رمضان ہمیں قرآن مجید سے وابستگی کا سبق دیتا ہے
رمضان المبارک اپنی تمام رعنائیوں اور بہاروں کے ساتھ جلوہ فگن ہونے کو ہے۔ آئیے پھر ایک بار ہم رمضان کا سبق تازہ کریں۔ اس ماہِ مبارک سے ہمیں کیا کیا سبق ملتا ہے؟ اس ماہ کے تقاضے کیا ہیں؟ اور ہماری زندگی میں ان کا کیا اثر ہونا چاہیے؟ آئیے ہم اپنا احتساب کریں، اپنی عملی زندگی کو اس آئینہ میں دیکھ کر اسے سنوارنے کی کوشش کریں۔رمضان ہمیں مجاہدہ کی تربیت دیتا ہے۔ مجاہدہ سے مراد مشقتوں اور خلافِ طبیعت باتوں کو برداشت کرنا ہے۔ بھوک، پیاس، دوسری خواہشات سے اجتناب، زبان کی حفاظت، رات میں عام معمول سے زیادہ تراویح کی بیس رکعتوں کی ادائیگی، وہ بھی طویل قیام و قرأت کے ساتھ، دن بھر کی فاقہ مستی کے بعد کھانا، کھانے کے بعد نماز، نماز کے بعد کچھ دیر سوکر پھر اٹھ جانا، اﷲ توفیق دے تو چند رکعات تہجد ورنہ کم سے کم سحری، موقع بہ موقع قرآن مجید کی تلاوت… یہ معمولات کا ایسا سلسلہ ہے جو یقینا انسان کو تھکا دینے والا اور اس کے عام مزاج و مذاق کے خلاف ہے۔ اس سے ہماری تربیت ہوتی ہے کہ ہم اپنے اندر خلافِ طبیعت باتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، بلند مقاصد کے لیے تیاری کریں… طوفان ہمارے حوصلے پست نہ کرسکے، آندھیاں ہمارے قدموں کو کم ہمت نہ بنادیں، نامساعد حالات ہمارے لیے زنجیرِ پا نہ بن جائیں، بلکہ اگر ہمارے سفر کی سمت صحیح ہو تو ہم اس کے لیے ہر طرح کی مشکلات اور ابتلاؤں کو سہنے کے لیے تیار ہوں۔ یہ حوصلہ مندی اور آبلہ پائی ہماری شخصی زندگی کے لیے بھی ضروری ہے اور قومی زندگی کے لیے بھی… افرادو اشخاص کے لیے بھی ضروری ہے اور جماعتوں اور تنظیموں کے لیے بھی… کامیابی کسی مادی مقصد کو حاصل کرلینے کا نام نہیں، بلکہ خدا کی خوشنودی کی راہ پر چلنے کا نام ہے۔ اس راہ میں کھونا بھی پانا، اور اس راہ میں مرنا بھی جینا ہے۔رمضان المبارک ہمیں قرآن مجید سے وابستگی کا سبق دیتا ہے۔ اس ماہ قرآن نازل ہوا۔ تراویح نزولِ قرآن ہی کی یادگار ہے۔ شبِ قدر اور اعتکاف کا مقصد بھی نزولِ قرآن کی مبارک شب کو پانا ہے۔ عید الفطر اسی نزولِ قرآن کا جشنِ عام ہے۔ پس یہ مہینہ قدم قدم پر ہمیں قرآن مجید سے مربوط کرتا ہے۔ قرآن محض ایصالِ ثواب اور مُردوں کے لیے بخشش و مغفرت کی کتاب نہیں بلکہ یہ آئینۂ حیات ہے، جس میں ہم اپنی عملی زندگی کی صورت گری کریں اور اس کے خدوخال درست کریں۔ ہم اپنا جائزہ لیں کہ قرآن سے ہمارا تعلق کس قدر کمزور ہوچکا ہے۔ ہم تلاوتِ قرآن کے ذوق سے محروم، قرآن ہم سے کیا کہتا ہے اور کیا چاہتا ہے، اس کے جاننے کی خواہش سے عاری، عملی زندگی میں قرآن کی پیروی کرنے کے بجائے ہماری خواہشات اور مفادات ہمارے رہبر ہیں۔ قرآن پوری انسانیت کے لیے امانتِ خداوندی ہے۔ اس کا حق تھا کہ ایک ایک بندۂ خدا تک اس کتاب کو پہنچایا جاتا، لیکن ہم نے اس امانت کو پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ غرض کہ ہم گو حاملانِ قرآن ہیں لیکن نہ قاریِ قرآن، نہ عامل قرآن، نہ عالم، نہ مبلغِ قرآن… اس سے بڑھ کر اس کتاب کے ساتھ کیا نا انصافی ہوگی! ہمیں چاہیے کہ عہد کریں کہ خود قرآن مجید کی تلاوت کا معمول رکھیں گے، اپنے بچوں اور متعلقین کو تلاوتِ قرآن کا پابند کریں گے، کوشش کریں گے کہ خاندان میں کوئی شخص حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کرے، ہم اپنی عملی زندگی کو قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر استوار کریں گے اور اپنی خواہشات اور وقتی مفاد پر اﷲ کی خوشنودی کو غالب کریں گے، اور قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں گے ۔ اگر ہم عربی زبان سے واقف نہ ہوں تو قرآن کے تراجم اور تفسیروں کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی اس کتاب میں ہم سے کیا فرماتا ہے۔ پھر ہم اس بات کا بھی عزم کریں کہ اپنے اہل تعلق بھائیوں تک قرآن کا پیغام پہنچائیں تاکہ دعوت کی اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہوسکیں جو اﷲ نے خیرِ اُمت ہونے کی حیثیت سے ہم سے متعلق فرمائی ہے ۔رمضان المبارک سے ہمیں مواخات اور غم خواری کا سبق ملتا ہے۔ جب انسان خود بھوکا رہے تو بھوک کی تکلیف محسوس کرسکتا ہے اور اپنے اُن بھائیوں کے دکھ کو سمجھ سکتا ہے فاقہ مستی جن کے لیے معمولات کے درجہ میں ہے۔ اسی لیے آپؐ نے اس مہینے کو ’’شہر المواساۃ‘‘ یعنی غم و خواری کا مہینہ قرار دیا ہے اور اس مہینے کے ختم پر صدقہ فطر واجب قرار دیا گیا، تاکہ اہلِ ثروت مسلمان اپنے غریب بھائیوں کو اپنی مسرت و شادمانی میں شریک کرسکیں۔ یہ سبق سال بھر یاد رکھنے اور یہ عمل ہر دن دوہرانے کا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے کام آئے۔ وہ اس کی مصیبت و پریشانی کو اپنی مصیبت و پریشانی سمجھے۔ وہ اس وقت تک اپنی خوشی کو نامکمل سمجھے جب تک اُس کا بھائی اس خوشی میں شریک نہ ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری زندگی اسلامی اخوت کے اس تصور سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ اہلِ دولت اپنی دولت کے نشے میں سرشار ہیں، امت کے محتاج اور ضرورت مند لوگوں کا انھیں کوئی خیال نہیں، بلکہ ان کی عیش پرستی غریب مسلمانوں کے لیے پریشانیوں کا موجب ہے۔ شادی بیاہ کی فضول رسمیں اور اس میں ہونے والی فضول خرچیاں اصل میں ہمارے مالدار طبقے ہی کی دین ہیں۔ بیچارے کم آمدنی والے لوگ ان شاہ خرچیوں کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں۔ غریب خاندانوں میں پیدا ہونے والے بہت سے ذہین بچے مجبوراً تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، کیوں کہ وہ بڑھتی ہوئی رشوت ستانیوں کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے۔ یہ رشوت کا بازار قوم کے دولت مند طبقہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جن لوگوں کو کچھ معاشی فراغت دی ہو وہ اپنے غریب بھائیوں کا حق محسوس کریں، انھیں اونچا اٹھانے کی کوشش کریں ۔رمضان ہمیں اوقات کی پابندی اور اس کے انضباط کا بھی سبق دیتا ہے ۔ یوں تو اسلام میں تمام عبادتیں وقت سے مربوط ہیں، لیکن روزے میں تو بہت زیادہ انضباطِ وقت کی ضرورت پڑتی ہے۔ رات کے آخری پہر میں بیدار ہونا، صبح صادق سے عین پہلے سحری کھانا، اگر اس میں ذرا بھی تاخیر ہو اور صبح طلوع ہونے کے بعد ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے چلا گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ پھر غروبِ آفتاب کے فوراً بعد افطار کرنا ہے۔ اگر افطار کرلیں تو روزہ درست، نہ ہو اور دیر سے افطار کریں تو کراہت ہے۔ روزہ افطار کرنے اور مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد کھانا کھا کر فارغ ہوئے کہ عشاء کا وقت شروع ہوا۔ اب نمازِ عشاء اور پھر اس کے بعد تراویح پڑھنی ہے۔ اگر اﷲ توفیق دے تو پھر سوکر اٹھنے کے بعد نمازِ تہجد ادا کرنی ہے۔ یہ پورا نظام العمل اس قدر مشغول اور مربوط ہے کہ انضباطِ وقت کے بغیر ان کو انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ یہ وقت کی حفاظت کا بہت بڑا سبق ہے۔ وقت ایسی قیمتی چیز ہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں۔ یہ اﷲ کی بڑی نعمت ہے۔ وقت کی قدر دانی میں دین و دنیا دونوں کی فلاح ہے، اور اس وقت کی ناقدری میں دونوں کا نقصان ہے۔ اب ہمارا حال یہ ہے کہ ہماری تقریبات نہ وقت پر شروع ہوتی ہیں نہ وقت پر ختم… یہاں تک کہ ہماری مذہبی تقریبات اور جلسے وغیرہ بھی وقت پر شروع نہیں ہوتے، نہ معینہ وقت پر ان کو ختم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ رات کے دو ڈھائی بجے تک ہماری تقریروں کا جوار بھاٹا ابلتا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے بھولے بھالے سامعین فجر کی نماز ادا کرسکیں گے۔ یہ وقت کے معاملے میں فضول خرچی اور اسراف ہے، اور یہ مال و دولت کے اسراف سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔ روزہ ہمیں اس بات کا عادی بناتا ہے کہ ہم اپنی خواہش پر اﷲ کی خوشنودی کو غالب کرنا سیکھیں۔ بھوک و پیاس انسان کی ایسی خواہش ہے کہ چند گھنٹے بھی روکنا دشوار ہے۔ صبح سے شام تک بظاہر کوئی طاقت روکنے والی نہیں، کوئی زبان ٹوکنے والی نہیں، اس کے باوجود انسان کھانے پینے سے رکا ہوا ہے، اس سے بڑھ کر اپنی خواہش کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کی اور کیا مثال مل سکتی ہے؟ یہ ایک رسمی عمل نہیں بلکہ تربیتی عمل ہے۔ یہ عمل گو ایک ماہ میں فرض ہے، لیکن یہ اپنی روح اور مقصد کے اعتبار سے ایک ماہ میں محدود نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ یہ کیفیت ہر مسلمان کی زندگی میں سال بھر قائم رہے، ورنہ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ روزے دار نے صرف روزے کی صورت کو پایا ہے نہ کہ روزے کی حقیقت کو۔ اس نے روزے کے قالب کو حاصل کیا ہے نہ کہ اس کی روح کو۔ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانِ حق ترجمان کے مطابق اس نے بھوک و پیاس برداشت کی ہے، حقیقی معنوں میں روزہ نہیں رکھا ہے ۔ہم اپنی عملی زندگی میں بار بار اس امتحان سے گزرتے ہیں، کہ ہمیں خدا کی فرماں برداری عزیز ہے یا نفس کی تابع داری۔ اﷲ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی مطلوب ہے یا سماجی شہرت و ناموری۔ نکاح کی تقریبات میںکتنی ہی خلافِ شرع باتوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی، بے پردگی، مرد و عورت کا اختلاط، فضول خرچی، لڑکے اور اس کے خاندان کی طرف سے مختلف مطالبات، ولیمہ میں بے جا اسراف… عام طور پر یہ سارے گناہ سماجی عزت، جھوٹی شہرت اور متعلقین کی خوشنودی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ گویا خدا کی ناراضی کی قیمت پر خلقِ خدا کی خوشنودی خریدی جاتی ہے۔ ایسے موقع پر روزہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مومن نے خدا کی خوشنودی کے بدلے اپنی خوشنودی کا سودا کرلیا ہے، اس لیے اس کو یہ بات قطعاً زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے جیسے انسانوں کی مرضی پر چل کر خدا کو ناراض کرے۔ قرآن نے سود کے حرام ہونے کا اعلان کیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت سختی کے ساتھ نہ صرف سود لینے، بلکہ سود سے متعلق ہر طرح کے تعاون کو منع فرمایا، لیکن آج مسلمان اہلِ ثروت بے تکلف سود حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگ تو وظیفہ یاب ہونے کے بعد اپنی آخری زندگی اس سود پر گزارتے ہیں۔ کس قدر افسوس ناک ہے کہ بڑھاپے میں گناہ کرنے والے بھی گناہ سے باز آجاتے ہیں اور توبہ کی راہ اختیار کرتے ہیں لیکن یہ ایسے محروم القسمت ہیں کہ زندگی بھر محنت کی حلال کمائی کھا کر آخری وقت سود خواری میں گزارتے ہیں۔ جس شخص کا یقین اﷲ کی رزاقیت پر ہو اور نفس کی خوشنودی پر خدا کی خوشنودی کو غالب رکھنے کی لذت اور حلاوت سے آشنا ہو، وہ بھلا آخر عمر میں اس سود خوری کو کیسے اختیار کرسکتا ہے؟ یہی مواقع ہیں جن میں انسانیت کی ضبط نفس کی قوت کا امتحان ہوتا ہے، کہ روزے نے صرف اسے بھوکا پیاسا رکھا ہے، یا اس میں روحانی اور اخلاقی انقلاب بھی پیدا کیا ہے؟