دہی: وٹامن اور کیلشیم کا مرکب دودھ سے زیادہ غذائیت

دسمبر کی ایک سرد رات کو شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید کی رہائش گاہ پر جاپان سے آئے ہوئے ڈاکٹروں کی دعوت تھی۔ کھانے کے وقت مَیں حکیم صاحب کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ حکیم صاحب نے مٹی کے کونڈے میں سے اپنی پلیٹ میں دہی نکال کر میری طرف دیکھا اور کہا ’’میں سال کے بارہ مہینے اپنے گھر کا جما ہوا دہی کھاتا ہوں۔ دہی صحت کے لیے فائدے مند ہے۔‘‘
دہی دودھ کی خمیر شدہ ایک شکل ہے۔ یہ اپنی ملائمت، خوشگوار اور فرحت بخش ذائقے کی وجہ سے لوگوں کی مرغوب غذا ہے۔ اس میں گوناگوں خوبیاں ہوتی ہیں۔ یہ صحت بخش اور شفا بخش ہے۔
دہی ہمارے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ خدا جانے کب سے ہماری نسلیں اس غذائے مفید کو استعمال کرتی آرہی ہیں۔ ہم اس کے بے شمار استعمالات اور ترکیبوں سے واقف ہیں۔ ان میں مختلف غذائی کے علاوہ دوائی استعمالات بھی شامل ہیں۔ دہی کے حوالے سے یہ کہانی خاص طور پر بہت مشہور رہی ہے کہ دہی کی دریافت ایک خانہ بدوش نے کی تھی۔ یہ شخص چمڑے کے ایک مشکیزے میں بکری کا دودھ بھر کر ایک لمبے سفر پر روانہ ہوا تھا۔ اثنائے سفر میں اسے بھوک اور پیاس نے ستایا تو اس نے مشکیزہ کھولا، لیکن وہ یہ دیکھ کر چکرا گیا کہ دھوپ کی تمازت کی وجہ سے وہ دودھ کھیر کی طرح گاڑھا ہوگیا تھا اور اس میں ایک طرح کی خوشبو بھی پیدا ہوگئی تھی۔
انگریزی میں دہی ’’یوگرٹ‘‘ (Yogurt)کہلاتا ہے جو دراصل ترکی لفظ ہے۔ ایران میں اسے ’’ماست‘‘، شام و لبنان میں ’’لبن‘‘، اور مصر میں ’’لبن زبادی‘‘ کہتے ہیں۔ امریکی اسے ’’مدزوم‘‘ اور کاکیشیا کے لوگ ’’مستوی‘‘ کہتے ہیں۔
دہی کیسا ہو، کیا موٹی ملائی والا، یا ملائی کے بغیر؟
آپ جانتے ہیں کہ دودھ یا دہی کی ملائی میں سیر شدہ چکنائیاں پائی جاتی ہیں جو بسا اوقات دل کے امراض کا باعث بن سکتی ہیں۔ لہٰذا دودھ میں موجود سیر شدہ چکنائیوں سے بچائو لیکن اس میں موجود کیلشیم حاصل کرنے کا واحد بہترین حل یہ ہے کہ دہی بنانے کے لیے بغیر چکنائی والا دودھ استعمال کیا جائے۔ بعض اوقات بازار سے میسر ناقص غذائیں بھی صحت کے لیے بہتر ثابت ہوسکتی ہیں، اور اس کی بہترین مثال بازار سے حاصل شدہ دہی ہے جس میں گوالے بغیر چکنائی والا دودھ استعمال کرتے ہیں جو کہ ان کو سستا پڑتا ہے۔
علاوہ ازیں بعض کمپنیوں کا ڈبا بند دہی بھی صحت کے لیے اچھا ہے، کیونکہ ان میں بھی بغیر چکنائی والا دودھ استعمال کیا جاتا ہے۔ گھر میں دہی جمانے کے لیے بھی یہی مناسب ہے کہ اُبلے دودھ کو ٹھنڈا کرنے کے بعد اس کی ملائی اُتار لی جائے اور پھر اسی دودھ کو دہی جمانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہرکھانے کے ساتھ دو چار چمچ دہی کا استعمال اگر معمول بنالیا جائے تو یقینا یہ نہ صرف نظام انہضام کی بہتری بلکہ وزن کو کنٹرول میں رکھنے کا بھی ضامن ہوگا، اور ساتھ ہی ساتھ جسم کے پٹھوں اور اعصاب کی طاقت کا وسیلہ بھی بنے گا۔
آج کل دہی نے امریکہ میں اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں اور امریکیوں میں اس کے استعمال کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہاں یہ کئی طرح کے ذائقوں میں دستیاب ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکہ میں دہی کا استعمال زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کرتے ہیں۔ یہ اعلیٰ جمالیاتی ذوق رکھنے والے، موسیقی کے دلدادہ اور کھیلوں کے شوقین افراد کا من بھاتا کھاجا ہے۔
صدیوں سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ دہی کے استعمال سے مسے، منہ کے چھالے اور شراب کے خراب اثرات دور ہوجاتے ہیں۔ اس کے استعمال سے دھوپ سے جلی ہوئی جلد ٹھیک ہوتی ہے، جادو وغیرہ کا اثر دور ہوتا ہے اور انسان جھریوں کے جال میں نہیں پھنستا۔ 1700ء میں مشرقِ بعید کے ایک معالج نے دہی کے ذریعے شاہ فرانس اول کی آنتوں کا علاج کیا تھا۔ اُس وقت سے اہلِ فرانس اسے ’’حیاتِ جاوداں کا دودھ‘‘ کہتے ہیں۔
امریکہ میں دہی کے استعمال میں اضافہ اُس وقت سے ہونے لگا جب مسٹر گیلاہاورز کی کتاب ’’لک ینگر، لیو لانگر‘‘ (جوان نظر آئو اور لمبی عمر پائو) منظرعام پرآئی۔ اس کتاب میں دہی کو دنیا کی پانچ معجزاتی غذائوں میں شامل کیا گیا تھا۔ امریکہ میں دہی کا استعمال اُس وقت سے بڑھا جب اس میں مٹھاس شامل کی گئی۔ امریکہ میں اب بھی 80 فیصد دہی میٹھا ہوتا ہے، تاہم اب سادہ دہی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں مروج ترش بالائی یا کریم کے مقابلے میں یہ زود ہضم ہوتا ہے۔ اس میں حرارے بھی کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے مٹاپے کا سبب نہیں سمجھا جاتا۔
دہی میں موجود زندہ جراثیم دودھ کو زود ہضم بنادیتے ہیں، جس کے استعمال سے نظام ہضم کو بڑی مدد ملتی ہے۔ غذا میں اس کی شمولیت سے جسم غذائی اجزا کا بہتر طور پر استحالہ کرتا ہے۔ اس بات کی توثیق بھی ہوچکی ہے کہ دودھ کو دہی میں تبدیل کرنے والے تخمیری عمل میں دودھ کی شکر (لیکٹوز) لیکٹک ایسڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی سے دودھ گاڑھا ہوکر دہی بن جاتا ہے اور اس کی اپنی مخصوص مہک جنم لیتی ہے۔ یہ عمل اس میں ایسے غذائی اجزا پیدا کردیتا ہے جو خود دودھ میں نہیں ہوتے۔ گویا دہی بننے کے بعد دودھ کی غذائی قدروقیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کی سفارش کے مطابق ہر فرد کو ایک پیالی دہی روز استعمال کرنا چاہیے۔ اس طرح اسے اہم غذائی اجزا حاصل ہوں گے۔
دہی نشوونما کرنے والی غذا ہے۔ یہ پروٹین، ضروری وٹامنز اور معدنی اجزا کا اچھا ذریعہ ہے۔ اس میں کیلشیم اور رائبو فلاوین بھی خوب پائی جاتی ہے۔ دہی کی پروٹین دودھ کے مقابلے میں زیادہ زود ہضم ہوتی ہے۔ اندازہ ہے کہ دودھ ایک گھنٹے میں 32 فیصد ہضم ہوتا ہے، جبکہ دہی اتنے وقت میں 91 فی صد تک ہضم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کمزور نظام ہضم رکھنے والوں کے لیے یہ موزوں غذا ہے۔ بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کے لیے تو یہ بہت اچھی چیز ہے۔
ایک سوگرام دہی میں 89.1 فیصد رطوبت، 3.1 فیصد پروٹین، 4.0 فیصد چکنائی، 0.7 فیصد معدنی اجزا اور 3.0 فیصد کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنی اور حیاتینی اجزا میں 149 ملی گرام کیلشیم، 93 ملی گرام فاسفورس، 0.2 ملی گرام آئرن، 102 انٹرنیشنل یونٹ وٹامن اے،ایک ملی گرام وٹامن سی اور کچھ مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس شامل ہیں۔ دہی کے ایک سو گرام کی غذائی صلاحیت 60 کیلوریز ہے۔
باقاعدگی سے دہی کھانے والے افراد جاذب نظر ہوتے ہیں، کیونکہ یہ جلد اور اعصاب کو صحت مند اجزا فراہم کرتا اور جلد کو دھوپ کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ دہی میں موجود بیکٹیریا جلد کو ملائم اور چمک دار بناتے ہیں۔ دہی میں سنگترے یا لیموں کا رس ملاکر چہرے پر لگایا جائے تو چہرہ صاف اور چمک دار ہوجاتا ہے۔ یہ نسخہ جلد کو رطوبت اور ضروری وٹامن سی مہیا کرتا ہے۔ ایک کھانے کا چمچہ لیموں یا سنگترے کا رس ایک کپ دہی میں ملائیں اور چہرے اور گردن پر لگاکر پندرہ منٹ تک خشک ہونے دیں۔ پھر کسی نرم کپڑے یا ٹشو سے صاف کرکے پانی سے دھولیں۔
مغرب میں مشرقی ممالک کے مسالے دار سالن گرم اور مضر سمجھے جاتے ہیں، چنانچہ دہی کی شمولیت سے ان کی مضرت دور ہوجاتی ہے۔ دہی کو پھینٹ کر اس میں حسب ذائقہ نمک، مرچ، ادرک اور لہسن ملانے سے ایک بہترین سالن تیار ہوجاتا ہے۔ جنوبی ہند میں دہی کو پھینٹ کر نمک، لہسن، زیرہ سفید، ہلدی، ہری مرچ، ہرے دھنیے اور پودینے کو پیس کر شامل کرلیتے ہیں اور پھر اسے تیل یا گھی میں پیاز سرخ کرکے بگھار لیتے ہیں۔ یہ ’’کچی کڑی‘‘ کہلاتا ہے اور گرمیوں میں روٹی اور چاول کے ساتھ اس کا استعمال بہت عام ہے۔
دہی میں تازہ دودھ سے مشابہ غذائی اجزا ہوتے ہیں، لیکن اس میں وسیع طور پر طبی اعتبار سے خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ دہی بنانے کے عمل کے دوران بیکٹیریا دودھ کی پروٹین کو انتہائی زود ہضم بنادیتے ہیں۔ یہی بیکٹیریا دہی کے ساتھ اعضائے ہضم میں پہنچ کر انتڑیوں کے نقصان دہ کیڑوں کو ہلاک کردیتے ہیں اور معاون ہضم بیکٹیریا کی افزائش کرتے ہیں۔ یہی سودمند بیکٹیریا معدنی اجزا کو جذب ہونے میں مدد دیتے ہیں اور وٹامن بی گروپ کی تشکیل ممکن بناتے ہیں۔ لسی میں دہی جیسی غذائیت بخش اور شفا بخش خوبیاں ہوتی ہیں۔ دہی کو بلو کر اس میں موجود چکنائی یعنی مکھن اتارنے کے بعد پانی ملانے سے لسی تیار ہوجاتی ہے۔
مسوڑھوں میں رطوبات صفراویہ یا مالجنیہ جمع ہوکر ان کو متورم کردیتی ہیں اور دانت ہلنے اور درد کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض دانتوں کے چھلکے اتر جاتے ہیں جس کی وجہ سے دانت بدنما ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے دہی نہایت عمدہ اور مؤثر ہے۔ اس کے استعمال سے اول تو ایسی موذی رطوبات پیدا ہی نہیں ہوتیں، اور اگر پیدا بھی ہوجائیں تو ان کی مضرت رساں کیفیت کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔ دانتوں کی حفاظت اور انہیں ہلنے سے بچانے کے لیے دہی کا استعمال نہایت مفید ہے۔
سل کی پیدائش عموماً نزلہ و زکام دائمی یا معدہ کی خرابی سے ہوا کرتی ہے۔ دہی اس خرابی کو، اور سل پیدا کرنے والے تیزاب کی پیدائش کو روک دیتا ہے۔ اس لیے سل، دمہ اور خشک کھانسی کے لیے دہی تسلی بخش فائدہ دینے والی دوا ہے۔ جن لوگوں کو سل جیسے موذی اور مہلک مرض میں گرفتار ہونے کا خدشہ اور اندیشہ دامن گیر ہو اُن کے لیے دہی کا استعمال اس خطرناک مرض سے محفوظ رکھنے کا موجب ثابت ہوتا ہے، اور اگر رات کو سوتے وقت اسے کاڈلیور آئل کے ساتھ استعمال کیا جائے یا شام کے وقت مچھلی کو اس میں پکا کر کھایا جائے تو اعجاز اثر فوائد کا سرمایہ دار ثابت ہوتا ہے۔
دہی لعاب پیدا کرنے والی گلٹیوں کے فعل پر اچھا اثر کرتا ہے اور ان کے جسموں کو اصلی حالت پر قائم رکھتا ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ لعابِ دہن کو ہضمِ غذا اور اعانتِ تغذیہ پر کس قدر قدرت حاصل ہے۔ نیز یہ بھی کہ لعابِ دہن میں ترش و نمکین مادے ہوا کرتے ہیں، جس قدر یہ رطوبتِ لعابیہ زیادہ مقدار میں پیدا ہوگی، اسی قدر ہضم معدہ اچھا اور عمدہ ہوگا۔ چنانچہ نمکین غذا و اجزا کی وجہ سے لعابِ دہن سفیدی چشم کو رفع کرتا ہے اور اس کا طلاء داد کو نیست ونابود کرتا ہے۔
اس کے علاوہ دہی منہ کا لعاب پیدا کرنے والی گلٹیوں کو مضبوط اور لعاب زیادہ مقدار میں پیدا کرنے کی وجہ سے ہضم غذا میں مدد کرتا ہے۔ بدن کے دیگر غدود بھی اس سے یکساں طور پر مستفید اور طاقت حاصل کرتے ہیں۔
دہی دماغ کے لیے اعلیٰ ترین مسکن غذا ہے۔ دہی سر کے گرم وخشک امراض مثلاً مالیخولیا، مراق، سہر، صداع، صداع صفراوی وکابوس وغیرہ میں عرقِ شیر، عرقِ گاجر اور ماء الجبین وغیرہ جیسی مرکب دوائوں کی طرح فائدہ مند ثابت ہوتا ہے، اور دہی کی بالائی سر پر ملنا باعثِ طیب دماغ اور نیندآور ہے۔ بے خوابی کو دور کرنے میں روغنِ کدو کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے۔
اگر جسم میں خون رقیق ہوجائے تو خون اپنی رقت کی وجہ سے ہمیشہ ظاہر بدن کی طرف گردش کرتا رہتا ہے اور پھر اپنی غایتِ رقت کی وجہ سے قلب کی کواڑیوں پر دبائو نہیں ڈال سکتا۔ لہٰذا جب خون کا دبائو خاطر خواہ نہیں ہوتا تو قلب کی حرکت انبساط (پھیلنے کی حرکت) رک جاتی ہے اور اس حرکت کے رک جانے کو موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دہی رقتِ خون، اختلاجِ قلب، حارخفقان اور علت دخانیہ کے لیے مفید ترین دوا ہے اور خون کے دوران کو بخوبی قائم رکھتا ہے۔
سب سے عمدہ دہی وہ ہوتا ہے جو دہی جمانے والے جراثیم کی وساطت سے جمایا جاتا ہے۔ عمدہ اور بہترین دہی کا پہلا اور آخری وصف یہ ہے کہ وہ بخوبی جما ہوا، ذائقے میں مائل بہ ترشی، لذیذ اورمرغوب طبع ہوتا ہے۔ دودھ کے کاڑھنے میں بداعتدالیاں نہ کی جائیں اور صحیح اصول کے تحت جوش دیا جائے۔ علاوہ بریں خالص اور عمدہ دہی کے توڑ سے ضامن لگایا جائے۔ نیز دودھ جس کا دہی جمایا جائے اس کی حرارت 104درجے ہونی چاہیے۔ 104 درجے کی حرارت دہی کے لیے نہایت موزوں اور مناسب ہے اور جراثیمِ مفیدہ اس حرارت سے زائل اور ضائع نہیں ہوتے۔ لیکن اس سے کم حرارت دہی جمانے کے منافی ہے۔ کیونکہ جس طرح حرارت کی زیادتی اور شدت دہی جمانے والے جراثیمِ مفیدہ کو ہلاک کرڈالتی ہے، بعینہٖ دودھ کی برودت بھی دہی جمنے کے منافی ہے۔
دہی ہمیشہ خالص دودھ سے جمانا چاہیے، نیز جن برتنوں میں دودھ دوھا جائے وہ بھی نہایت پاک وصاف ہوں۔ علاوہ بریں ان کو کھلے منہ ہرگز نہ رکھا جائے، ورنہ دودھ میں دیگر قسم
کے ضرر رساں جراثیم شامل ہوجانے کے علاوہ گردوغبار بھی مل جائے گا اور اس سے دودھ پھٹ جائے گا، یا دہی ناقص تیار ہوگا۔
جس دودھ سے دہی جمایا جائے گا اس دودھ کے اثرات اس دہی میں ہوں گے۔
گائے کا دہی: سب سے بہترین دہی گائے کا دہی ہے۔ اس کا استعمال قوتِ گویائی کو تقویت بخشتا ہے۔ ہضم کے وقت شیریں ہوتا ہے۔ بھوک کو چمکاتا ہے اور بادو بلغم کو دور کرتا ہے۔ علاوہ بریں مفرح قلب، مقوی بدن اور مسکن تشنگی ہے۔ نیز ریح کو زائل کرتا ہے۔ مبہی اور مولد منی ہے۔ نیز منہ میں خوشبو پیدا کرتا ہے اور دافع استحاضہ ہے۔
بکری کا دہی: گائے کے دہی کے بعد بکری کے دہی کا نمبر ہے۔ یہ سبک اور قابض ہے۔ اخلاط ثلاثہ کو دفع کرتا ہے۔ باد اور ضیق النفس کو دور کرتا ہے۔ لاغری اور کمزوری کو مٹاتا ہے۔ اشتہائے طعام پیدا کرتا ہے۔ بواسیر، کھانسی اور امراضِ بلغم میں فائدہ دیتا ہے۔ گرانی شکم کو دور کرتا ہے۔ قے، متلی اور دست بند کرتا ہے۔
بھینس کا دہی: بلغم پیدا کرتاہے۔ بادو صفراء کو دور کرتا ہے۔ قوتِ باہ بڑھاتا ہے۔ شیریں مگر دیر ہضم ہے۔ خون استحاضہ کو بند کرتا ہے۔ قوتِ گویائی میں مددگار ہے اور تشنگی کو دور کرتا ہے۔ منی اور باد پیدا کرتا ہے، مگر خون خراب کرتا ہے۔
بھیڑ کا دہی: بواسیر، بلغم اور باد کو دور کرتا ہے۔ دیر ہضم ہے۔ زکام پیدا کرتا ہے۔ صفراء دستوں میں نافع ہے۔ نیز کھانسی اور دمہ کو دور کرتا ہے۔ بھیڑ کے دہی کے پیدا شدہ ثقل اور گرانی کی اصلاح کے لیے نمک اور سونٹھ ملانا نہایت مفید و مؤثر ہے۔
اونٹنی کا دہی: ہضم کے وقت تلخ ہے۔ دست لاتا ہے۔ ذائقہ میں کھاری اور ترش ہے۔ علاوہ ازیں استقاء، قولنج، کرم شکم اور باد جذام کو دور کرتا ہے۔