قومی اسمبلی میںوزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی ہے جس پر اب بحث کے بعد رائے شماری ہوگی،قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کا ایجنڈا بہت طویل ہے تاہم اپوزیشن نے اسے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے بلایا ہے اس لیے توقع ہے کہ حکومتی پارٹی نے اسے غیرضروری طوالت دینے کی کوشش نہ کی تو 4اپریل تک فیصلہ ہو جائے گا کہ ملک کا اقتدار عمران خان ہی کے پاس رہے گا یا کسی دوسرے کے پاس چلا جائے گا،تحریک عدم اعتماد کے نتائج کچھ بھی ہوں۔۔۔سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا رہے گا، عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو یا ناکام، فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عزت کے ساتھ خدا حافظ کہہ دینا چاہیں گے یا لنگڑی بطخ بن کر اپنی بقیہ مدت پوری کریں گے، حکومت کسی کی بھی ہو اس کے آخری سال میں افسر شاہی اپنا رنگ بدل لیتی ہے، وزیراعظم عمران خان کے خلاف جاری تحریک عدم اعتماد کی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے ملک میں اعلی حکومتی شخصیات اپنا کام کاج چھوڑ کر سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے سرگرداں ہیں سرکاری دفتروں میں بیوروکریسی” دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، وہ ملک میں سیاسی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لے رہی ہے ۔ اسلام آباد میں ایسی سیاسی سرگرمیاں ہو رہی ہیں کہ رات کو اپوزیشن اور مسلم لیگ(ق) سمیت دیگر اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہی ہوتی ہیں اورصبح وہ کسی دوسری جگہ بیٹھی نظر آتی ہیں، ایسی صورت حال اتحادیی جماعتیں مطالبات کی شاپنگ لسٹ لیے ہر سیاسی جماعت کی دہلیز پر کھڑی ہیں، مسلم لیگ(ق) وزارت اعلیٰ مانگ رہی ہے، ایم کیو ایم کراچی، حیدر آباد اور سکھر کے لیے اپنی قوت کا اظہار مانگ رہی ہے، بلوچستان عوامی پارٹی کا مطالبہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لائی جائے، اب دیکھنا ہے کہ کون انہیں کیا دے سکتا ہے،قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پر بحث سے قبل حکومت اور حزب اختلاف نے اپنے اپنے حق میں عوامی حمایت کے دعوے ثابت کرنے کے لیے جلسے، جلوسوں اور مارچ کا سلسلہ شروع کیا یہ مرحلہ بخیر و خوبی اختتام کو پہنچ چکا ہے،ملک کے سیاسی افق پر لگی ہوئی عدم اعتماد کی تحریک کی فلم اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے، اسلام آباد میںپریڈ گرائونڈ میں تحریک انصاف نے جلسہ کرکے عمران خان کی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلسے میںسرپرائز دیں گے مگر سرپرائز نہیں دے سکے البتہ یہ دعوی کیا کہ ان کے خلاف بھٹو جیسی سازش کی گئی ہے انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے ایک خط کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ مناسب موقع پرحقیقت بتائیں گے، تحریک انصاف کی طرح اپوزیشن نے بھی اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا، تاہم پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے جلسے سے لاتعلق رہی، قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوجانے کے بعد ملک کا سیاسی درجہ حرارت نقطہ ابال کو پہنچ رہا ہے عوامی جلسوں سے وزیر اعظم کے خطابات میں ان کی گرمی گفتار اپنی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی دکھائی دی، عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جمہوری وطن پارٹی کے صدر شاہ زین بگٹی اور بلوچستان کی سیاسی جماعت باپ نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اور اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جس سے اپوزیشن کا کچھ حوصلہ بڑھا ہے تاہم اصل فیصلہ تحریک انصاف کے ناراض ارکان ہی کریں گے، وزیر اعظم عمران خان، نواز شریف پر بھر پور وار کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کے خطابات میں سارا زور اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی پر صرف کیے جانے کی وجہ سے دوسری جانب سے بھی کم و بیش اسی لب ولہجے میں جواب دیا جارہا ہے،سیاسی تبدیلیاں کسی بھی سیاسی نظام کا سب سے مشکل مسئلہ رہی ہیں سیاست دانوں کا اپنے سیاسی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے وہ عدالتی عمل کا استعمال اور غلط استعمال کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ ان مسائل کا حصہ بننے سے گریز نہیں کر سکتی کیونکہ ایسے سیاسی سوالات میں آئینی سوالات شامل ہوتے ہیں جب فریقین عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو ان معاملات کو ہاتھ میں لینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سوال ٹالنے کا نہیں بلکہ اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عدالتی انداز اختیار کرنے کا ہے۔ موجودہ صدارتی ریفرنس جس میں آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح بھی شامل ہے، حکومت سپریم کورٹ سے تشریح مانگ رہی ہے تاہم اصل سیاسی حربہ منحرف ارکان کو نااہلی کی سولی پر چڑھانے کی دھمکی ہے، بدقسمتی سے موجودہ حکومت کو چار برسوں میں ایک دن کے لیے بھی کاروبار مملکت چلانے کے لیے درکار کم ازکم سیاسی تعاون کا ماحول بھی فراہم نہیں ہوسکا جبکہ تحریک عدم اعتماد کی شکل میں سیاسی جنگ اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ اس تحریک کے نتیجے کو خواہ وہ کچھ بھی ہو، خوش دلی سے قبول کیا جائے اور سیاست میں اشتعال کے بجائے معقولیت اور شائستگی لائی جائے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں بحث شروع ہونے کے بعد سیاسی ماحول ایک بار پھر گرم ہوگا اور یہی مرحلہ حتمی اور فیصلہ کن بھی ہوگا کہ جن لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے وہ کہاں کھڑے ہوں گے؟، عدم اعتماد کی تحریک کا اصل فیصلہ تو ایوان میں ہونا ہے مگر پارلیمنٹ کے باہر حکومت اور حزب اختلاف کی عوامی طاقت کے مظاہروں سے حالات بہت کشیدہ ہیںپارلیمنٹ کے اندر تحریکِ عدم اعتماد پر جو کارروائی ہو رہی ہے، وہ آئینی تقاضا ہے اور پارلیمنٹ کے باہر سیاسی جماعتیں جس عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، وہ ان کا سیاسی اور جمہوری حق ہے لیکن اس سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں پارلیمنٹ کے اندر ہونے والے اس فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں، جو اس کی توقع کے مطابق نہ ہو یا ان کے خلاف ہو محسوس ہو رہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو ا، اس کے بعد بھی ملک میں سیاسی تنائو اور عدم استحکام رہے گا، اس وقت قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) متحدہ مجلس عمل، اے این پی، بی این پی، جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی کل تعداد 170 ہے اور مسلم لیگ(ق) کے طارق بشیر چیمہ نے وزیر اعظم کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کردیا ہے، قومی اسمبلی میں آزاد ارکان بھی اپوزیشن کی جانب مائل ہیں اپوزیشن کے پاس اس وقت تک کل ووٹ 179 ہیں۔ تحریک انصاف کے ناراض ارکان اسمبلی اگر اپنی جگہ جمے رہتے ہیں اور وزیراعظم کے حق میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ نہیں کرتے تو عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کوئی نہیں روک سکتا، اگر حالات یکسر پلٹ گئے اور حکومت بچ جاتی ہے تو بھی اسے اپوزیشن کے دبائو کے باعث بحران کا سامنا ہوگا۔ حزب اختلاف اگر اپنی مخلوط حکومت بناتی ہے تو اسے بھی سنگین مسائل درپیش ہوں گے۔ہر صورت کمزور حکومت طاقتور حلقوں کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہو گی،اس وقت متحدہ قومی موومنٹ، باپ اور مسلم لیگ (ق)کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ان پر ہی تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے ۔اس وقت جو حالات پیدا ہوئے ہیں، وہ تحریک انصاف کی تصادم کی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے تصادم جاری رکھا اور وہ اہم قومی ایشوز پر وسیع تر قومی پالیسی نہیں بنا سکی۔ سیاسی تصادم کی وجہ سے ایسی داخلی، خارجی اور اقتصادی پالیسیاں نہیں بن سکیں، جن پر قومی اتفاق رائے قائم ہوسکے پیپلز پارٹی اپوزیشن کی وہ واحد سیاسی جماعت تھی، جس کی قیادت کا مؤقف یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں، تاکہ عمران خان کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکل جائے مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی قیادت عمران خان کی حکومت کے فوری خاتمے اور جلد انتخابات کی حامی تھیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں سب متفق ہیں کہ نئے انتخابات ہی سب سے بہتر حل ہیں جس کے بعد پیپلز پارٹی بھی اس صف میں شامل ہو گئی سیاسی بحران کا سبب سے بڑا سبب آئندہ چند ماہ میں ملک میں ہونے والی اہم تقرریاں ہیں جن سے ملک کے نئے سیاسی منظر نامے کو جوڑا جا رہا ہے، اب عبوری حکومت بن بھی جاتی ہے تو یہ چل نہیں سکے گی، تحریک عدم اعتماد کے بعد تو عمران خان بھی سیاسی طور پر مضبوط نہیں رہے کہ وہ پسند کی تقرری کے لیے کاری ضرب لگا سکیں، 8مارچ کے بعد وفاقی دارلحکومت ہنگامہ خیز سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا، اس دوران میں پارلیمنٹ لاجز سے حزب اختلاف کے دو ارکان کی گرفتاری بھی ہوئی، اور سندھ ہائوس اصطبل کے طور پر بھی سامنے آیا اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اتحادی جماعتوں اور ارکان اسمبلی کی حمایت کے لیے کھلم کھلا بھائو تائو کرتے رہے، پُر کشش پیکیج کی نوید دی گئی، اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اور حکومت دونوں ہی ایم کیو ایم سے مسلم لیگ(ق) اور یہاں سے باپ اور آزاد ارکان کے ساتھ مسلسل رابطوں میں رہی، ایسے پر کشش پیکیج دیے گئے کہ اتحادی جماعتوں کے لیے یہ فیصلہ مشکل بن گیا کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں۔ پی ڈی ایم کا دعویٰ ہے کہ اسے 200سے بھی زائد ارکان کی حمایت ملے گی مگر وزیر اعظم عمران خان بھی ڈٹے ہوئے ہیں ان گزرے ہوئے بیس دنوں میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے غیر معمولی جارحانہ انداز اپنایا تحریک انصاف کے حامی عمران خان ہیرو کے طور پر دیکھ رہے ہیںوزیر اعظم اگراسمبلی توڑ بھی دیتے ہیں اور عوام کی طرف لوٹتے ہیں تو انتخابات میں ایک بڑا سیاسی مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔یہ بیس روز پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا باب ثابت ہوئے ہیںخواہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہویا ناکام دونوں صورتوں میں پاکستان کی ایک نئی سیاسی تاریخ سامنے آئی ہے، یہ سوال ابھی تک اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعی فوج عمران خان سے نالاں ہے؟پیپلز پاٹی اور نواز لیگ جب5 سال پورے کر سکتے ہیں تو تحریک انصاف کو بھی 5 سال پورے کرنے چاہئیں جبکہ تحریک انصاف کے دور میں پہلی بار حکومت اور فوج ایک پیج پر آئے ہیں۔اب تو فوج بھی امریکا سے جان چھڑانے کی پالیسی پر کار بند ہے، وزیر اعظم عمران خان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہیں فری ہینڈ ملا اور مکمل سرپرستی بھی ملی،مگر وہ اہل ٹیم نہیں بناسکے پنجاب جیسا بڑا صوبہ عثمان بزدار جیسے ناموزوں وزیر اعلیٰ کے ذریعے چلانے کی کوشش کی گئی ساڑھے تین سال تک کپتان نے اپنی حکومت کا اتنا دفاع نہیں کیا ہوگا جتنا عثمان بزدار کا کیا، وفاق میںجارحانہ حکومت کرکے ریاستی اداروں نیب، ایف آئی اے کے ذریعے اپوزیشن کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کمی نہ کی، بہت سے قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرائے، سینیٹ میں تو عددی طور پر اقلیت میں ہونے کے باوجود وہاں سے بھی قوانین پاس کرائے جس پر ان کی حکومت پر مختلف قسم کے الزامات بھی لگائے گئے لیکن کپتان کا اعتماد بتارہا تھا کہ انہیں ملک کے مقتدر حلقوں کا اعتماد حاصل ہے،لیکن ساڑھے تین سال بعد اچانک ہی ملک کی سیاست میں رونما ہونے والی افراتفری نے بہت سے سوالات نہ صرف پیدا کردیئے ہیں بلکہ بہت سے سوالات کے جوابات بھی دے دیئے ہیں جن کا اندازہ مستقبل قریب میں عوام کو ہوجائے گا، اب حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت، بھنور میں پھنس چکی ہے اور کچھ پتہ نہیں اس بھنور سے نکل بھی سکے گی یا نہیں، یہ تو خیر وقت بتائے گا، لیکن فی الوقت کپتان کی حکومت ڈانواں ڈول ہوچکی ہے دیکھنا یہ ہے کہ کپتان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ملک میں کیسی حکومت بنتی ہے اور جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا؟اکستان کو اس وقت غیر یقینی سیاسی صورت حال کا سامنا ہے، جس کا اثر معیشت پر بھی پڑتا دکھائی دے رہا ہے، اس حوالے سے مالیاتی شعبے کے ماہرین نے ملک سے بڑے پیمانے پر غیرملکی سرمایہ کے اخراج کی نشاندہی کی ہے اگر یہ سلسلہ اگلے ماہ بھی جاری رہا تو ڈالر کے مزید بلندی پر جانے اور مہنگائی کی ایک نئی لہر کو روکنا محال ہو گا، ملک ایک سنگین مالیاتی بحران کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے رواں مالی سال کے دوران اب تک تقریباً 1.5ارب ڈالر کے مجموعی اخراج میں سے صرف مارچ کے دوران 40کروڑ ڈالر کا سرمایہ ملک سے باہر گیا ہے ،گزشتہ سال مارچ میں اسی طرح کے بڑے پیمانے پر ملک سے غیرملکی سرمایہ کاری کے اخراج کا مشاہدہ کیا گیا تھا جب کووڈ 19کا پہلا کیس سامنے آنے کے ایک ماہ بعد تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری چند ہفتے کے اندر ملک سے نکل گئی تھی۔ پائیدار معاشی ترقی کے لیے ہر سال کم از کم 6.4ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی ضرورت ہے، ڈالر کی قیمت 182 روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔ رمضان سے پہلے اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے حکومت کی پوری توانائیاں تحریکِ عدم اعتماد پر ہیں، لیکن عام آدمی کو حکومتوں کے آنے یا جانے سے نہیں اپنے مسائل سے غرض ہے روزانہ کی بنیاد پر بدلتے ہوئے معاشی اعداد و شمار ان کی پریشانی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں اس وقت ملکی ٹیکس آمدن تقریباً چھ ہزار ارب روپے ہے، جس میں سے تقریباً ساڑھے چار ہزار ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔ تقریباً تین ہزار چار سو ارب روپے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبے لے جاتے ہیں تقریباً ایک ہزار ارب روپے تنخواہیں اور پینشن میں صرف ہوجاتے ہیں اور باقی دفاع پر، تقریباً آٹھ سو ارب روپے کے نقصانات کارپوریشنز کے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں‘ مالی سال کے پہلے ہی دن حکومت کی آمدن ختم ہو جاتی ہے اور بقیہ پورا سال قرضوں پر گزارا کرنا ہوتا ہے صورت حال یہ ہے کہ پونے چار سالوں میں 30 کھرب روپوں سے بڑھ کر 51 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں سعودی عرب اور چین کے بعد جی 20 ممالک سے بھی قرضوں کی مدت بڑھانے کی درخواست کر دی گئی ہے۔ روپے کی قدر میں تقریباً 60 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ شرح سود 9.75 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے۔ مہنگائی تقریباً 13 فیصد تک پہنچ چکی ہے اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالرز کی حد کو چھو رہا ہے‘ یہ صورت حال نئی حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہوگی پاکستان کی معیشت نازک موڑ پر کھڑی ہے ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے۔ 2018 میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تھی تو پاور سیکٹر کے گردشی قرضے ایک کھرب 14 ارب روپے تھے، جو اب بڑھ کر ڈھائی کھرب روپے ہوگئے ہیں گیس کے گردشی قرضے 350 ارب روپے سے بڑھ کر 600 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ زراعت کے شعبے میں گردشی قرضے 900 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں‘مستقبل قریب میں ملک میں ڈالرز کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ڈالر ذخائر ایک مرتبہ پھر 16 ارب ڈالرز سے کم ہوگئے ہیں حکومت تین ماہ سے مطلوبہ مقدار سے کم ڈیزل خرید رہی ہے آنے والے دنوں میں ملک کو ڈیزل کی قلت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے،اگر ملکی معاشی پالیسیاں تبدیل نہ کی گئیں اور ڈالرز ذخائر میں اضافہ نہ کیا گیا تو مستقبل میں پاکستان کو سری لنکا والی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ نئی حکومت کو بھی وقت درکار ہوگااس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے، ایسی صورت حال میں نیا تجربہ ناکام ہونے کے خدشات زیادہ ہیں‘جو پارٹیاں نئی حکومت بنانا چاہتی ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا نئی حکومت آئی ایم ایف کے پرانے پروگرام کو معطل کرکے نیا پروگرام لانے کی کوشش کرے گی جو پہلے سے زیادہ سخت ہو گا۔