اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ ہے ؟

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہونے والے بحران کے دوران فرمایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی فریق کے ساتھ نہیں بلکہ وہ صرف پاکستان کے ساتھ ہے۔ اتفاق سے اسٹیبلشمنٹ کی ایک تاریخ ہے، اور اس تاریخ سے شیخ رشید کے بیان کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اس عدم تصدیق کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خود ہی کو قوم سمجھتی ہے، خود ہی کو پاکستان سمجھتی ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے اپنے ساتھ ہونے کی بات اتنی مختصر نہیں۔

جنرل ایوب خان ملک کے پہلے فوجی آمر تھے۔ انہوں نے اگرچہ مارشل لا 1958ء میں لگایا، مگر وہ 1954ء سے اقتدار پر قبضے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ امریکہ کی سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات سے ثابت ہوا ہے کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکی حکام کے ساتھ خفیہ رابطے استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان بڑے نااہل ہیں، وہ پاکستان کو تباہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ جنرل ایوب امریکہ کو بتارہے تھے کہ فوج ان کو ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کے اس بیان پر جرنیلوں کا تصورِ ذات یا Self Image پوری طرح کلام کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جنرل ایوب کا خیال تھا کہ وہ اور اُن کے رفقا ہی پاکستان ہیں، وہی پاکستان کے محافظ ہیں، وہی پاکستان کے پاسبان ہیں، وہی نیک نیت ہیں، وہی پاک دامن ہیں، وہی اہل ہیں۔ جنرل ایوب کا یہ تصورِ ذات اس لیے غلط تھا کہ پاکستان کی تخلیق میں جرنیلوں یا فوج کا کوئی کردار ہی نہیں تھا۔

پاکستان قائداعظم نے بنایا تھا، اور قائداعظم سیاست دان تھے۔ قائداعظم کی جدوجہد میں عسکری طاقت کے استعمال کا کوئی کردار نہیں تھا۔ قائداعظم کی جدوجہد ایک عوامی جدوجہد تھی۔ چنانچہ پاکستان ایک سطح پر قائداعظم اور دوسری سطح پر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے بنایا تھا۔ پاکستان کی تخلیق میں قائداعظم اور برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ سے بھی زیادہ اہم کردار پاکستان کے نظریے کا تھا، اور دو قومی نظریہ کسی جرنیل یا فوج کی ایجاد نہیں تھا۔ دو قومی نظریہ اسلام تھا اور اسلام اللہ کا دین ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل ایوب کو پاکستان کا ’’گاڈ فادر‘‘ بن کر کھڑا ہونے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اتفاق سے جنرل ایوب کے زمانے میں سیاست دانوں کے خلاف کوئی قومی یا عوامی مہم بھی نہیں چل رہی تھی۔ یعنی جنرل ایوب امریکیوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے عوامی امنگوں کی ترجمانی بھی نہیں کررہے تھے۔ یہ کتنی عجیب بات تھی کہ مسئلہ پاکستان کا تھا اور جنرل ایوب پاکستانی قوم سے رابطے کے بجائے امریکہ سے رابطہ کررہے تھے۔ کیا امریکہ پاکستان یا جنرل ایوب کا باپ تھا؟ جنرل ایوب کو اصولی اعتبار سے پاکستان میں مارشل لا لگانے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا، نہ پاکستان کے نظریے میں اس کی گنجائش تھی، نہ تاریخ مارشل لا کی پشت پر موجود تھی، نہ مارشل لا عوامی مطالبہ تھا۔ لیکن چلیے جنرل ایوب کو مارشل لا لگانا تھا تو وہ مارشل لا لگا دیتے، لیکن انہیں اس سلسلے میں امریکہ کے آگے جھکنے کی ضرورت نہیں تھی۔ امریکہ کے آگے جھکنے کا عمل ملک و قوم کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف تھا۔ مگر جنرل ایوب کا تصورِ ذات یہی تھا کہ وہی پاکستان ہیں، وہی ملک ہیں، وہی ریاست ہیں، وہی قوم ہیں، وہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل ایوب پاکستان کے ساتھ نہیں تھے، وہ اپنے تصورِ ذات کے ساتھ تھے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے امیج کے ساتھ تھے، وہ ادارتی مفاد کے ساتھ تھے، وہ طبقاتی مفاد کے ساتھ تھے… لیکن ان تمام چیزوں کو پاکستان کے ساتھ ہونے کا نام دے دیا گیا۔
جنرل ایوب نے سیاست دانوں سے اقتدار چھینا تھا، وہ دس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور ثابت ہوگیا کہ وہ ناکام ہوگئے ہیں، چنانچہ اصولی طور پر انہیں اقتدار دوبارہ سیاست دانوں کے حوالے کردینا چاہیے تھا، مگر انہوں نے اقتدار عوامی نمائندوں کے بجائے ایک اور جرنیل یعنی جنرل یحییٰ کے حوالے کردیا۔ اس طرح انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ وہ پاکستان کے نہیں، صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھے۔

جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ آئے تو انہوں نے بھی پاکستان کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کا کھیل جاری رکھا۔ انہوں نے 1970ء میں انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی۔ پاکستان کے مفادات کا تقاضا تھا کہ جنرل یحییٰ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیتے، مگر انہوں نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم نہ کیا، اس کے برعکس انہوں نے مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ لوگ کہتے ہیں اور غلط نہیں کہتے کہ بھٹو صاحب نے اس موقع پر اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگایا اور کہاکہ مغربی پاکستان کے کسی رکن اسمبلی نے شیخ مجیب کی جانب سے طلب کیے گئے اسمبلی کے اجلاس میں اگر شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ مگر بھٹو صاحب فوجی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ طاقت ور نہیں تھے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اگر اقتدار شیخ مجیب کو دیتی تو بھٹو اسٹیبلشمنٹ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ مگر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو فوجی آپریشن کے تحفے سے نوازا۔ یہ آپریشن جنرل نیازی کے ہاتھ میں آیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل ہی بدل کر رکھ دیں گے۔ یہ بات کوئی پاکستانی کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ بنگالی پاکستان کے خالق تھے، وہ اکثریت تھے، وہ محروم تھے، وہ مغربی پاکستان کے ظلم اور زیادتیوں کا شکار تھے، اُن کے ساتھ انصاف کی ضرورت تھی، اُن کی دلجوئی درکار تھی، مگر پاکستانی فوج کا ایک جرنیل بنگالیوں کی نسل بدلنے کی دھمکی دے رہا تھا۔ اس دھمکی سے صاف ظاہر تھا کہ جنرل نیازی اسلام کے ساتھ نہیں ہے، پاکستان کے نظریے کے ساتھ نہیں ہے، پاکستان کی تاریخ کے ساتھ نہیں ہے، پاکستان کی تہذیب کے ساتھ نہیں ہے، پاکستان کی قوم کے ساتھ نہیں ہے… وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے، وہ صرف اپنے ساتھ ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل نیازی نے بھارتی حملے کے بعد فرمایا تھا کہ بھارت کے فوجی میری لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوسکیں گے۔ مگر جب بھارتی فوجی ڈھاکا میں داخل ہوئے تو جنرل نیازی کی لاش کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ اس کے برعکس جنرل نیازی بھارتی جرنیل کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کررہے تھے، اور ایسا کرتے ہوئے وہ بھارتی جرنیل کو فحش لطیفے سنا رہے تھے۔ کیا ایسا کرتے ہوئے جنرل نیازی پاکستان کے ساتھ تھے؟ نہیں، وہ صرف اپنے ساتھ تھے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل یحییٰ نے سقوطِ ڈھاکا سے چند روز پہلے ہی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسے یقین دلایا تھا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، مگر شرمناک سقوطِ ڈھاکا اور 90 ہزار فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کے عمل نے ثابت کردیا کہ ملک کا دفاع انتہائی کمزور ہاتھوں میں تھا۔ جنرل یحییٰ اور ان کے اعلیٰ فوجی اہلکار اگر پاکستان کے ساتھ ہوتے تو ہمارے 90 ہزار فوجی کبھی بھارت کے آگے ہتھیار نہ ڈالتے، وہ مر جاتے مگر آخری گولی تک ملک کا دفاع کرتے۔ سقوطِ ڈھاکا اور 90 ہزار فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کے عمل نے ثابت کیا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر پاکستان کے نہیں، صرف اپنے ساتھ تھی۔

جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے تجربات نے ثابت کردیا تھا کہ جرنیل ملک چلانے کے اہل نہیں، مگر اس کے باوجود جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں ایک بار پھر ملک کے سیاسی بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مارشل لا لگادیا۔ بلاشبہ 1977ء میں ملک کے اندر ایک سیاسی تفریق موجود تھی، مگر پی این اے اور بھٹو کے درمیان معاہدہ ہوگیا تھا۔ بھٹو کے ساتھ مذاکرات کرنے والے پروفیسر غفور صاحب نے ایک بار ہمیں خود بتایا کہ پی این اے اور بھٹو کے درمیان مفاہمت ہوگئی تھی، بھٹو 30 سے زیادہ نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کے لیے آمادہ ہوچکے تھے کہ جنرل ضیا الحق درمیان میں کود پڑے۔ دیکھا جائے تو تاریخ کے اس مرحلے پر پاکستان اور پاکستانی قوم کا مفاد یہ تھا کہ پی این اے اور بھٹو کے درمیان مفاہمت ہوجائے اور سیاسی عمل جاری رہے، مگر جنرل ضیا الحق نے پاکستان کے نام پر ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد قوم سے وعدہ کیا کہ وہ 90 دن کے اندر انتخابات کراکے ملک کو سیاست دانوں کے حوالے کردیں گے، مگر ان کے 90 دن 11 سال تک جاری رہے۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف پر امریکہ نے دبائو ڈالا تو انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ انہوں نے ملک کی بندرگاہ امریکہ کے حوالے کردی، تین ہوائی اڈے امریکہ کو سونپ دیئے، اور انہوں نے فوجیوں کو کرائے کے فوجی بنا کر کھڑا کردیا۔ یہ کام کرتے ہوئے جنرل پرویزمشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا۔ لیکن جنرل پرویز کا مسئلہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ نہیں، بلکہ ’’سب سے پہلے جنرل پرویز‘‘ اور ’’سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ‘‘ تھا۔ جنرل پرویز پاکستان پرست ہوتے تو وہ امریکہ کی مزاحمت کرتے۔ امریکی اس بات پر جنرل پرویز کا مذاق اڑاتے تھے کہ ہمارا خیال تھا کہ پاکستان ہمارے سات مطالبات میں سے کچھ مانے گا اور کچھ نہیں مانے گا، مگر جنرل پرویز نے امریکہ کے سارے مطالبات تسلیم کرلیے۔ جنرل پرویز نے نائن الیون کے بعد جو کچھ کیا وہ پاکستان سے کھلی دشمنی کے مترادف تھا۔ جنرل پرویز نے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو مذاق بنادیا۔ جنرل پرویزمشرف نے امریکی صدر بش کی ایسی پرستش کی کہ مغربی پریس نے انہیں بش کی رعابت سے ’’بشرف‘‘ کہنا شروع کردیا۔ جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کی چاکری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے کشمیرکاز اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کو یقینی بنالیا ہے، مگر بعدازاں ثابت ہوا کہ یہ محض ایک جھوٹ تھا۔ امریکہ آج بھی کشمیر پر بھارت کے ساتھ ہے اور وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل پرویز بھی خود ہی پاکستان بن کر کھڑے ہوئے تھے۔

پاکستان پہلے دن سے ایک نظریاتی ریاست ہے، چنانچہ ہمارا دفاع ہو یا معیشت… انہیں ’’اسلام مرکز‘‘ اور ’’پاکستان مرکز‘‘ ہونا چاہیے تھا، مگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ان دونوں چیزوں کو پچاس سال سے ’’امریکہ مرکز‘‘ بنایا ہوا ہے۔ ہم امریکہ کی وجہ سے سیٹو اور سینٹو میںگئے۔ ہم نے امریکہ کی وجہ سے سوویت یونین کو اپنا دشمن بنایا۔ جہاں تک ہماری معیشت کا تعلق ہے وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی مٹھی میں ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اگر پاکستان اہم ہوتا تو کیا وہ ہمارے دفاع اور ہماری معیشت کو امریکہ کے حوالے کرتی؟

بدقسمتی سے پاکستان کا پورا کلچر بھی پاکستان مرکز ہونے کے بجائے ’’اسٹیبلشمنٹ مرکز‘‘ ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی رہنما اسٹیبلشمنٹ کی ’’پروڈکٹ‘‘ ہیں۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی کابینہ میں تھے اور انہیں ڈیڈی کہتے تھے۔ نوازشریف جیسا بدعنوان اور بھارت پرست سیاست دان بھی جرنیلوں کا پیدا کردہ ہے۔ جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنایا۔ یہ جرنیل ہیں جنہوں نے بڑی بڑی جماعتیں تخلیق کیں۔ جنرل ایوب نے کنونشن لیگ بنائی، جنرل ضیا الحق نے جونیجو لیگ کو جنم دیا، جنرل پرویزمشرف نے قاف لیگ خلق کی۔ پاکستان میں جتنے نام نہاد الیکٹ ایبلز ہیں وہ سب اسٹیبلشمنٹ کی جیب میں پڑے ہوئے لوگ ہیں۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کی سیاست کو الف سے یے تک اسٹیبلشمنٹ زدہ بنادیا ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما اپنی ’’آزادی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں بڑے بڑے سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں، اس کے باوجود شیخ رشید کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے ساتھ ہے!