!بچوں کے سر پر چوٹ… کہیں خطرناک تو نہیں

”سر! بچہ بالکل ٹھیک لگ رہا ہے، میں نے مکمل طور پر چیک کرلیا، مگر بچے کی ماں پہلے کہہ رہی تھیں کہ گود سے گر گیا ہے، اور اب کہہ رہی ہیں کہ شاید میں نے خواب دیکھا ہے، کیا کروں؟“ رات چار بجے ایمرجنسی روم سے ڈاکٹر مخاطب تھیں۔
بچوں میں سر پر چوٹ کے سلسلے میں والدین روزانہ رابطہ کرتے ہیں، ایمرجنسی روم میں بچے چیک اپ کے لیے لائے جاتے ہیں۔
گود سے گر کر، بستر سے لڑھک کر، اسٹرالر الٹ جانے سے، واکر سے گر کر یا بھاگتے دوڑتے کسی چیز سے ٹکرا کر، موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ، کار ایکسیڈنٹ یا کھیل کے دوران… غرض وجہ کوئی بھی ہو، سر کی چوٹ پر زیادہ پریشانی ہوتی ہے بہ نسبت دیگر کسی جسمانی حصے کی چوٹ کے۔
کب پریشان ہونا چاہیے اور کب پریشانی کی بات نہیں؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں۔ انہیں اگر سمجھ لیا جائے تو بلاوجہ ایمرجنسی روم کے وزٹ سے بچا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلی بات: بچوں میں سر کی چوٹ سے احتیاط کیسے کی جائے؟
بنیادی بات: بچے کو اٹھاتے اور سنبھالتے وقت مکمل توجہ دیں۔
بچے کو اکیلے بستر پر تین ماہ کی عمر کے بعد بالکل بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔
اسٹرالر (Stroller) میں بچوں کے تحفظ کے لیے جو بیلٹس موجود ہیں ان کا درست طریقے سے استعمال کیا جائے۔
واکر بچوں کے لیے محفوظ نہیں ہے، اس بات کو سمجھنا چاہیے۔
موٹر سائیکل پر بچوں کے ساتھ سفر بالکل بھی محفوظ نہیں۔ کار میں بھی پچھلی سیٹ پر بٹھانا یا لٹانا چاہیے۔ کار کی اگلی سیٹ پر یا ڈرائیو کرنے والے کی گود میں بٹھانا انتہائی خطرناک ہے۔
ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر بچے کے سر میں چوٹ لگ جائے تو چند نکات کو سمجھ لیں، آسانی ہوگی:
چوٹ لگنے کے بعد اگر بچہ ٹھیک ہے، تھوڑا سا رویا پھر خاموش ہوگیا، بے ہوش نہیں ہوا، کوئی جھٹکے نہیں پڑے، کوئی بڑی الٹیاں نہیں ہوئیں، مسلسل رو نہیں رہا، دودھ پینے، کھانا کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں، اپنے وقت پر نارمل طریقے سے سو گیا اور اٹھ گیا… اس صورت میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اگر آپ کا ڈاکٹر سے رابطہ ہے تو فون پر ہی ہدایات لی جاسکتی ہیں۔
بے ہوشی اگر ہوئی ہے مگر ایک منٹ سے کم، الٹی اگر صرف ایک مرتبہ ہی ہوئی ہے، کوئی جھٹکے نہیں، رویّے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں… اس طرح کی صورت حال میں ڈاکٹر کو دکھا دینا بہتر ہے تاکہ تفصیل سے معائنہ ہوجائے۔
اس سے ہٹ کر، اگر بے ہوشی ایک منٹ سے زیادہ ہے، مسلسل الٹیاں ہیں، جھٹکے پڑے ہیں،رویہ تبدیل ہے، کھڑے ہونے یا چلنے میں مشکل ہے، مسلسل رونا لگا ہوا ہے، ناک یا کان سے پانی بہنا شروع ہو گیا ہے… اس صورت حال میں فوری طور پر ایمرجنسی روم میں دکھانا ضروری ہے۔
اسی طرح ایکسیڈنٹ کے فوراً بعد یا کھیل کے میدان میں لگنے والی چوٹ پر بھی لازمی ایمرجنسی روم میں معائنہ ضروری ہے۔
عام طور پر کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کو سر پر چوٹ لگے اور بہت تشویش کی بات ہو۔ یہ بھی قدرت کا ایک عطیہ ہے، کیونکہ بچے چلنا سیکھنے اور آگے بڑھنے کے عمل کے دوران بار بار گرتے ہیں اور چوٹ لگتی ہے۔
بچوں میں ایک فیصد سے بھی کم سر کی شدید چوٹ پر لمبی بے ہوشی یا جھٹکے پڑنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ایسا تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے۔ اسی طرح دس فیصد میں ایک سے زائد مرتبہ الٹی ہوتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو بہت ہی کم اس بات کے امکانات ہیں کہ تشویش کی کوئی بات ہو۔
بالفرض محال اگر کوئی تشویش ناک صورت حال ہو بھی جائے جیسا کہ چوٹ لگنے کے بعد اس پورے واقعے سے لاعلمی یا بھول جانا، جس کو Concussion کہا جاتا ہے اور جو بنیادی طور پر چوٹ لگنے سے سر کے اندر دماغ پر خون جمع ہونے کی وجہ سے ہوتا ہےٍ تو اس کو دریافت کرنے کے لیے سی ٹی اسکین کیا جاتا ہے۔
یعنی ہر بار سر پر چوٹ لگنے میں سی ٹی اسکین ضروری نہیں… البتہ اگر چوٹ کے بعد بے ہوشی ایک منٹ سے زائد ہے، مسلسل الٹیاں ہورہی ہیں، جھٹکے پڑ رہے ہیں، رویّے میں واضح تبدیلی محسوس ہورہی ہے، مسلسل رونا بچے کے سردرد یا بے چینی کا اظہار ہے،چلنے میں واضح لڑکھڑاہٹ ہے، واقعہ بھول رہا ہے یعنی Concussion کا شکار ہے، ناک یا کان سے پانی آرہا ہے جو کہ دماغ میں موجود پانی (Cerebrospinal fluid) کے بہنے کی علامت ہے، ان صورتوں میں سی اسکین ضروری ہوجاتا ہے۔
سر کی ہر چوٹ خطرناک نہیں اور خاص طور پر بچوں میں، مگر احتیاط لازم ہے۔
اور اگر اس کے باوجود چوٹ لگ جائے تو اوپر دیے ہوئے معیار پر فوری عمل کریں اور بجائے خوف زدگی میں فیصلے کرنے کے، صرف چند بنیادی نکات پر توجہ دیں تاکہ بلاوجہ ایمرجنسی روم کے وزٹ سے بچا جاسکے، اور وقت اور پیسے کی بچت بھی ہوسکے۔ اور واقعی تشویش ناک چوٹ ہے تو فوراً ایمرجنسی روم میں معائنہ کرائیں اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں۔