ افطاری کے وقت ان کی کوئی پسندیدہ چیز کھانے کو مل جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھوکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دلاتا اور یتیم کو دھکے دیتا ہے وہ دین کو جھٹلاتا اور قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔ اسی طرح حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ صلحائے امت نے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے چالیس گھروں کو ہمسایہ قرار دیا ہے۔ اگر ہر فرد اپنے اردگرد کے ضرورت مندوں اورحاجت مندوں کی خبرگیری اور حاجت روائی کرے تو ہمارا معاشرہ محبت و اخوت اور ہمدردی و بھائی چارے میں اپنی مثال آپ بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں اسلام اور مسلمانوں کو ہمیشہ فتح و نصرت اور عزت و وقار سے سرفراز فرمایا ہے۔ غزوئہ بدر جسے یوم الفرقان بھی کہا گیا ہے وہ 17رمضان المبارک کو ہوا اور اللہ تعالیٰ نے کفر کے غرور کو ہمیشہ کے لیے خاک میں ملادیا۔ فتح مکہ رمضان المبارک 8ہجری میں ہوئی اور بیت اللہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ 10رمضان المبارک کو محمد بن قاسم ؒ کے ہاتھوں سندھ فتح ہوا اور برصغیر میں اسلام کا پرچم لہرایا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی نعمت 27رمضان المبارک کو عطا کی۔ اسی طرح اسلام کی تاریخ کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے اکثر واقعات رمضان المبارک میں پیش آئے۔
حکومت اگر واقعی رمضان المبارک میں غریبوں کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر آٹا، چینی، گھی اور دالیں خود خرید کر غریب بستیوں، دیہاتوں، گوٹھوں اور شہروں کے پسماندہ علاقوں میں عوام کو سستے داموں فروخت کرنی چاہئیں۔ ہر سال حکومت کی طرف سے اربوں روپے کی سبسڈی کے اعلانات ہوتے ہیں، وہ اربوں روپے قومی خزانے سے تو نکل جاتے ہیں مگر کہاں جاتے ہیں کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ غریب اسی طرح مہنگی چیزیں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دودھ کی قیمتوں میں کمی بہت ضروری ہے۔ اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ رمضان جو اللہ سے ڈرنے اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے کا درس دیتا ہے، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں نے اسے لوٹ کھسوٹ کا مہینہ بنا لیا ہے۔ حکومت اگر چند شہروں سے بڑے بڑے ذخیرہ اندوزوں، نامی گرامی منافع خوروں اور عوام کا خون نچوڑنے والوں کو پکڑ کر حوالات میں بند کردے تو چند دن کے اندر مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ حکومت آج جن مشکلات میں گھری ہوئی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ بھی مہنگائی اور وعدوں سے بے وفائی ہے۔
حکومت اپنے پونے چار سالہ دور میں مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ ان پونے چار سالوں میں ہر چیز کی قیمتوں میں کئی کئی گنا اضافہ ہوا۔ دو سال قبل آنے والے آٹے اور چینی کے بحران پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا، اور چینی مافیا نے مارکیٹ سے چینی ایسے غائب کی کہ اب تک لوگوں کی پہنچ سے دور ہے۔ سبزیاں اور پھل عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکے ہیں۔ اب تو غریب دال روٹی بھی نہیں کھا سکتا، دالیں بھی گوشت کی قیمت میں مل رہی ہیں۔ حکومت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے سستے بازار بھی لگاتی ہے جہاں کئی کئی دنوں کی باسی سبزیاں اور خراب اور گلے سڑے پھل بھی منہ مانگے داموں بک جاتے ہیں۔ حکومتی کارندے دکان داروں سے اپنا کمیشن لے کر غائب ہوجاتے ہیں اور دکان داروں کو عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالنے کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ مہنگائی نے غریب کے لیے روزے جیسی عبادت بھی مشکل بنادی ہے۔