ملک کے اندر سیاست اور حکومتی ایوانوں میں زلزلہ معمّا ہے، نہ اسے سمجھنے میں کسی طرح کی دشواری ہونی چاہیے۔ ماضی کے سیاسی کھیل کے بعد2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والے بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی سازش آج کے کھیل کے مماثل ہے۔ اب بلوچستان عوامی پارٹی اور شاہ زین بگٹی وغیرہ کے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب لپکنے سے معاملے کی پوری اور اچھی طرح سے تفہیم ہوجاتی ہے۔ تحریک انصاف کے منحرف اراکین کا اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں پناہ گزین ہونا، یا چند ایک کا اِدھر اُدھر گوشہ نشین ہونا بلوچستان کے اندر کروائے جانے والے تجربے کے مطابق ہوا ہے، جہاں پی ڈی ایم کی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اس غیبی کھیل کا شعوری طور پر حصہ بنی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ اس منظرنامے پر بغلیں بجا رہی تھیں، بلکہ پیپلزپارٹی کے نواب ثناءاللہ زہری اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ عبدالقدوس بزنجو کے کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ تھے۔ عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر یہ سارے اراکین اسمبلی عدم اعتماد پیش ہونے سے ایک دن قبل تک یعنی جام کمال کے مستعفی ہونے کے دن تک اکٹھے مقیم رہے۔ جان جمالی سخت علیل ہوکر سی ایم ایچ داخل کرائے گئے جو بعد ازاں مزید بہتر علاج کے لیے کراچی لے جائے گئے۔ ان عوامی نمائندوں نے اس خلوت کے لیے جواز باپ پارٹی کے چار اراکین اسمبلی لیلیٰ ترین، حاجی اکبر آسکانی، بشریٰ رند اور ماہ جبین شیران کا منظر سے غائب ہونا پیش کیا، جو کسی کے کہنے پر اسلام آباد چلے گئے تھے۔ جس کے بعد باپ پارٹی کے جام مخالف اراکین اسمبلی، جے یو آئی اور پشتون خوا میپ کو جام کمال کے خلاف اسمبلی کے ان اراکین کے اغوا کیے جانے کا شور مچانے کو کہا گیا۔ گویا یہ سب کچھ جام مخالف کھیل کا حصہ تھا، اور جام مخالفین کو سیاسی ایشو بنانے کی ہدایت کی گئی۔ چناں چہ اس طرح سب قدوس بزنجو کی رہائش گاہ منتقل ہوگئے اور چند دن تک وہاں محفلیں سجی رہیں۔ بعد ازاں منظر سے غائب ہونے والے اراکین اسلام آباد میں نمودار ہوئے اور معاً قدوس بزنجو کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ یوں جام کمال کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ گویا اب بھی سیاست اشاروں کی پابند ہے۔
عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلیٰ بننے کے کچھ عرصے بعد اکبر آسکانی سے وزارت لے لی۔ اس شخص کا دامن بدعنوانی سے پاک نہیں ہے۔ ترقی و منصوبہ بندی کے وزیر ظہور احمد بلیدی چونکہ وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے، انہیں شاید اب اپنے کیے کا احساس ہوا ہے، اس بنا پر انہوں نے عبدالقدوس بزنجو حکومت کے خلاف بولنا شروع کیا ہے اور واپس جام کمال کے حلقے میں شامل ہوگئے ہیں۔ ظہور بلیدی نے حکومت اور وزراء کی بدعنوانی کے خلاف لب کشائی کی، اُن کے مطابق ملازمتیں فروخت ہورہی ہیں اور اربوں روپے کے فنڈز کی بندر بانٹ ہوئی ہے۔ ظہور بلیدی بھی کابینہ سے الگ کردیے گئے۔ اس سارے منظرنامے میں عبدالرحمان کھیتران اور اسد بلوچ سمیت چند وزراء، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور پختون خوا میپ کے وارے نیارے ہیں۔ انہونی صوبائی حکومت کے ترجمان کے تقرر کی بھی ہوئی۔ نہ جانے کس کی ایما و ہدایت پر فرح عظیم شاہ کا حکومت کی ترجمان کے طور پر تقرر کرکے انہیں کوئٹہ بھیجا گیا ہے۔ یہ خاتون 2002ء کی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن بنی تھیں۔ انہیں ٹکٹ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے دیا تھا۔ غرض بہت جلد بہت سارے اراکین اسمبلی عبدالقدوس بزنجو سے متنفر ہوگئے۔ وفاق میں سیاست کے بدلاؤ کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کو تحریک انصاف کے خلاف جانے کا اذن ملا جہاں جام کمال خان نے رہنمائی کی۔ باپ پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی جام کمال کے ہم خیال ٹھیرے۔ قومی اسمبلی میں بی اے پی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی ہیں، جام کمال نے کہا کہ ان کے پاس فیصلے کا اختیار ہے۔ بی اے پی میں صدارت کے معاملے کا احوال یہ ہے کہ جام کمال ہی پارٹی صدر تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ یعنی ظہور بلیدی قائم مقام صدارت سے متعلق اپنے دعوے سے پیچھے ہٹ گئے۔ عبدالقدوس بزنجو وغیرہ نے کہدہ بابر کو سامنے لانے کی کوشش کی اور انٹرا پارٹی انتخابات کی بات کہہ ڈالی تو انہیں ایسے کسی اقدام سے گریز کی ہدایت آئی۔ سینیٹ کے اندر بی اے پی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر انوارالحق کاکڑ ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو کے حلقے سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سعید ہاشمی، انوارالحق کاکڑ کے خلاف سازش کی تاڑ میں تھے۔ انہوں نے ظہور بلیدی سے کہا تھا کہ بطور پارلیمانی لیڈر اُن کا یعنی سعید ہاشمی کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔ انوارالحق کاکڑ تعلیم یافتہ اور بیان و کلام پر قادر پارلیمنٹیرین ہیں۔ دراصل ناکام سازش کا مقصد انوارالحق کاکڑ کو راہ سے ہٹانا تھا۔
اب اتوار 20 مارچ 2022ء کو ہونے والے ریکوڈک معاہدے کا بوجھ اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام، بی این پی مینگل اپنے کاندھوں سے اتارنے کی سعی کررہی ہیں، حالاں کہ یہ ریکوڈک پر بلوچستان اسمبلی میں 27 دسمبر 2021ء کو ان کیمرا بریفنگ میں شریک تھیں، اور اس پورے عرصے میں کوئی اختلافی نقطہ نظر پیش نہیں کیا۔ اب معاہدے پر دستخط کے بعد خصوصاً سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت نے واویلا شروع کردیا ہے۔ قدوس بزنجو نے بار بار دہرایا ہے کہ حزب ِاختلاف کو اعتماد میں لے کر معاہدہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں معاہدے پر دستخط سے ایک روز پہلے کوئٹہ میں بلوچستان کابینہ نے اپنے خصوصی اجلاس میں اس کی منظوری دی۔ نئے معاہدے کے تحت ریکوڈک پر کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کا حصہ 50 فیصد ہوگا جبکہ بلوچستان کی حکومت کو اس منصوبے کا 25 فیصد ملے گا اور 25 فیصد وفاق کے زیر انتظام تین اداروں کے پاس جائے گا۔ 2011ء میں بلوچستان حکومت کی جانب سے ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے ساتھ معاہدہ ختم کردیا گیا تھا، جس پر کمپنی نے عالمی فورمز سے رجوع کیا جہاں پاکستان کے خلاف سود ملا کر تقریباً 11 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ ٹی سی سی دو کمپنیوں کی مشترکہ ملکیت تھی جس میں سے کینیڈا کی بیرک گولڈ کمپنی دوبارہ کام کرنے پر رضامند ہوگئی، جبکہ دوسری شراکت دار کمپنی چلی کی انٹافوگسٹا ریکوڈک منصوبے سے علیحدہ ہوچکی ہے۔ حکومتِ پاکستان اب انٹا فوگسٹا کو تقریباً 95کروڑ ڈالر ادا کرے گی، جس کے بدلے میں وہ اپنے حصے کے 3 ارب ڈالر سے زائد جرمانے کا کیس واپس لے لے گی۔ حکومت کے مطابق نئے معاہدے سے نہ صرف 11 ارب ڈالر کا جرمانہ ختم ہوا ہے، بلکہ اب بیرک گولڈ اور اس کی شراکت دار کمپنیاں 10 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کریں گی، جس سے بلوچستان میں ملازمتوں کے آٹھ ہزار مواقع پیدا ہوں گے۔ معاہدے سے انکم فلو100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ کینیڈین کمپنی 100سال تک 100مربع کلومیٹر سے ذخائر نکال سکے گی۔
بیرک گولڈ نے معاہدے کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ جرمانے کی تلافی اس صورت میں کی جائے گی جب تمام شرائط کو پورا کیا جائے گا اور معاہدے میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت کے علاوہ سپریم کورٹ کو شامل کیا جائے گا۔ کمپنی نے توقع ظاہر کی کہ منصوبے سے پیداوار پانچ سے چھ سال میں آنا شروع ہوجائے گی۔ حکومت اس معاہدے کے فوائد گنوا رہی ہے، جبکہ اس کے برعکس مختلف سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے معاہدہ ریکوڈک و ذخائر پر ڈاکا قرار دیا ہے۔ جام کمال خان عالیانی بھی کہہ چکے ہیں کہ ریکوڈک منصوبے میں اب تک بلوچستان کا حصہ واضح نہیں ہے۔
بہرکیف بلوچستان کے اندر ایک بار پھر تحریک عدم اعتماد لانے کی گونج ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کو کچھ کچھ سابقہ غلطی کا احساس ہوا ہے۔ البتہ بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے کیے پر بالکل نادم نہیں۔
قومی سیاست کا یہ پہلو انتہائی شرمناک ہے کہ وہ لوگ جن سے کل نوازشریف کے خلاف بغاوت کرائی گئی، آج انہیں پھر سے عمران خان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے دوبارہ نوازشریف وغیرہ کی صفوں کو تقویت دی گئی۔ جام کمال خان اور خالد مگسی اس گندی سیاست میں کل بھی شامل تھے، اور آج پھر اس گند کا حصہ بنے ہیں۔
حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے کسی رکن نے اپنے قائد عمران خان کی حمایت میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا ہے۔ جام کمال خان کی حکومت کے خلاف البتہ عمران خان نے بھی دراصل باغیوں، جے یو آئی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتون خوا میپ اور پیپلز پارٹی کی دراصل معاونت کی۔