پاکستان کے سیاسی اور طاقت ور طبقات سمیت سیاسی پنڈتوں کا محبوب ترین مشغلہ حکومتیں بنانا اورگرانا ہے۔ مجموعی طور پر ہم بہت جلد اپنے ہی بنائے گئے سیاسی نظام سے مایوس ہوجاتے ہیں، یا اس میں موجود سیاسی گھٹن ہمیں مجبور کرتی ہے کہ نئے سیاسی تجربات کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں طاقت ور طبقات اور سیاسی فریق مل کر پہلے حکومتوں کو گرانے اور پھر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نئی حکومت بنانے کے کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سیاسی پنڈت یا فیصلہ ساز حکومت بنانے اور گرانے کے کھیل کی بڑی بڑی تاویلیں دیتے ہیں اور ہر بار اس کھیل کا اہم نکتہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ ہوتا ہے، یا موجود حکومت کو سیاسی بوجھ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کھیل کی ایک بنیادی وجہ حکومت اور حزبِ اختلاف کا ایک دوسرے کے سیاسی مینڈیٹ کو عملاً قبول نہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی نکتے کی بنیاد پر سیاسی دربار سجایا جاتا ہے اور جائز و ناجائز طور طریقوں یا سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر سیاسی مہم جوئی کے کھیل میں رنگ بھرا جاتا ہے۔
یہی وہ سازشی کھیل ہے جس میں اول تو سیاسی فریق اہم حصے دار ہوتے ہیں، اور دوئم اس میں دیگر فریقوں کو شامل کرکے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ایک ایسا کھیل ترتیب دیتے ہیں جو ان مفادات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ کیا واقعی ہم سیاسی طور پر بے صبرے ہیں؟ اور کیا ہم ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں؟ کیوں قومی سیاست میں مہم جوئی اور بگاڑ کے کھیل سمیت ٹکرائو کی سیاست کو غلبہ حاصل ہے؟ کیا یہ کھیل واقعی ریاست، معاشرے اور حکومت سمیت عام آدمی کو فائدہ دے سکتا ہے؟ یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام سیاسی کرداروں کے درمیان ٹکرائو اور سیاسی آنکھ مچولی کا کھیل مزید بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔ پارلیمانی نظام میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان اختلافات کی بنیاد سیاسی راستے بند کرنے سے نہیں جڑی ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں سیاسی المیہ یہ ہے کہ حکومت عملی طور پر حکومت بچانے اور حزبِ اختلاف عملاً حکومت گرانے کے کھیل میں خود کو مگن رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست سے جڑے مسائل حل نہیں ہوپاتے، اور ریاستی نظام کو مزید مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔
اس کھیل میں طاقت ور طبقات، سیاسی جماعتیں اورمیڈیا جو رائے عامہ بناتے ہیں اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ طاقت ور طبقات سیاست کا گٹھ جوڑ پر ملک کے سیاسی اورجمہوری نظام کو مشکل میں ڈالتا ہے اور ریاستی نظام کو بھی کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ کھیل جہاں داخلی سطح پر ہمارے سیاسی و جمہوری تشخص کو خراب کرتا ہے، وہیں دنیا بھر میں ہماری سیاست کو تماشے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اقتدار میں موجود سیاسی چہروں سے جلد ہی تنگ آجاتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے یا رائے عامہ کی مدد سے باور کروایا جاتا ہے کہ چہرے کی تبدیلی کا عمل ہماری حالت اور ملک کی تقدیر بدلنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت گرانے کے کھیل کی وجہ بھی طاقت کے حصول کی خواہش ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی عقلِ کل ہیں اس لئے تمام فیصلے ہم ہی کریں گے۔ یہ عمل یقینی طور پر سیاسی ٹکرائو کا سبب بنتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت گرانے اور بنانے کے کھیل میں جمہوریت کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک عمومی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلتوں کے خلاف اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے نظام کی حامی ہیں۔ لیکن یہاں جو بھی کھیل کھیلا جاتا ہے اُس میں ہمارے سیاسی تضادات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں، اور ہم وہی غلطیاں اپنے چھوٹے سیاسی مفادات یا محض اقتدار کی سیاست کے لیے کرتے ہیں جن کا اقتدار سے باہر بیٹھ کر ہم ماتم کرتے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بطور سیاسی فریق اپنے مسائل کو سیاسی فورم یا پارلیمنٹ میں حل کرنے کے بجائے یا تو ہم عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں، یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف۔ بہت سے فریق سنگین صورت حال کو بنیاد بناکر ان ہی طبقوں سے مصالحت یا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کے لیے دعوت دیتے ہیں۔ سیاسی نظام کو تسلسل کے ساتھ چلانا ہماری سب سے بڑی مشکل ہے، کیونکہ نظام کے تسلسل کا نہ ہونا اورپس پردہ سازشوں کے کھیل نے عملی طور پر ہمارے پورے سیاسی اور جمہوری نظام کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ کیونکہ جب آپ سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلافات یا سیاسی دشمنی میں تبدیل کردیں گے یا اپنے ایجنڈے کو کسی اورایجنڈے کے ساتھ جوڑ کر خود ہی سیاسی نظام کو کمزور کریں گے تو نظام کیسے چلے گا!
پاکستان میں سیاست اورجمہوریت پہلے ہی کمزور اور ارتقائی عمل سے گزر رہی ہیں، ایسے میں ہمیں اپنے سیاسی اور جمہوری نظام کو جہاں عملی طور پر مضبوط بنانا ہے وہیں اسے جدید خطوط پر استوار کرکے اچھی اور شفاف جمہوریت کی طرف بڑھنا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم واقعی ملک میں سیاست اورجمہوریت کے نظام کو چلانا چاہیں۔ اس کی ایک شرط تو یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی، اور دوسرا سیاسی مہم جوئی سے گریز کرتے ہوئے مثبت حکومت اور مثبت حزب اختلاف کے کردار سمیت دیگر فریقین کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ مداخلتیں ختم کرکے سیاست کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا راستہ خود تلاش کرے۔ اسی طرح اہلِ سیاست بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، اور حکومتوں کو گرانے کے کھیل میں کسی کے آلہ کار بننے کے بجائے سیاسی نظام کی مضبوطی پر توجہ دیں۔ میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی مسائل پر ریٹنگ کی سیاست ختم کرکے حکومت اور حزب اختلاف سمیت دیگر فریقین کے طرزعمل کی نگرانی کرے اور ان کو جوابدہ بھی بنائے۔ میڈیا میں بعض افراد کا یہ سوچنا کہ ہم طاقت ور ہیں اور حکومت کو بنانے اور گرانے کی طاقت رکھتے ہیں، جمہوری عمل کو کمزور کرے گا۔ قانون کی سطح پر بھی نظریۂ ضرورت کے بجائے نظام کو مستحکم کیا جائے، اورجو لوگ قانون یا آئین شکنی کریں ان کو جوابدہ کیا جائے۔
اسی طرح ہمیں عام لوگوں یا سیاسی کارکنوں کی سطح پر بھی اس سیاسی اور سماجی شعور کو اجاگر کرنا ہوگا اور ان کی تربیت اس انداز سے کرنی ہوگی کہ وہ کسی بھی جماعت یا قیادت کے آلۂ کار بننے کے بجائے خود بھی ان قوتوں کے خلاف آواز اٹھائیں، یا اُن کی سیاست کا حصہ بننے سے انکار کردیں جو سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرنے یا اسے ختم کرکے اپنے ذاتی ایجنڈے کو طاقت دینا چاہتے ہیں۔ یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے معاشرے میں موجود اچھے لوگوں کو مضبوط سیاسی، جمہوری اور قانونی جنگ لڑنی ہے۔ یہ جنگ عملی طور پر خود بھی لڑنی ہے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینی ہے کہ ہماری یہ جدوجہد چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہو، ملک کو حقیقی معنوں میں ایک بہتر اور درست سمت میں لانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
یہ ملک ہمارا ہے اور ہمیں اس نظام میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کردار انفرادی سطح سے شروع ہوکر اجتماعی شکل میں تبدیل ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہم جس ریاستی وحکومتی یا گورننس کے بحران سے گزر رہے ہیں اس میں ہمیں پہلے نئے کردار کی ضرورت ہے۔ ان میں یہ سوچ اور فکر پیدا کرنا ہوگی کہ نظام کا چلنا ہی ہمیں نئے سیاسی راستے تلاش کرنے میں مدد دے گا، اور یہی عمل ملکی سیاست میں ہمارے مفاد سے جڑا ہوا ہے۔