اسلامی تعاون تنظیم وزرائے خارجہ اجلاس

پاکستان کی میزبانی میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا 48 واں اجلاس ہوا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے غیر ملکی رہنماؤں کا استقبال کیا۔ اجلاس شروع ہوا توOIC اجلاس کی صدارت شاہ محمود قریشی کے سپرد ہوئی۔ گزشتہ اجلاس میں یہ منصب نائیجر کے پاس تھا۔ نائیجر کے وزیرِ خارجہ نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی صدارت سپرد کردی، جس کے بعد پاکستان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کی صدارت سنبھال لی۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کے 48 ویں اجلاس کا تھیم اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری ہے۔ اجلاس میں تمام 57 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ، مبصرین اور مہمان شریک ہوئے۔ کانفرنس سے ایک روز قبل آرمی چیف کی سعودی وزیر خارجہ سے اہم ملاقات ہوئی۔ عالمی سطح پر دہشت گردی اور تنازعات کا حل کانفرنس کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی پُرزور مذمت کی جائے گی۔ او آئی سی کی کانفرنس میں کشمیر، فلسطین، اسلامو فوبیا، اُمّہ کے اتحاد سمیت 140 قراردادیں ایجنڈے میں شامل تھیں۔ اجلاس میں افغانستان میں جاری انسانی بحران، یمن، سوڈان، لیبیا اور شام کی صورتِ حال پر غور کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی او آئی سی اجلاس کے لیے اپنا ویڈیو پیغام جاری کیا جسے سراہا گیا، انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو کئی محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے، ہم مل کر ان چیلنجز سے نمٹ سکتے ہیں۔ سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو سماجی عدم مساوات سمیت کئی خطرات کا سامنا ہے، او آئی سی دنیا میں امن، سلامتی اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کررہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 48 ویں اجلاس سے کلیدی خطاب کیا اور کہا کہ اسلام کا کسی طور بھی دہشت گردی سے تعلق نہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے او آئی سی ارکان کو اسلامو فوبیا کے خلاف قرارداد کی منظوری پر مبارک باد پیش کی اور کہا کہ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دیا ہے، 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ کرکے نمازیوں کو شہید کیا گیا، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو دہشت گردی سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی 2 ارب مسلمانوں کی مشترکہ آواز ہے، مسلم امہ کے درمیان مضبوط تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے ہم نے خصوصی نمائندہ مقرر کیا، ٹرسٹ فنڈ بنایا گیا، افغانستان کی معیشت کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا، افغان حکومت کو داعش، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے، انسانی بحران سے بچنے کے لیے پاکستان نے افغانستان پر او آئی سی کے خصوصی اجلاس کی میزبانی کی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی مسلم امہ کے اتحاد اور یک جہتی کے لیے کام کررہی ہے، پاکستان او آئی سی کے کردار کو مزید مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔ دنیا کو ہنگامہ خیز صورتِ حال کا سامنا ہے، مسلمان ممالک میں بیرونی مداخلت جاری ہے، مشرق و مغرب کے درمیان کشیدگی سے عالمی امن کو خطرہ ہے، فلسطین کے عوام کو اُن کا حق نہیں دیا جارہا۔ ہم نے اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھائی، اقوامِ متحدہ نے ہماری آواز پر 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کا دن مقرر کیا، اسلاموفوبیا کے حوالے سے او آئی سی کے نمائندۂ خصوصی کا تقرر اہم ہوگا، اسلامی تعاون تنظیم کے ذریعے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی وضع کی جاسکے گی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دنیا میں تنازعات کا بڑا حصہ مسلم ملکوں میں ہے، دنیا کے دو تہائی مہاجرین کا تعلق 5 مسلم ممالک سے ہے، مسلم اُمّہ کو اس صورتِ حال میں ایک مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ کشمیری اور فلسطینی گزشتہ 7 دہائیوں سے قبضے کا شکار ہیں، کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کُشی جاری ہے، 9 لاکھ بھارتی فوجی کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھا رہے ہیں، ہندو توا کے کنٹرول کے تحت بھارتی مسلمان خطرے میں ہیں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں، آر ایس ایس اور ہندو توا نظریات کی حامل بی جے پی حکومت بھارت میں مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی ممالک کو جامع ترقی کی حکمتِ عملی ترتیب دینی چاہیے، بطور رکن پاکستان مسلم ممالک کے درمیان رواداری کو فروغ دے گا۔ تنازعات کے باعث ترقی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ مسلم دنیا کو مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کا سامنا ہے، مسلم ممالک میں تنازعات کے خاتمے کے لیے امہ کے درمیان تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے، مسلم دنیا کو اپنی نوجوان آبادی کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے 2022ء کو نوجوانوں کا سال قرار دیا ہے، او آئی سی کو50 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مسلم ممالک بے امنی اور تنازعات کا شکار ہیں، توقع ہے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس امہ میں امن و سلامتی کے لیے کردار ادا کرے گا، کرپشن اور سرمائے کی غیر قانونی منتقلی کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے، ترقی میں شراکت داری اہم قدم ہوگا، او آئی سی ممالک میں تجارت کو مزید فروغ دینا ہوگا۔ مسلم دنیا کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی پر توجہ دینی ہے، ماحولیات کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانی ہے، کورونا کے خلاف بلا تفریق سب کی ویکسی نیشن ضروری ہے۔ فلسطین کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پسماندگی، غربت اور کرپشن معاشرے کے لیے بڑا خطرہ ہیں، مسلم امہ کو ترقی کے لیے مشترکہ تحقیق اور تربیت کے منصوبوں پر توجہ دینا ہے۔
او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائیجر کے وزیر خارجہ نے کہا کہ وزرائے خارجہ اجلاس کے انعقاد پر پاکستان کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اسلامی ترقیاتی بینک کے سربراہ اور جی سی سی کے وفد نے بھی اجلاس میں شرکت کی، انصاف اور مساوات کی بنیاد پر شراکت داری پائیدار ہوتی ہے، امہ کو دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے خطرات کا سامنا ہے، او آئی سی کا مقصد تمام ممالک میں استحکام کا فروغ ہے۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہترین مہمان داری پر پاکستان کے مشکور ہیں، او آئی سی اجلاس کی صدارت سنبھالنے پر پاکستان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یمن تنازعے سے وہاں کے عوام بری طرح متاثر ہورہے ہیں، وہاں خونریزی فوری بند ہونی چاہیے، یمن مسئلے کا پُرامن اور پائیدار حل ضروری ہے، وہاں کی صورتِ حال پر او آئی سی کے شدید تحفظات ہیں، یمن مسئلے کے حل کے لیے سعودی عرب کی کوششوں کو سراہتے ہیں، حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب اور یمن میں شہری آبادی پر حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ سیکرٹری جنرل او آئی سی کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِِ خود ارادیت دیا جائے، بھارت کا 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام عالمی قوانین کے منافی ہے، او آئی سی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے تنازعے کے حل پر زور دیتی ہے۔ ان کامزید کہنا تھا کہ افغان حکام اور عالمی پارٹنرز کے ساتھ مل کر افغان امن کی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے، افغان امن کے لیے عالمی برادری سے رابطے میں ہیں، افغانستان پر او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس کامیاب رہا، او آئی سی کو افریقہ کے لیے نمائندۂ خصوصی مقرر کرنے کی ضرورت ہے، روہنگیا مسلمانوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور ان کی باعزت وطن واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں، فلسطین کے عوام کی نسل کُشی کے اقدام کی مذمت کرتے ہیں، مسلم اُمّہ کے مفادات کا دفاع کرتے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ او آئی سی کی اوّلین ترجیحات میں سے ایک ہے، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا فیصلہ کیا، توقع ہے کہ اس دن کو منانے سے مذاہب کے درمیان ہم آہنگی فروغ پائے گی، جنیوا کنونشن اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق شام کے مسئلے کا پُرامن حل چاہتے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کا او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا کے خلاف قرارداد منظور ہونا مسلم امہ کی کامیابی ہے، اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں معاون ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر ٹرسٹ فنڈ کا قیام خوش آئند اقدام ہے، ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے نقل مکانی کرنے والے افراد کی مدد کی جاسکے گی، سعودی عرب اُمّہ کے درمیان تعاون کو اہمیت دیتا ہے۔ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ افغان عوام کی مزید امداد اور ان کے تمام بنیادی انسانی حقوق کی حمایت کرتے ہیں، آزاد و خودمختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں، عالمی قراردادوں کے مطابق فلسطین کے مسئلے کا پُرامن حل چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حوثی گروپ پر دبائو بڑھانے پر زور دیتے ہیں، یمن کے عوام کو انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کررہے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حمایت کرتے ہیں، بین الاقوامی قوانین
کے مطابق کشمیر کے مسئلے کے حل کی حمایت کرتے ہیں، مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ او آئی سی کے وزرا ئے خارجہ کونسل کے اجلاس میں اپنے ملک اور ایشیا گروپ کی نمائندگی کرنے والے قازقستان کے نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فیک نیوز مذہبی اور نسلی منافرت کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتِ حال پر تشویش ہے، ممالک کے درمیان ایک دوسرے پر انحصار بڑھ رہا ہے، پاکستان کو بہترین میزبانی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، مسلم امہ میں اتحاد و اتفاق اور چیلنجز سے نمٹنے کی مشترکہ حکمتِ عملی ضروری ہے، یک طرفہ اقدامات اور ملٹری ایکشن دنیا کو مزید خطرات سے دوچار کررہے ہیں۔ قازقستان کے نائب وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ قازقستان میں نیو قازقستان کے نظریے کو فروغ دیا جارہا ہے۔