سید بادشاہ کے قافلے کا آخری حدی خواں مولانا فضل الٰہی وزیر آبادیؒ

مولانا فضل الٰہی 27 رمضان المبارک 1299ھ/ 12 اگست 1882ء کو وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میراں بخش تھا جو ریلوے میں ملازم تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے مولانا فضل الٰہی کو وزیرآباد کے مشن ہائی اسکول میں داخل کرایا گیا۔ تعلیم کے دوران اپنے ہم جماعتوں بلکہ تمام اسکول میں نمایاں تھے۔ پڑھنے میں بہت تیز تھے اور ذہن بہت اچھا تھا۔ انگریزی خط خاص طور سے نہایت عمدہ تھا۔ چھٹی جماعت میں تھے کہ ایک دفعہ انگریزی انسپکٹر آف اسکولز آیا اور ان کا انگریزی خط دیکھ کر بے حد متعجب ہوا۔ 1997-98ء میں اِن سطور کے لکھنے والے خاکسار کو مولانا خالد گرجاکھی کے کتب خانے میں امیر المجاہدین کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں میں اُن کے اسکول کے زمانۂ طالب علمی کی انگریزی کی خوش خطی کی کاپیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ واقعی اس میں چنداں مبالغہ نہیں ہے کہ مولانا فضل الٰہی کے ہاتھ کی لکھائی چھاپہ خانے کی لکھائی معلوم ہوتی تھی۔ کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ ہاتھ کا لکھا ہوا ہے یا چھپا ہوا ہے۔
اسکول میں اور اسکول کے باہر سادگی سے رہتے تھے۔ نماز کے پابند تھے اور باجماعت نماز پڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسکول کی تعلیم کے ساتھ دینیات کی کتابیں پڑھتے تھے اور اس علم کے حصول کا انہیں بہت شوق تھا۔ چنانچہ جب میٹرک کا امتحان پاس کیا، اُس وقت عربی اور فارسی کی بعض اہم کتابیں پڑھ چکے تھے۔ مروجہ درس نظامی کی تکمیل حضرت حافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور مولانا عمر دین سے کی۔
1900ء میں میٹرک پاس کرکے اُسی سال اپنے والدِ ماجد کی سفارش سے ریلوے میں بطور کلرک ملازم ہوگئے تھے، لیکن بڑی مشکل سے ایک سال ملازمت کی ہوگی کہ استعفیٰ دے دیا۔
جماعت مجاہدین کا علم انہیں اُس زمانے میں ہوا جب وہ حضرت حافظ عبدالمنان وزیرآبادیؒ سے علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ 1903ء میں وہ مرکز مجاہدین اسمست پہنچے۔ اُس وقت مجاہدین کی زمامِ سربراہی امیر عبدالکریم کے ہاتھ میں تھی۔ مولانا نے اُن سے بیعتِ جہاد کی۔ واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1901ء سے یعنی جب سے انہوں نے ملازمت اختیار کی، مجاہدین کے لیے زرِ اعانت فراہم کرنا شروع کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ امیر کی بیعت کے ذریعے باقاعدہ جماعت کے حلقۂ جہاد میں داخل ہوئے تو امیر نے انہیں حکم دیا کہ ہندوستان جائیں اور جماعت کے لیے چندہ جمع کرنے کی بھی کوشش کریں اور انگریزوں سے جہاد کے لیے آدمی بھی یہاں بھیجیں۔
اس سے قبل وہ حضرت حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کے کہنے سے یہ کام کرتے تھے۔ اب وہ براہِ راست امیرالمجاہدین کے حکم سے یہ فریضہ انجام دینے لگے اور اپنے آپ کو کلی طور سے جماعت کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ کچھ عرصے کے بعد انہیں امیرالمجاہدین کی طرف سے ’’امیرالمجاہدین ہند‘‘ بنادیا گیا تھا۔ یعنی ملک کے طول و عرض سے آدمیوں اور روپے پیسے کی فراہمی کا سلسلہ اُن کے سپرد تھا۔
انگریزوں کی حکومت کی سی، آئی، ڈی کا سلسلہ بڑا وسیع تھا، اور اس کی نظر بہت گہری تھی۔ خالص سرکاری اور تنخواہ دار آدمیوں کے علاوہ بہت سے دوسرے لوگ بھی جیسا کہ عام طور سے ہوتا ہے، اپنے ذاتی مفاد کے لیے حکومت کی مدد کرتے اور مجاہدین کی تاک میں رہتے تھے۔ قدم قدم پر خطرات اور جگہ جگہ اندیشوں کے جال۔ 1915ء میں مولانا فضل الٰہی بھی خطرے کی زد میں آگئے اور خفیہ پولیس کے جال میں پھنس گئے جو کچھ مدت سے ان کے تعاقب میں لگی ہوئی تھی۔
انہیں گرفتار کرکے جالندھر جیل میں بند کردیا گیا، لیکن ان کا نشۂ اسلامیت اور جذبۂ جہاد اتنا تیز تھا کہ نہ اسے جیل کی ترشی اتار سکتی تھی اور نہ حکومت کا تشدد اسے زائل کرسکتا تھا۔ انہوں نے جیل کے ایک وارڈن ولی محمد کو اپنا رازدار بناکر، اُس کی وساطت سے ملک کے تمام علاقوں میں رہنے والے اپنے تمام رفقائے کار سے رابطہ قائم کرلیا اور تحریری ہدایات سے سرگرم رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ لیکن ایک خط پکڑا گیا۔ پوچھ گچھ میں ولی محمد نے تمام بھید کھول دیا۔ جن لوگوں کے نام خطوط لکھے تھے ولی محمد نے اُن سب کے نام پولیس کو بتادیئے جنہیں گرفتار کرلیا گیا۔
1918ء میں جیل سے اس شرط پر رہائی ہوئی کہ وہ ایک سال کے لیے وزیرآباد سے باہر نہیں جائیں گے۔ ایک سال بعد یہ پابندی ختم ہوئی تو انہوں نے وزیرآباد کی مشہور و مضبوط صنعت چاقو، چھریوں، قینچیوں کی تجارت کے بہانے ملک کے مختلف مقامات کے چکر لگانے شروع کردیئے۔ اس طرح وہ گھر کے اخراجات، خفیہ طور پر انگریزوں کے خلاف لوگوں کو جہاد کی تلقین اور مجاہدین کے لیے رقم کی فراہمی کا سامان کرتے رہے۔
1920ء میں مولانا فضل الٰہی بچ بچاکر ملک کی سرحد پار کرگئے اور ہجرت کی غرض سے یاغستان پہنچ گئے۔ اہل و عیال کو بھی وہیں بلالیا۔ کچھ مدت اسمیت میں گزری، پھر چمرکنٹ چلے گئے۔
1934ء میں مولوی محمد بشیر امیرالمجاہدین کی شہادت کے بعد مولانا فضل الٰہی امیرالمجاہدین بنائے گئے۔ اسی اثنا میں مولانا فضل الٰہی نے برصغیر کے خفیہ دورے کرنے کا انقلابی فیصلہ کیا۔ اس کا مقصد ہندو قوم سے مسلح کشمکش کی صورت میں جدوجہد کی تیاری اور تحریکِ پاکستان کے حق میں ذہنوں کو ہموار کرنے کی سعی و جہد تھا۔اس طرح تحریک پاکستان کے کٹھن مرحلوں میں پُرجوش اور سرگرم کارکن فراہم کیے جنہوں نے مسلمانوں کے اندر کانگریس کے حامی عناصر کی قوت توڑنے اور سلہٹ اور سرحد کے ریفرنڈم جیتنے میں اہم کردار ادا کیا۔
23 مارچ 1940ء کو مینار پاکستان (اُس وقت منٹو پارک) لاہور کے تاریخ ساز قراردادِ پاکستان کے جلسے میں پنڈال کے ایک گوشے میں ایک ملنگ کا بھیس بناکر، لمبی داڑھی، بڑی بڑی مونچھیں، کندھوں پر لٹکتی ہوئی زلفیں، نصف پنڈلیوں کو چھوتا ہوا کُرتا، سر پر درویشی کلاہ، ہاتھ میں موٹے دانوں کی مالا، پائوں میں دیسی جوتے پہن کر شرکت کی اور قائداعظم کی تقریر سنی۔ اور جب یہ تاریخی اجلاس برخواست ہوا تو (مولانا فضل الٰہی) ملنگ کی صورت میں لاکھوں کے ہجوم میں غائب ہوگئے۔
دس گیارہ ماہ بعد کولوٹولہ (کلکتہ) کی مسجد میں یہی ملنگ (مولانا فضل الٰہی) وارد ہوا۔ اس نے مسجد کے امام اور خطیب علامہ محمد یوسف سے تنہائی میں ملاقات کی اور ان کے کان میں کچھ ایسا منتر پھونکا کہ وہ اسی (مولانا فضل الٰہی) کا دم بھرنے لگے۔ ملنگ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا، انہوں نے اپنا ہاتھ ملنگ کی طرف بڑھایا اور عرض کی: ’’حضرت غائبانہ ارادت مندی تو پہلے سے تھی، اب براہِ راست بیعت کی سعادت بھی نصیب ہوجائے‘‘۔ ملنگ نے بیعت لی اور پھر جس حجرے میں وہ مقیم تھا وہ پراسرار سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ لوگ آتے، تنہائی میں باتیں ہوتیں اور رخصت ہوتے تو سوز وسرور کی عجیب کیفیات سے سرشار… ان میں ہر طبقے کے افراد شامل تھے۔ تاجر، پیشہ ور، صنعت کار، ملازم، سیاسی اور سماجی کارکن، طالب علم اور علمائے دین۔ حیران کن بات یہ کہ یہ سب مسلک کے لحاظ سے اہلِ حدیث تھے بلکہ انگریز کی وضع کردہ کرخت اصطلاح میں وہابی، جو پیری فقیری کے قائل نہیں ہوتے۔ ملنگوں اور مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے اس قسم کے دوسرے افراد اور ان کے کاروبار کو تو ان کا ذہن قبول ہی نہیں کرتا۔ ملنگ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں راغب احسن بھی تھے۔ تیس بتیس برس کے نوجوان تھے، قدیم و جدید علوم کے فاضل، بنگال مسلم لیگ کے سیکریٹری تھے۔ لاہور کے تاریخی اجلاس میں بنگالی مندوبین کے ساتھ شریک ہوئے تھے اور اب پوری سرگرمی سے تحریک پاکستان کا کام کررہے تھے۔ ملنگ جب تک کلکتے میں رہا، راغب احسن اُس کے جلو میں رہے۔
یہ ملنگ مولوی فضل الٰہی ہی تھے۔ 1941ء کا پورا سال اسی بھیس میں بنگال اور بہار کا دورہ کرتے ہوئے گزرا۔ جماعت المجاہدین کو ازسرنو منظم کیا، جگہ جگہ جماعت کی شاخیں قائم کیں، صوبہ بنگال کی امارت علامہ راغب احسن کو سونپی۔ اسی زمانے میں راغب صاحب نے مولوی صاحب کی ملاقات قائداعظم اور مسلم لیگ کے بعض دوسرے اکابر سے کروائی۔ امیرالمجاہدین اور ان کے پیشرو 120 برس سے جس مقصد کی خاطر جدوجہد کرتے رہے تھے انہیں اس کی تکمیل پاکستان کی صورت میں ہوتی نظر آئی۔ انہوں نے پاکستان کی حمایت اور اس کے حصول کی جدوجہد میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران 1942ء میں بھیس بدل کر حج کے ارادے سے نکلے۔ راستے میں جگہ جگہ خفیہ پولیس کے کارندوں سے مڈبھیڑ، مکالمے، مباحثے ہوئے، لیکن بچتے بچاتے جدہ پہنچ گئے اور وہاں اٹلی کے سفارت خانے کے ذریعے مسولینی سے رابطے اور ملاقات کے لیے اٹلی پہنچے۔ مسولینی سے ملاقات ہوئی۔ وہ مولانا کے جذبے سے بہت متاثر ہوا۔ اٹلی سے ہی واپس آکر فریضۂ حج ادا کیا۔ حج سے فارغ ہوکر امیرالمجاہدین نے مدینہ منورہ میں حاضری دی۔
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است
1943ء کے اوائل میں امیرالمجاہدین ارضِ حرمین شریفین سے واپس آئے۔ اگلے چار برس انہوں نے سرگرم مگر خاموش جدوجہد میں گزارے۔ ان کی یہ تگ و دو تحریکِ پاکستان کے لیے دینی حلقوں کی تائید حاصل کرنے اور مسلمانوں کو ہندوئوں کے مقابلے میں منظم کرنے پر مرکوز رہی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے دور دراز علاقوں کا سفر کیا۔ انگریزی حکومت کو خبر مل چکی تھی کہ وہ چمرکنڈ سے ہندوستان منتقل ہوچکے ہیں۔ قدم قدم پر متجسس آنکھیں انہیں گھورتی ہوئی ملتیں۔ لیکن سارے خطرات کو انگیز کرتے ہوئے انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ راجپوتانہ، بنگال، بہار، سی۔پی، یوپی اور حیدرآباد دکن تک کا دورہ کیا اور ان علاقوں میں جگہ جگہ جماعت المجاہدین کی شاخیں قائم کیں۔ راغب احسن بنگال کے امیر تھے، حیدرآباد دکن میں نواب بہادریار جنگ نے ان کے ہاتھ پربیعت کی اور امیر المجاہدین نے انہیں دکن کا امیر جماعت بنایا۔ اسی زمانے میں قائداعظم اور دوسرے مسلم لیگی رہنمائوں سے کئی ملاقاتیں کیں، جن میں پاکستان کے مستقبل اور اس میں قائم ہونے والے نظامِ حکومت پر گفتگو ہوئی۔ امیرالمجاہدین نے اس سلسلے میں ایک نظامِ کار بھی پیش کیا جس کی غرض و غایت پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا اور سید احمد شہید اور اُن کے ساتھیوں نے جس مقصد کے لیے خون کے نذرانے دیئے تھے اسے پورا کرنا تھا۔ اس مسودے پر سہروردی صاحب سے کلکتے میں ان کی کوٹھی پر رات ایک بجے سے صبح چار بجے تک بحث ہوتی رہی، پھر اس پر دہلی میں قائداعظم کی کوٹھی پر غور و خوض ہوا اور آخرکار جماعت المجاہدین اور قائداعظم کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی قیادت میں لکھمینیا ضلع مونگیر میں جمعیت العلمائے اسلام کی جو کُل ہند کانفرنس ہوئی اُس میں امیرالمجاہدین بھیس بدل کر شریک ہوئے تھے۔
1946ء کے تاریخ ساز انتخابات میں تحریک مجاہدین کے کارکنوں نے مسلم لیگی نمائندوں کے حق میں انتھک کام کیا۔ امیرالمجاہدین نے ملک کو مختلف منطقوں میں تقسیم کردیا تھا اور ان منطقوں میں اپنے کارکن نامزد کردیئے تھے جو قیام پاکستان کی راہ ہموار کرنے کی مسلمان عوام اور علما میں جدوجہد کررہے تھے۔ بعض کارکن سہروردی، سردار عبدالرب نشتر اور نواب ممدوٹ کے ہم عناں تھے۔ قائداعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو غازی عبدالغنی قصوری کی روایت کے مطابق ایک مجاہد غازی عبدالکریم نے اس حملے کو ناکام بنایا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو امیرالمجاہدین لاہور میں تھے۔ تاریخ کا دھارا مڑ چکا تھا۔ بھارت کی حکومت نے کشمیر کے مہاراجا کے ساتھ سازباز کرکے پاکستان کی شہ رگ پر ہاتھ ڈال دیا، اور اس سازش کا تاروپود بکھیرنے کے لیے کشمیری سردار عبدالقیوم کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے (سردار عبدالقیوم نے امیرالمجاہدین کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی تھی)۔ ادھر پاکستان کی مسلح افواج بھی حرکت میں آگئی تھیں۔ سرحد کے ہزاروں قبائلی بھی میدان میں اتر آئے۔ سری نگر کی طرف بڑھنے والوں میں سید بادشاہ (سید احمد شہید) کے مجاہدین بھی تھے، لیکن کشمیر کے معاہدۂ جنگ بندی کے صدمے نے امیرالمجاہدین کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کی نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ کشمیر ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اب شاید کئی نسلوں کو اپنے بزرگوں کی کم حوصلگی، بے تدبیریوں اور اندھی بصیرت کا کفارہ خون کی صورت میں دینا ہوگا۔ وہ مسلم لیگی قیادت اور اس کے پیدا کردہ حالات سے سخت دل گرفتہ تھے اور مایوسی نے انہیں آلیا تھا۔ مایوسی جو کبھی انگریزوں کے ساتھ لمبے عرصے تک جنگ لڑتے رہنے کے باوجود ان کے قریب نہ پھٹکی تھی، انہوں نے انتہائی تیرہ و تار اور نامساعد حالات میں امید کے چراغ دلوں میں جلائے رکھے تھے، لیکن اب اپنوں کے درمیان جیسے یہ چراغ بجھ کر رہ گئے تھے۔
انہوں نے گزشتہ نو دس برس بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیا تھا، لیکن اب محسوس کررہے تھے کہ وہ منزل ابھی بہت دور ہے جس تک پہنچنے کے لیے سید بادشاہ (سید احمد شہیدؒ) اور اُن کا کاروانِ حق پوری صدی خون میں ڈوبے مصائب سے دوچار سرگرمِ سفر رہا تھا۔ وہ آزاد اسلامی مملکت کو وجود میں لاکر منہاج نبوت پر حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ مملکت تو وجود میں آگئی تھی لیکن اس کے مقصدِ وجود کو پورا کرنا اب بھی باقی تھا۔ اس مقصد کے لیے ان کا معاہدہ قائداعظم سے ہوا تھا اور وہ دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، اور جو لوگ ابھر کر سامنے آرہے تھے اُن سے کوئی امید نہ تھی کہ وہ اس معاہدے کا احترام کریں گے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے مطالبۂ دستورِ اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے مسئلہ کشمیر کی آڑ میں جو پروپیگنڈا کیا گیا تھا، مسلم لیگی لیڈروں کے قرب کی وجہ سے امیر المجاہدین بھی
اس پروپیگنڈے میں آگئے تھے، مگر وقت کے ساتھ حالات جیسے نکھر کر سامنے آتے گئے تھے، انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔
امیر المجاہدین 5مئی 1951ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ سید بادشاہ (سید احمد شہید) کے قافلے کا آخری حدی خوان اپنی وصیت کے مطابق بالاکوٹ کی سرزمین میں اُسی مقام کے قریب دفن کردیا گیا جہاں سید احمد شہید کا جسد شہادت کے بعد چند روز تک مدفون رہا تھا۔ ’’غلطی ہائے عدیم المثال اور مسئلہ کشمیر‘‘ ان کے رشحاتِ قلم میں سے ہیں۔ (مآخذ صوفی محمد عبداللہ، مؤلف محمد اسحاق بھٹی، سید بادشاہ کا قافلہ، از: آباد شاہ پوری)
(بشکریہ: خفتگانِ خاکِ گوجرانوالہ۔ ضلع گوجرانوالہ سے باہر مدفون مشاہیرِ گوجرانوالہ)