تحریک عدم اعتماد پارلیمان سے پہلے سڑکوں پر اور عدلیہ میں

حکومت کے ”سرپرست“ مداخلت کریں گے؟

جمہوری معاشروں میں حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں منتخب ایوانوں میں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ٹھوس دلائل پر مبنی بحث مباحثے کے بعد خوش اسلوبی سے نمٹا دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ماضی میں یہ راستہ چنا گیا۔مگر اِس مرتبہ تحریک انصاف کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی جو تحریک پیش کی گئی ہے اور معاملہ پارلیمنٹ سے زیادہ سڑکوں اور عدالتوں میں چلے جانے کی نوبت آگئی ہے۔ ملک کا سیاسی منظر ہر لمحے بدل رہا ہے، ذہنوں میں طرح طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔ اسپیکر کو عدم اعتماد کی تحریک پر غور کے لیے قومی اسمبلی کا جو اجلاس آئینی پابندی کو ملحوظ رکھ کر 21مارچ کو بلانا تھا، وہ انہوں نے 25 مارچ کو طلب کیا ہے، اور اس کے لیے جو تاویل پیش کی ہے اپوزیشن اسے قبول نہیں کررہی، قانونی ماہرین اسے آئین شکنی قرار دے رہے ہیں اور اسپیکر کے خلاف بھی ہوا کا رخ مڑتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔ تحریک انصاف کے ناراض اراکینِ اسمبلی کو اپوزیشن کے حق میں ووٹ کے استعمال سے روکنے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کردیا ہے، منحرفین کے گھروں پر پُرتشدد مظاہرے بھی ہورہے ہیں، انہیں بے ضمیر کہا جارہا ہے اور وزیراعظم انہیں واپس لانے کے جتن بھی کررہے ہیں۔ سو فی صد یقینی بات ہے کہ ان کے بغیر عدم اعتماد کی تحریک کا ناکام ہونا اور حکومت کا چلنا ناممکن ہے۔ ناراض ارکان کے سامنے تین ہی راستے ہیں: حکومت کو ووٹ دیں، اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوجائیں، یا عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے کر ریفرنس کا سامنا کریں۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو یا ناکام… ملک کا سیاسی ماحول تہہ و بالا ہوکر رہے گا۔اپوزیشن کے پاس واپسی کا راستہ نہیں، اور تحریک انصاف کو اقتدار تک لانے والے غیر جانب داری کا نعرہ لگا کر پھنس گئے ہیں۔ کوئی معجزہ ہی تینوں کو مشکل سے باہر نکال سکتا ہے۔ یہ معجزہ آئین کی صورت میں موجود ہے، آئین کہتا ہے کہ فوج، بیوروکریسی، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کریں۔ اس کے اندر رہے تو سیاسی استحکام کی ضمانت مل سکتی ہے، انحراف کی صورت میں کوئی بھی اپنے اعمال کی گرفت سے بچ نہیں سکے گا۔ اسپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس آئین سے ماورا بلانے پر اپوزیشن کے احتجاج کو رد کردیا ہے۔
ملک اس وقت سیاسی ہیجان میں مبتلا ہے، اپوزیشن کی تین پارلیمانی جماعتیں عمران خان کے خلاف صف آرا ہیں اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے تحریکِ عدمِ اعتماد کا سہارا لے رہی ہیں، جس کے تحت اسی ماہ کے آخر میں رائے شماری ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا گیا ہے۔ یہ اجلاس اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی ریکوزیشن پر طلب کیا گیا ہے۔ یہ موجودہ قومی اسمبلی کا اکتالیسواں اجلاس ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل 54 کی ذیلی شق 3 کے تحت یہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی غرض سے حزب ِاختلاف کی جماعتوں کے طلب کردہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی میعاد 21 مارچ کو مکمل ہوگئی تھی، یہ اجلاس اس تاریخ تک طلب کرنا ضروری تھا۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے بچانے کے لیے او آئی سی اجلاس کا سہارا لینا چاہ رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے 8 مارچ کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی ریکوزیشن اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی تھی۔ آئین کے آرٹیکل 54 کے تحت اسپیکر قومی اسمبلی ریکوزیشن کیا گیا اجلاس 14 روز میں طلب کرنے کے پابند ہیں۔ وزیراعظم کے خلاف جمع ہونے والی تحریک عدم اعتماد پر قاعدہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے بعد سیکرٹری عدم اعتماد کی قرارداد کا نوٹس بھیجیں گے، اور قرارداد کو اگلے دن پیش کیا جائے گا۔ قواعد کے مطابق قرارداد پر ایوان میں پیش ہونے کے تین دن کی میعاد ختم ہونے سے پہلے یا سات دن بعد ووٹنگ نہیں کی جاسکے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کو ایوان میں ناکام بناتی ہے یا اب سیاست شاہراہ دستور پر ہوگی؟
اسلام آباد میں پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے، حتمی تجزیہ یہی ہے کہ ملکی سیاست میں ضمیر، اصول اور جمہوری سیاسی رویّے نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سب کچھ کٹ اینڈ پیسٹ سے چل رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی یہی ہورہا ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے ضمیر کی خود تشریح کرکے صف بندی کررہا ہے، جو ارکانِ اسمبلی چہروں پر نقاب ڈال کر چھپ رہے ہیں یا چھپائے جارہے ہیں، یہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہورہا ہے۔ تحریکِ انصاف کے منحرف یا باغی ارکانِ قومی اسمبلی کے منظرعام پر آجانے کے بعد ملک کے سنجیدہ حلقوں میں یہ رائے پائی جارہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت سیاسی اور اخلاقی طور پر ختم ہوچکی ہے، اس کے لیے صرف آئینی کارروائی کا مکمل ہونا باقی ہے۔ سیاسی تصادم میں اضافہ ہورہا ہے جس سے غیرجمہوری قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا ہے، پارلیمنٹ سے باہر کی جنگ کا کوئی فائدہ نہیں، یہ رویہ غیر جمہوری سمجھا جائے گا۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد آئی تھی، جو ایوان کے اندر ہی ناکام بنائی گئی تھی۔ تحریک انصاف کا یہ سیاسی اور جمہوری حق ہے کہ وہ اپنے ناراض ارکان کو منائے، دوبارہ اپنی حمایت پر راضی کرے۔ اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر یہ بالکل مناسب نہیں کہ منحرف اور باغی ارکان کا گھیرائو کیا جائے۔ باغی ارکان اگر ووٹ نہ دینے کے فیصلے پر قائم رہے تو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجائے گی۔ حکومت تحریک عدم اعتماد غیر مؤثر بنانے یا اسے مؤخر کرنے کے لیے قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرسکتی ہے، لیکن آئین سے انحراف نہیں کر سکتی۔
آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی تشریح کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئینی ماہرین کی رائے کے مطابق منحرف ارکان کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا اور ان کا ووٹ شمار بھی ہو گا۔ اگر سپریم کورٹ کی تشریح بھی اس سے مختلف ہوئی تو تحریک عدم اعتماد سے متعلق آئینی اسکیم کی بھی ازسر نو تشریح کرنا ہو گی۔ عمران خان حکومت بنانے اور اسے اب تک قائم رکھنے سے متعلق اپوزیشن کا ایک مؤقف رہا ہے اورا س پر مسلسل بحث ہورہی ہے۔ کھلم کھلا یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ جب تک عمران حکومت کو سپورٹ حاصل ہے، اسے کوئی نہیں گر ا سکتا۔ حلیف جماعتیں اور تحریک انصاف کے متعدد ارکانِ اسمبلی بھی وزیراعظم کے غیر سیاسی مزاج اور متکبّرانہ رویّے کے شاکی ہیں، ان میں جہانگیر ترین اور علیم خان کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ عام سیاست دان سے وزیراعظم بنانے میں جس نے بھی مدد کی وہ بھی ضد، اکھڑپن اور ہٹ دھرمی کے باعث پریشان ہوا۔ جنہوں نے تجربہ کار اپوزیشن کوباندھ کر رکھا انہیں بھی حکومت نے شرمندہ کرایا۔ لہٰذا اب فیصلہ یہی ہے کہ جو حد آئین نے مقرر کی ہے اس کی پاس داری کی جائے۔ پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آئندہ ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔ سیاست دان جس سہولت کاری کو چراگاہ سمجھتے رہے ہیں یہ اب خشک ہورہی ہے،ملکی سیاسی بحران کے حل میں مدد کے لیے غیر جانب دار کو فریق کی حیثیت سے حصہ دار بنا کر معاملات حل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ حکومت کے متعدد اہم عہدیداروں نے اب تک جو ملاقات کی ہے اس کے ان کے لحاظ سے مثبت نتائج نہیں مل سکے ہیں، کوشش یہ ہورہی ہے کہ قومی کاز کے لیے ملک کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے تاکہ معیشت اور گورننس بہتر بنائی جاسکے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو کسی کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتا اُس کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ حکومت اور اپوزیشن کے مابین جب بھی بامقصد اور باضابطہ بات چیت ہوگی اُس میں قائد حزبِ اختلاف اور قائدِ ایوان کا بیٹھنا لازمی ہوگا۔ آئین کے مطابق نیب کے سربراہ، الیکشن کمیشن کے سربراہ کے علاوہ نگران حکومت کے قیام کے لیے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کا باہم مل کر بیٹھنا اور بامعنی بات چیت کرنا بنیادی شرط ہے۔ تاہم ساڑھے تین سال کے دوران وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے مابین ملاقات تو کیا، رسمی طور پر ہاتھ تک نہیں ملایا گیا، بلکہ جہاں تک ممکن ہوا گریز کیا گیا، حتیٰ کہ بعض ایسے مواقع بھی تھے کہ دونوں عہدیدار ایک چھت کے نیچے تھے مگر اس کے باوجود رسمی طور پر بھی سلام دعا نہیں کی گئی، یہی کہا جاتا رہا کہ چوروں سے ہاتھ نہیں ملایا جائے گا۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کس طرح دو فریقوں کو ملا کر بٹھایا جائے! کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہیں۔ اپنے ساڑھے تین سال کے دورِ حکومت میں وزیراعظم عمران خان ایک مرتبہ بھی اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھے۔ اب جب کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لاچکی ہے اور میدان مارنے کے لیے تل گئی ہے تو امکان نہیں کہ دونوں فریق بات چیت کے لیے آمادہ ہوں۔ 2018ء کے الیکشن کے فوراً بعد شہبازشریف اور آصف زرداری نے ایوان میں کھڑے ہوکر اتفاق رائے کے ساتھ گورننس اور معیشت وغیرہ کے لیے پالیسیاں مرتب کرنے کے معاملے میں حمایت دینے کی پیشکش کی تھی، لیکن حکومت نے ان کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا تھا۔ اس کے بعد بھی اسمبلی میں آرمی چیف کی توسیع، ایف اے ٹی ایف، اور پانچ اگست کے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کے اقدام کے وقت تین ایسے مواقع آئے جب اپوزیشن نے غیر مشروط حمایت فراہم کی، مگر اس وقت حکومت نے یہی کہا کہ اپوزیشن کو یہ کام کرنا ہی کرنا تھا، اس نے حکومت پر کوئی احسان نہیں کیا۔ یوں دونوں کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی رہے۔ اب عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاچکی ہے، اس کا نتیجہ چاہے کچھ ہو، اس کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات مزید خراب ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں اپنا مزاج تبدیل نہیں کریں گی بلکہ سخت مؤقف بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ حکومت کے متعدد اہم افراد ابھی گاجر اور چھڑی کی پالیسی کے سہارے چل رہے ہیں، مسئلے کے حل کے لیے رابطے بھی کررہے ہیں اور بیانات بھی داغ رہے ہیں۔ صورت حال انتہائی پریشان کن ہے۔ حالات جیسے جیسے آگے بڑھیں گے مسائل بھی بڑھ جائیں گے۔ ملک کی معیشت، گورننس، احتساب اور عدالتی نظام جیسے بنیادی معاملات کو درست کرنے کی خاطر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ایک جگہ بٹھاکر قومی ایجنڈے کے لیے رضامند کرنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو شامل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ کسی بھی طرح کے تنازعات سے بچنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ ایسا کوئی بھی کردار ادا کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ تاہم، جو اسے کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح دو فریقوں کو ملا کر بٹھایا جائے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہیں۔ اپنے ساڑھے تین سال کے دورِ حکومت میں وزیراعظم عمران خان ایک مرتبہ بھی اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھے۔انہوں نے اپوزیشن والوں کو نظرانداز کیا، حتیٰ کہ قومی اہمیت کے حامل معاملات پر بات چیت کے لیے منعقدہ اجلاسوں میں بھی اپوزیشن والوں کے ساتھ نہیں بیٹھے۔ ایسے موقع پر جب اپوزیشن والے سمجھتے ہیں کہ میدان عمران خان کو نکال باہر کرنے کے لیے سج چکا ہے، امکان نہیں کہ عمران مخالف سیاسی قوتیں عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ سامنے آنے تک ایسی کسی کوشش کے لیے آمادہ ہوں گی۔ ان کوششوں میں مصروف ذرائع نے بتایا ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کیا ہے لیکن کوئی واضح جواب نہیں ملا، جو تحریک انصاف کے سرپرست سمجھے جاتے ہیں اب وہ اپنی ترجیحات تبدیل کرچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی معاملات سے دور ہی رہا جائے۔ تاہم کوشش جاری ہے کہ وہ اکھاڑے میں داخل ہوجانے پر راضی ہوجائیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اور اپوزیشن والوں کو ایک ساتھ ایک جگہ کیسے بٹھایا جائے؟ اپوزیشن میں شہبازشریف تو فاختہ ہیں، اصل مسئلہ تو اپوزیشن کے عقابوں کا ہے جنہوں نے 2018ء کے الیکشن کے فوراً بعد ایوان میں کھڑے ہوکر اتفاقِ رائے کے ساتھ گورننس اور معیشت وغیرہ کے لیے پالیسیاں مرتب کرنے کے معاملے میں حمایت دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اس وقت حکومت نے ان کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا تھا۔حکومت کے چنداہم عہدیداروں نے گزشتہ ہفتے رابطہ کرکے کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی مگر انہیں مثبت جواب نہیں ملا تھا۔ انہیں جاری صورت حال پر پریشانی تو ہے تاہم وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے حق یا مخالفت کے پلڑے میں اپنا وزن نہیں ڈالنا چاہتے۔ حکومت کی خواہش ابھی تک ہے کہ وہ آجائیں اور معاملہ حل کرائیں، مگر یہ کام اچھے ثالث اور ضامن کے بغیر ممکن نہیں رہا۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان کا مستقبل کیا ہے؟ وہ سیاست کی ایک تلخ یاد بن کر قصۂ ماضی ہوجائیں گے، یا یہ بحران انہیں مزید مضبوط کردے گا؟ عمران خان اپنی بائیس سالہ جدوجہد کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ اس بائیس سالہ جدوجہد کے چار مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ جب انہوں نے سیاست میں کرپٹ پریکٹس کے حامل سیاسی کرتا دھرتا گروہ کو چیلنج کیا، دوسرا مرحلہ جب وہ پرویزمشرف کے ریفرنڈم کی حمایت میں باہر نکل آئے، اور اقتدار کے لیے ان کی پیش کش ٹھکرا دی مگر جلد ہی لاہور کے جلسے کی شکل میں سب کچھ گلے لگالیا، تیسرا دور وہ، جب انہوں نے اقتدار کے لیے اپنے تمام بیانیے کو ملیامیٹ کرکے سیاست کے الیکٹ ایبل چن لیے، اور چوتھا مرحلہ یہ کہ جب انہیں کسی سرپرستی کے بغیر عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف تنہا کھیلنا پڑا۔ ان چاروں مراحل کے نتائج بھی اب سب کے سامنے ہیں اور فیصلہ بھی۔ کہاں ان کی سیاست کا پہلا دور، جس میں صرف حسرت ہی تھی۔ پھر وقت بدلا اور ان کا ہاتھ تھام لیا گیا جس کے بعد تحریک انصاف سونامی بن گئی۔ اقتدار میں آئی تو نہ کوئی غم، نہ پریشانی، نہ ذمہ داری کا کوئی بوجھ، نہ دردمندی اور معاملہ فہمی… جہاں اور جب جب ضرورت پڑی حزب اختلاف ایوان میں ہر لازمی قانون سازی میں ووٹ کرتی رہی۔ یہ موسم تمام ہونے کو ہے، نیا موسم طے کرے گا کہ مستقبل کا عمران خان کیسا ہوگا؟ سیاسی بصیرت موجود ہو تو سیاست ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے سیاسی معاشرے میں مظلومیت ایک طاقت ہے، ڈھنگ سے اس کا پرچار کرلیا تو فیصلہ ہوجائے گا کہ یہ ہر وکٹ پر کھیل سکتا ہے یا نہیں۔