ہمارا اصل مرض

سوال یہ ہے کہ اچھے انسان کس طرح پیدا ہوں؟ کیا اس غرض کے لیے صوفیوں کی خانقاہیں قائم کی جائیں؟ کیا لوگوں کو گھیر گھار کر مسجدوں میں لایا جائے اور انہیں لمبے چوڑے وعظ سنائے جائیں؟ یا ان کو بتایا جائے کہ دیکھو مغربی دنیا پر کس قدر نعمتوں کی بارش ہے، تم بھی پیرویِ مغرب کرکے اُن کی طرح ترقی یافتہ ہوجائو۔ ظاہر ہے کہ اس طرح سے انسان تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس تبدیلی کے لیے ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو لوگوں کے ضمیرِ خفتہ کو بیدار کرے۔
ہمارا اصل مرض یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ضمیر پر مُردگی طاری ہے۔ اس معاشرے میں یقیناً اچھے اور باضمیر لوگ بھی ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ معاشرہ مُردہ لوگوں کا معاشرہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غلامی کی صدیاں گزارنے کے بعد ہم نے غلامی سے سمجھوتا کرلیا تھا، اور جب آزاد ہوگئے تو بھی ہر شعبے میں جو غلط نظام تھا اُس کے تحت اور اس سے سمجھوتے کرتے رہے۔ ہم نے جہاں بھی جو بات غلط تھی اُسے قبول کرلیا کہ اس کے سوا چارہ کیا ہے! اس طرح اجتماعی ضمیر مُردہ ہوگیا۔ اب ضرورت اس کی ہے کہ یہ ضمیر زندہ ہو اور معاشرہ جہاد بالنفس یا جہادِ اکبر کی منزل سے گزرے۔ اس کے لیے مادی ترقی کا نصب العین کام نہیں دے گا بلکہ اخلاقی اور روحانی ترقی کے نصب العین کو اپنانا ہوگا، اور اس کے لیے جہاد کرنا ہوگا۔ یہ جہاد نہ لبرل ازم کی ذہنیت کے تحت ہوسکتا ہے، نہ مولوی کی تنگ نظری اس میں مددگار ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں مغرب سے مرعوبیت ختم کرنی ہوگی اور مغرب کی پرانی گلی سڑی ذہنیت سے بھی نجات حاصل کرنی ہوگی۔ وہی لوگ اس معاشرے میں انسان سازی کے کام کی ابتدا کرسکتے ہیں جو ایک نئے ذہن کے ساتھ میدانِ کار میں آئیں، اور یہ ذہن اخلاقیات اور روحانیت کا ذہن ہو جو معاشرے کی اخلاقی سطح کو بلند کرے۔ اس بلند سطح کے بعد ہی ترقی حاصل ہوسکتی ہے اور یہی ہمارا جہادِ اکبر ہوگا۔ لیکن جہادِ اکبر صرف افراد کی ذمہ داری نہیں، ریاست بھی اس سلسلے میں ذمہ دار ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جہاں لوگوں کے اخلاقی احساس میں ترقی ہو اور برائیوں کی جگہ اچھائیاں فروغ پائیں، خاص طور پر آج کل کے زمانے میں جبکہ حکومت نے ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ انسان سازی کے لیے بہت سے کام ریاست کو کرنے ہوں گے۔ لیکن ریاست بجائے خود کوئی چیز نہیں، وہ عوام کا آئینہ ہے جس میں ان کا عکس ہوتا ہے۔ اس لیے پہلے عوام میں ذہنی انقلاب پیدا کرنا ہوگا، ان میں اچھا انسان بننے کی خواہش اور تڑپ پیدا کرنی ہوگی، اور کسی تحریک کے ذریعے ایسا ہوگا تو اس کا اثر ریاست اور حکومت پر بھی ہوگا، وہ بھی تبدیل ہوگی، ورنہ جو تبدیلیاں ہوں گی وہ گائوآمد و خر رفت کے مصداق ہوں گی۔ ان تبدیلیوں سے ہمیں وہ اچھے انسان دستیاب نہیں ہوں گے جو پسماندگی کے خلاف جدوجہد کے لیے ہماری اوّلین ضرورت ہیں۔
(عبدالکریم عابد، ماہنامہ بیداری حیدرآباد، ستمبر 2008ء)

مجلس اقبال
اس کی تقدیر میں مظلومی و محکومی ہے
قوم جو نہ کر سکی اپنی خودی سے انصاف

پاکستان کے آج کے قومی نقشے اور ریاستی اور حکومتی معاملات پر نظر ڈالیں تو یہ شعر علامہ کی جانب سے ”الہامی تبصرہ“ دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے علامہ نے یہ شعر آج لکھ کر بھیجا ہو۔ اقبالی عدالت ِ فکر کے قاضی کا کیا ہی خوب صورت فیصلہ ہے کہ جو قوم اپنی خودی سے انصاف نہ کرسکے، اُس کا انجام مظلومی و محکومی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ غور کیجیے کہ انسانی اور زمینی نعمتوں سے مالامال سرزمین پاکستان کی نااہل، بدقماش اور بدعنوان قیادتوں نے اسے کہاں پہنچا دیا ہے کہ نہ اس کے پاسپورٹ کی عزت نہ انسان کی۔ قرضوں کا لامتناہی ناروا بوجھ، سیکورٹی اور خارجہ پالیسیوں کی تشویش ناک صورتِ حال، قومی غربت بھی بے مثل اور حکمرانوں کی بے وفائی بھی لاشریک۔ علامہ درسِ خودی فرد اور قوم دونوں کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ آج فکر ِ اقبال پر قائم ریاست کے لیے اہم ترین ایجنڈا ہی یہ ہے کہ فرد اور قوم اپنی خودی کو پہچانیں۔