احمق کون؟

ہماری جماعت صلح عام کی منـادی ہے،دونوں فریق کو مصالحت کی دعوت دیتی ہے،وہ جدید علوم، تازہ خیالات، نئی تحقیقات کی بجان و دِل خریدار ہے،لیکن اِس کے معاوضے میں اپنے بزرگوں کا اندوختہ نہیں کھونا چاہتی۔ یہ اُن نادانوں پر ہنستی ہے جو تمام سرمایہ عمر دے کر بازارِ فرنگ کی ہرچمکتی ہوئی چیز کے خریدار بن جاتے ہیں، وہ ہر چیز کو خریدنے سے پہلے یہ جان لینا چاہتی ہے کہ کیا ہمارے بزرگوں کے تاریک تہ خانوں میں، وِیران خرابوں میں اَور مدفون خزانوں میں یہ موجود تو نہیں،اگر ہے تو وہ کون احمق ہوگا جو گھر میں ایک چیز کو چھوڑ کر اُسی کی تلاش میں گلیوں اور بازاروں میں آوارہ گردی قبول کرے گا۔
(سید سلیمان ندویؒ، مجلہ معارف، جولائی 1916ء)