رحمتوں اور برکتوں کے ماہِ مبارک کی آمد

وطنِ عزیز میں بتدریج گرم ہوتے موسم اور شدید کشیدہ سیاسی ماحول میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں اور بے پناہ عظمتوں کا حامل رمضان المبارک کا مقدس و پاکیزہ مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ رسولِ رحمت، محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو اپنے صحابہؓ کرام سے خطاب فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر عظمت اور برکت والا ایک مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے، اس مبارک مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑے ہونے کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت ادا کرے گا تو اسے دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔‘‘
اپنے اس خطبے کے اختتام پر مخبرِ صادقؐ نے اپنی امت کو یہ خوش خبری بھی سنائی کہ: ’’ اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی ہے، اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی عطا کردے گا۔‘‘
رمضان المبارک کے فضائل و برکات سے متعلق کتبِ احادیث میں اور بھی بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل فرمایا ہے کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس سے سات سو گنا تک بڑھا کر عطا کیا جاتا ہے مگر روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے، یہ بندے کی طرف سے میرے لیے ایک خاص تحفہ ہے اور میں ہی جس قدر اور جس طرح چاہوں گا اس کا اجر و ثواب عطا کروں گا۔ اسی حدیث میں روزہ دار کے منہ کی بو کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر قرار دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی اسی حدیث کے آخری جملوں میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ روزہ (دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچائو کے لیے، اور آخرت میں آتشِ دوزخ سے حفاظت کے لیے) ڈھال ہے۔ تاہم ہدایت یہ بھی فرمائی گئی ہے کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بے ہودہ کلامی اور فحش گوئی نہ کرے، شور و شغب نہ کرے، اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا فساد کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اسی آخری ہدایت کی مزید وضاحت اور اہمیت اس فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فرمائی گئی ہے کہ:’’جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
رمضان المبارک کی برکات کا سلسلہ بہت طویل ہے۔ اس ماہِ مبارک کے آخری عشرے میں مسلمانوں کو ’اعتکاف‘ کا حکم بھی دیا گیا ہے جس کی حقیقت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ہر طرف سے تعلق منقطع کرکے اور اپنے خالق و مالک کی طرف یکسو ہوکر مسجد کے گوشے میں بیٹھ کر بندہ اپنے رب سے لو لگائے، اس کی عبادت اور اسی کے ذکر و فکر میں مشغول رہے۔ اسی آخری عشرے میں شبِ قدر کی نوید بھی دی گئی ہے، جس سے متعلق قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس رات میں قرآن حکیم نازل کیا گیا، یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اور اس میں حضرت جبرائیل ؑ اور دیگر فرشتے اپنے رب کے حکم سے آسمانِ دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور طلوعِ فجر تک اللہ کے بندوں پر سلام بھیجتے ہیں۔ غرض یہ کہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسمِ بہار ہے جس میں ہر نیک عمل خوب پھلتا پھولتا، برگ و بار لاتا اور عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے۔ ایسے ایسے شاندار مواقع نیکیاں کمانے اور ثواب سمیٹنے کے اس مقدس ماہ میں دستیاب ہیں، جن کا عام دنوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے اور اس کے فیوض و برکات سمیٹنے کی توفیق بخشے، اور نہ صرف لغویات و فضولیات سے بچتے ہوئے روزے کی حقیقی روح کے مطابق پورا مہینہ اس طرح گزارنے کا موقع فراہم کرے کہ اس کے اختتام پر ہمیں پچھتانا نہ پڑے، اسی طرح پاکستانی قوم کے قائدین کو یہ ہمت عطا فرمائے کہ وہ باہم دست و گریباں رہنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بہتان طرازی کی روش ترک کرکے ملک و قوم کو اُس راہ پر گامزن کر سکیں جس کی خاطر یہ الگ وطن مسلمانانِ برصغیر نے حاصل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کے رہنمائوں اور حکمرانوں کو بھی غیروں کا دستِ نگر اور آلۂ کار بن کر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے بجائے باہم اتحاد و اتفاق سے امت کے مسائل کے حل پر سوچ بچار اور رب کی رضا کے حصول کی خاطر عملی اقدامات کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(حامد ریاض ڈوگر)