سیاسی بحران کی شدت میں اضافہ

اب جب کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر چند گھنٹوں بعد بحث شروع ہونے والی ہے پنجاب میں وزیراعظم نے اپنے وسیم اکرم پلس سے استعفیٰ لے لیا،بلوچستان عوامی پارٹی اپوزیشن، جبکہ قاف لیگ حکومت کے ساتھ آ ملی ہے اور درویش صفت سیاست دان سراج الحق بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وزیراعظم اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں، اب سیاسی شہادت کا وقت بھی گزر گیا ہے۔ گویا
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
وزیراعظم عمران خان نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پریڈ گرائونڈ کا جائزہ لے کر وہاں موجود اپنے کارکنوں سے خطاب بھی کرلیا ہے جسے بعض لوگ وزیراعظم کا آخری خطاب کہہ رہے ہیں، اور جس میں بار بار کے اعلانات کے باوجود وہ کوئی سرپرائز نہیں دے سکے۔ اُن کے پاس کوئی سرپرائز تھا ہی نہیں، یا انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا تھا، یا پھر خود انہوں نے مصلحتاً ایسا کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ راہ و رسم کا دروازہ بھی بند نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ باتیں کچھ دنوں بعد واضح ہوجائیں گی۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے شیخ رشید کی دھمکیوں کے باوجود سری نگر ہائی وے پر جے یو آئی کے فدائین اور انصار الاسلام کے کارکنوں سے خطاب کرلیا۔ وزیراعظم اور فضل الرحمٰن دونوں نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ دونوں نے پرانی باتیں دہرائیں اور پرانی گالیوں کو کسی قدر نئے ٹیپ میں پیش کیا۔ ادھر مریم نواز اور حمزہ شہباز مہنگائی مارچ کے ساتھ گوجرانوالہ سے روانہ ہوچکے ہیں۔ راستے میں اپنے خطابات میں وہی الزامات، وہی دشنام طرازی اور وہی طعنے ہیں۔ پیر کی شام جب قومی اسمبلی میں تحریک اعتماد پیش ہوگئی ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق پنجاب میں اپوزیشن نے بزدار حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے، جبکہ بہت جلد چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور خیبرپختون خوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے خلاف بھی تحریک ہائے عدم اعتماد آجائیں گی۔ گویا رمضان کے بابرکت مہینے میں پورا سسٹم ہی لپٹ جائے گا اور پھر اسٹیبلشمنٹ کی موجیں ہی موجیں ہوں گی۔ ہم یہ بات پہلے ہی تحریر کرچکے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہویا ناکام، دونوں صورتوں میں ملک کا سیاسی بحران شدید تر ہوجائے گا اور یہ مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر آجائے گا۔ تحریک ناکام ہوتی ہے تو ایک کمزور حکومت سیاسی انتقام کے نچلے درجے پر آجائے گی، اور اگر کامیاب ہوجاتی ہے تو اپوزیشن کی 11 جماعتوں کا بھان متی کا کنبہ جس طرح جوتیوں میں دال بانٹے گا اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہوگا۔ پنجاب اور بلوچستان میں اس وقت لاوا پکا ہوا ہے۔ بلوچستان میں عبدالقدوس بزنجو کی حکومت ختم کرنے کے لیے جام کمال، سردار یار محمد رند اور دیگر پہلے ہی سرگرم ہیں، جبکہ پنجاب میں وزیراعلیٰ بننے کے لیے پرویزالٰہی اور چودھری خاندان کی بے چینیاں دیدنی ہیں۔ وہ اس کام کے لیے کبھی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملاتے ہیں، کبھی حکومت کو اور کبھی اپوزیشن کو۔ لگتا یہ ہے کہ اگر اتحادی جماعتیں اپوزیشن کے ساتھ آملتی ہیں تو تحریک انصاف کے منحرف ارکان کو نااہلی سے بچانے کے لیے اُن کا ووٹ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ تاہم آخری وقت تک صورت حال بدلتی رہے گی۔ اس ساری صورت حال میں دو باتیں بالکل واضح ہوگئی ہیں، ایک تو یہ کہ اتنا بڑا کھیل اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر اسٹیج نہیں ہوا، دوسرے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی اخلاقی حیثیت بے حد کمزور ہے۔ اب تک تو یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار نہیں، بلکہ موجودہ سیاسی کھیل کے پیچھے بھی وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جو پہلے بھی حکومت بناتی اور تڑواتی رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اِس بار عام آدمی کے ذہن میں اس اسٹیبلشمنٹ کی معاملات سے لاتعلقی کا تاثر زیادہ عرصے تک قائم رہا اور چیزیں ذرا دیر سے سامنے آنا شروع ہوئیں۔ فضل الرحمٰن بہت پہلے کہہ چکے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارا ٹارگٹ نہیں، ہمیں اس سے لڑنے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی فضل الرحمٰن ہیں کہ جب انہیں نیب نے طلب کرنے کا اشارہ دیا تو انہوں نے کہا کہ وہ جلوس لے کر کورکمانڈر کی رہائش گاہ پر پہنچیں گے۔ وفاقی وزیر شیخ رشید جو اٹھتے بیٹھتے یہ راگ الاپتے تھے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کی پشت پر کھڑی ہے، اب انہوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ریاست کے ساتھ ہے، جبکہ اعتزاز احسن نے واضح کہہ دیا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہے۔ اعتزاز احسن جو منجھے ہوئے سیاست دان اور پارلیمنٹیرین ہیں انہوں نے یہ بات جذباتی طور پر نہیں کہہ دی، بلکہ ان کی بات کے شواہد جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ حکومتی ناراض ارکان جوکل تک وزیراعظم سے ملاقات کو اپنی خوش بختی سمجھتے تھے اچانک اس قدر ناراض ہوئے کہ سندھ ہائوس میں جا بیٹھے، جہاں انہیں مکمل تحفظ کسی نے فراہم کیا ہے۔ وہ تکنیکی بنیادوں پر اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف میں ہیں، لیکن شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ انہوںنے پارٹی چھوڑی ہے نہ حکومت کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے، اس لیے وہ وزیراعظم جو پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، کے سامنے پیش ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ ان منحرف ارکان کو صرف اپوزیشن کھڑا نہیں رکھ سکتی۔ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کے بغیر وہ اب تک واپس حکومتی کیمپ میں جاچکے ہوتے۔ اسی طرح اتحادی پارٹیاں اب تک کابینہ میں شامل ہیں، حکومت سے ناراضی اور گلوں شکووں کا اظہار بھی کررہی ہیں مگر تاحال اپوزیشن کیمپ میں شامل نہیں ہوئیں۔ یہ سب کچھ بڑے منظم انداز میں جاری ہے۔ یقیناً اپوزیشن جماعتوں کی بھی حکمت عملی ہوتی ہے، لیکن اس قدر منظم حکمت عملی کے پیچھے کوئی لگتا ہے۔ اپوزیشن دعویٰ کررہی ہے کہ بعض وفاقی وزرا بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ایسا ہوسکتا ہے لیکن انہیں وقت آنے پر ایکسپوز کیا جائے گا۔ اس تحریک کے لیے جو رقوم خرچ کی جارہی ہیں وہ بھی 1989ء کی طرح کہیں اور سے آئی ہوئی لگتی ہیں۔
اب آئیے سیاسی جماعتوں کی اخلاقیات پر۔ منحرف اراکین کے لیے کھلا قانونی راستہ تھا کہ وہ حکومت سے اختلاف کرکے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دیتے اور دوبارہ منتخب ہوکر عمران خان کا تختہ الٹ دیتے۔ منحرف اراکین کی اخلاقی سطح یہ ہے کہ وہ جس حکومت کا حصہ رہے ہیں اسی کو گرا رہے ہیں، اور جن کے خلاف ساڑھے تین سال سرگرم رہے اب ان کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ اتحادی جماعتیں جو جب چاہیں حکومت سے علیحدہ ہوجائیں انہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا، وہ تاحال حکومت کا حصہ ہیں اور اپوزیشن کے ساتھ بھی پینگیں بڑھارہی ہیں۔ صرف شاہ زین بگٹی نے اپوزیشن کا ساتھ دینے اور فہمیدہ مرزا نے حکومت کے ساتھ رہنے کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ (ق) جس نے دو ماہ پہلے ہی مونس الٰہی کو وفاقی وزیر بنوایا تھا، اب اسی حکومت کو گرانے کے لیے کبھی حکومت اور کبھی اپوزیشن سے ملتی پھررہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اُن پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر رضامند ہے جن کو وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈکیت کہتی تھی اور انہیں مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کا ذمہ دار قرار دیتی تھی۔ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے شیر و شکر نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم اُس پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتی نظر آتی ہے جس سے کئی بار ڈسی جاچکی ہے (بقول ایم کیو ایم)۔ دوسری جانب حکومت کی
اخلاقی حیثیت یہ ہے کہ وہ حکومت بچانے کے لیے تمام حربے استعمال کررہی ہے۔ جن اتحادی جماعتوں کے ساتھ اس نے ساڑھے تین سال میں ایک بھی باقاعدہ میٹنگ نہیں کی اب اُن کے دروں کے طواف کررہی ہے۔ اپنے جن ارکان سے وزیراعظم ملنا پسند نہیں کرتے تھے اب وزرا ان کے ترلے کررہے ہیں اور وزیراعظم ملاقاتوں کے لیے بلارہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت اپنے منحرف ارکان پر طرح طرح کے دبائو ڈال رہی ہے، وہ اپوزیشن پر الزام لگاتی ہے کہ وہ پیسے کے ذریعے ارکان خرید رہی ہے مگر خود بھی زیادہ لالچ دے کر انہیں واپس لانا چاہتی ہے۔ سندھ ہائوس میں گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے کروڑوں روپے کا جو خرچ آرہا ہے وہ سندھ کے عوام کا پیسہ ہے۔ اور اسی طرح عمران خان جن درجنوں جلسوں سے خطاب کرتے رہے ہیں وہ بھی سرکاری فنڈز ہی سے کیے گئے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن لوٹ کا پیسہ استعمال کررہی ہے، جبکہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت سرکاری وسائل کو بے دریغ بہارہی ہے۔
اب جبکہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر 31 مارچ کو بحث شروع ہورہی ہے یہ بات جاننے کی ضرورت ہے کہ حالات یہاں تک کیوں پہنچے۔ اسٹیبلشمنٹ نے تو جنرل فیض حمید کی تقرری کے معاملے پر وزیراعظم سے فاصلہ کرلیا تھا، اور اب لگتا ہے کہ نئے آرمی چیف کے معاملے پر بھی وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ میں اختلاف ہے۔ موقع پرست منحرف اراکین اور اتحادی جماعتیں کچھ تو وزیراعظم کے رویّے اور فیصلوں سے ناخوش ہیں، کچھ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے حوصلہ دے کر کھڑا کردیا ہے۔ ایسے میں لیور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے پہلے کی طرح۔