گلستان جوہر کراچی سے جناب عمار حسین خان کا مراسلہ ہمارے نام موصول ہوا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’سیاسی ماحول کی گرما گرمی میں ایک خاتون سیاست داں محترمہ شہلا رضا کی زبان سے جب یہ سنا کہ ’’ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں‘‘ تو بڑی ہنسی آئی، سوچا کہ آپ کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرائی جائے‘‘۔
ہم سمجھ نہیں پائے کہ عمار خان صاحب نے ہماری توجہ اپنی ہنسی کی طرف مبذول کرائی ہے، محترمہ شہلا رضا کی طرف مبذول کرائی ہے یا اُن کے اِس اعلان کی طرف کہ اُنھوں نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ سو، احتیاطاً ہم نے اپنی توجہ تینوں طرف مبذول کرلی ہے۔
سیدہ شہلا رضا ہمارے صوبہ سندھ میں خواتین کی ترقی کی وزیر ہیں۔ اہلِ زبان ہیں۔ بہت اچھی، بہت بامحاورہ اُردو بولتی ہیں اور ماشاء اللہ بہت بولتی ہیں۔ بولتے بولتے پچھلی سندھ اسمبلی میں Deputy Speaker بھی بن گئی تھیں۔ اللہ جانے کیوں؟ کیوں کہ ’اسپیکر‘ کا کام تو بولنا کم اور بُلوانا زیادہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اُس وقت کی حکومت نے اُن کا یہی توڑ سوچا ہو۔ مگر خیر!
عمار صاحب کی ہنسی کو معمولی ہنسی نہ جانیے، یہ بامحاورہ ہنسی ہے۔ آج کل تو ایسی ہنسی نصیب والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ صرف اُنھیں کہ جن کو محاوروں کا مفہوم بھی معلوم ہو۔ بہت بولنے والے محاورے بھی بے سوچے سمجھے بول جاتے ہیں۔ جو لوگ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں وہ کم ہی بول پاتے ہیں، کیوں کہ سارا وقت سوچنے اور سمجھنے ہی میں گزر جاتا ہے۔ بولنے کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
سیاست کے اکھاڑے میں بقول شخصے بڑی ’دھبڑ دھونس‘ مچی ہوئی ہے۔ ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘۔ حالات کسی کے قابو میں ہیں نہ زبان۔ کہیں ’کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘ تو کہیں چوڑیاں چٹخ رہی ہیں۔ ’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘۔ سیاسی دھما چوکڑی ان کالموں کا موضوع تو نہیں، مگر کیا کیجیے کہ آج کالم کے ’مطلع‘ میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ سو یہ بات بتاتے چلیں کہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہٗ العالی نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے سب سے پہلے یہ بیان دیا تھا:
’’عمران خان ہمیں دھمکیاں مت دو، ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں‘‘۔
بات درست ہے۔ حضرت مولانا نے جبہ و دستار سمیت پہننے اوڑھنے کی ہر بامحاورہ شے پہن رکھی ہوتی ہے، لیکن اس بات کے تو ہم بھی چشم دید گواہ ہیں کہ قبلۂ عالم نے شے مذکور پہننے سے ہمیشہ گریز ہی فرمایا۔
سیدہ شہلا رضا آج کل مولانا کی تقلید میں ہیں۔ چناں چہ اُنھوں نے بھی وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد صاحب سے مخاطب ہوکر یہی بیان دُہرا دیا:’’شیخ رشید ایکشن کرکے دیکھ لیں۔ ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں‘‘۔
اچھا ہوا کہ چوڑیاں پہنے بغیر ہی شہلا نے شیخ کو ایکشن کی دعوت دے ڈالی۔ چوڑیاں پہن کر ایسا کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔
’’چوڑیاں نہیں پہن رکھیں‘‘مردانہ محاورہ ہے۔ مولانا کو تو یہ محاورہ زیب دیتا ہے، کیوں کہ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم اپنی ’نوراللغات‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’… ہاتھوں میں چوڑیاں ڈالنا (کنایۃً) نامردی اختیار کرنا۔ طنزاً جیسے چوڑیاں پہن کر گھر میں بیٹھ جاؤ‘‘۔
دنیائے سیاست میں بھی بعض اوقات خواتین کی طرف سے مردوں کو چوڑیاں پیش کی جاتی ہیں تاکہ وہ مردوں کو شرم، غیرت اور احساس دلاسکیں کہ تم تو مرد ہو۔ اگرکم زوری اور نزاکت کا مظاہرہ کرنا ہی ہے تو لو یہ چوڑیاں بھی پہن لو۔
لہٰذا یہ اعلان کرنا کسی مرد ہی کو زیبا ہے کہ وہ مرد ہے۔ اُردو محاورے کے مطابق اگر کسی خاتون کے متعلق یہ انکشاف ہو کہ وہ مرد ہے تو اسے اُس کا عیب یا تخلیقی نقص سمجھا جاتا ہے۔ شیخ رشید احمد صاحب کے الفاظ میں یہ ‘Manufacturing fault’ کہلائے گا۔
لغت میں لفظ ’چُوڑی‘ کے بہت سے معانی ہیں۔ ایک تو وہی جس کا ذکر شہلا رضا نے اپنے بیان میں کیا ہے یعنی لاکھ، کانچ، پلاسٹک یا سونے چاندی وغیرہ کا بنا ہوا وہ خوش نما دائرہ جسے مشرقی خواتین اپنی کلائیوں میں زیور کے طور پر پہنتی ہیں اور اسے اپنے سہاگ کی علامت جانتی ہیں۔ دوسرے، چوڑی کی شکل کا بنا ہوا کوئی گول پُرزہ بھی چوڑی کہلاتا ہے، کسی پُرزے کو ڈھبری یا پیچ کس سے کسنے کے لیے جو چکردار کٹاؤ بنایا جاتا ہے اُسے بھی چوڑی کہتے ہیں۔ پُرزوں ہی کی نہیں، بعض اوقات سیاسی رہنماؤں کی چوڑیاں بھی اسی ترکیب سے کس دی جاتی ہیں۔ تنگ موری کے پاجامے پر پنڈلی کے پاس جو شکنیں بطورِ خاص ڈالی جاتی ہیں وہ بھی چوڑیاں کہی جاتی ہیں اور ایسا پاجامہ ’چوڑی دار پاجامہ‘ کہلاتا ہے۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم کی سند کے مطابق مہترانی، خاتون خاکروب یا بھنگن کو بھی چوڑی کہا جاتا ہے۔
چوڑیوں کو سہاگ کی علامت ہندو تہذیب میں سمجھا گیا۔ اُن کے ہاں کوئی عورت بیوہ ہوجائے تو اُس کی چوڑیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ اس عمل کو ’چوڑیاں ٹھنڈی کرنا‘ کہتے ہیں۔ ہندو معاشرت میں مطلقہ یا بیوہ تا عمر چوڑیاں نہیں پہن سکتی، کیوں کہ وہ دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ ہندو معاشرت کے بہت سے بُرے اثرات برصغیر کی مسلم معاشرت پر بھی پڑے۔ اسلامی معاشرت میں عقدِ بیوگان، تحفظِ خاندان کی خاطر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہندو معاشرت کے زیرِ اثر ہمارے معاشرے میں بھی کسی بیوہ کا عقدِ ثانی کرلینا یا کسی مرد کا دوسری شادی کرنا ’بدکاری‘ سے بڑا جرم سمجھا جانے لگا ہے۔ عاقل و بالغ جوان مرد اور عورت اگر اپنی پسند سے شرعی نکاح کرلیں تو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔ دونوں مل کر بے غیرتی کرتے رہیں تو کسی کی غیرت نہیں جاگے گی۔
چوڑیوں کو ہمارے رومانوی و نسائی ادب میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بالخصوص خواتین کے لیے یہ نسوانی زیور بہت کشش رکھتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریب میں خواتین آج بھی یہ گیت بہت پُرجوش مسرت سے گایا کرتی ہیں:
مرے نَیہر سے آج مجھے آیا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہری ہری چوڑیاں
نَیہر دراصل نانیہال (یا ننھیال) کو کہتے ہیں۔ مگر کثرتِ استعمال سے اب اس لفظ کا مطلب کسی عورت کا میکہ یا ماں باپ کا گھر ہوگیا ہے۔ چوڑیاں ہری ہری ہوں، لال لال ہوں یا سنہری، نسوانیت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ دہلی کے نام ور ادیب، صحافی، مدیر میر ناصرؔ علی کہا کرتے تھے: ’’جب تک آٹا گوندھنے میں چوڑیوں کا دھووَن شامل نہ ہو روٹی میں مزہ کیسے آسکتا ہے؟‘‘۔ (’گنجینۂ گوہر‘۔ شاہد احمد دہلوی)
مرد اگر مرد نہ رہے تو یہ بات اس کے لیے گالی بن جاتی ہے۔ لیکن عورت سے نسوانیت اور نسائیت سلب کرلی جائے تو اسے ’’آزادیِ نسواں‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ مردوں کے لیے تو عورتوں کے وظائف سرانجام دینا فطری طور پر ممکن نہیں، لیکن عورتوں کا بوجھ بٹائے بغیر ان کے کندھوں پر مردانہ کاموں کا بوجھ بھی لاد دیا جائے تو اسے ’’مرد وزن کی مساوات‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ایک عورت بھی بے سوچے سمجھے یہ محاورہ استعمال کررہی ہے کہ ’’ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں‘‘۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
زن کو نا زن بنادینے والی مغربی معاشرت کی ’’مَیّا‘‘ مرگئی ہے۔ وہاں کی عورتیں اب ’’ماں‘‘ بننے کو تیار نہیں ہوتیں۔ صحیح معنوں میں ’’ماں‘‘ بن جائیں تو تقریباً تین سال تک ’’آزادیِ نسواں‘‘ اور ’’مساواتِ مردو زن ‘‘ کے لولی پاپ سے دست کَش ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مغرب ’’لاولد‘‘ ہوتا جارہا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا اقبالؔ نے:
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی