اسلاموفوبیا…مسلمانوں کو خطرہ یا مسلمانوں سے خطرہ؟

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے Organization of Islamic Cooperation (او آئی سی) کی جانب سے ایک قرارداد منظور کرلی جس میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 15 مارچ کو یومِ تدارکِ اسلاموفوبیا (Day to Combat Islam phobia)قرار دیا گیا۔
اس موضوع پر گفتگو سے پہلے لفظ ”اسلاموفوبیا“ کی تشریح و توضیح ضروری ہے۔ یہ ”اسلام“ اور یونانی لفظ ”فوبیا“ کا مرکب ہے۔ فوبیا کے معنی خوف کے ہیں۔ ہماری عمر کے لوگوں نے ہائیڈروفوبیا یا آب ترسی کا نام سنا ہوگا۔ یہ کیفیت ایسے کتے کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے جسے rabiesکا متعدی مرض ہو۔ اس کے نتیجے میں اشتعال آمیز ہیجان پیدا ہوتا ہے اور مریض پانی کو دیکھ کر خوف سے چیخنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کو Hydro Phobia (پانی کا خوف) کہتے ہیں۔
اس ترکیب کے مطابق اسلاموفوبیا کا مطلب ہوا: اسلام کا خوف۔ حالانکہ خوف میں خود مسلم امت مبتلا ہے۔ کئی مسلم ممالک سمیت دنیا کے بڑے حصے میں مسلمان خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت نہیں۔ امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک جہاں حجاب پر قانونی قدغن نہیں وہاں بھی بچیوں کے سر سے اسکارف نوچنے اور باحجاب خواتین پر آوازے کسنے کی وارداتیں عام ہیں۔ عام انتہا پسندوں کا کیا ذکر، خود برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن صاحب ہجو اڑاتے ہوئے برقع پوش خواتین کو ”چلتا پھرتا لیٹر بکس“ (Letter Box) کہہ چکے ہیں۔ چینی صوبے سنکیانگ میں عبادت، غذا اور لباس سمیت سلام جیسی بے ضرر ثقافتی رسم بھی نشانے پر ہے۔
ایسی مظلوم و مقہور اقلیت سے کسی کو کیا خوف ہوسکتا ہے؟ یہ خوف دراصل اس شیطانی پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کے مطابق مسلمان ایک چلتا پھرتا خودکش بمبار ہے۔ تربیت کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی جاتی ہے کہ ہر فلسطینی دہشت گرد ہے اور طرزِعمل سے لبرل، آزاد خیال بلکہ دین بیزار نظر آنے والے شخص کی ذہنی حالت بھی کسی وقت اچانک تبدیل ہوسکتی ہے۔ فوبیا کی ایک کیفیت امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں میں پائی جاتی ہے جنھیں سیاہ فاموں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں خود سابق صدر اوباما نے کہا کہ سڑک پر انھیں آتا دیکھ کر سفید فام خواتین کے ہاتھ بے اختیار اپنے پرس کی طرف چلے جاتے تھے۔
اسلاموفوبیا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف دورِ حاضر کی ایک بدترین کارروائی 15 مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہوئی جب ایک مسلح سفید فام برینٹن ہیریسن ٹیرینٹ (Brenton Harrison Tarrant)نماز جمعہ سے کچھ پہلے مرکزی جامع مسجد النور میں داخل ہوا۔ اُس وقت ڈیڑھ سو کے قریب نمازی جمعہ کی پہلی اذان کے بعد سنت و نوافل میں مصروف تھے۔ 28 سالہ برینٹن نے مسجد میں داخل ہوتے ہی اندھادھند فائرنگ کرکے 47 نمازیوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کردیا۔ اس دوران یہ وحشی فیس بک پر ساری کارروائی براہ راست نشر کرتا رہا جو اس کے خیال میں صلیبی تہذیب کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم تھا۔ مسجد النور میں خون کی ہولی کھیلنے کے بعد برینٹن پانچ کلومیٹر دور لن وڈ اسلامک سینٹر(Linwood Islamic Centre)پہنچا اور پارکنگ لاٹ میں فائرنگ کرکے مسجد جانے والے چار نمازیوں کو شہید کردیا۔ فائرنگ کی آواز پر ایک افغان نوجوان عبدالعزیز وہاب زادہ مسجد سے باہر آیا۔ نہتا عبدالعزیز، برینٹن پر جھپٹ پڑا جو گولیاں ختم ہوجانے پر اپنی کار سے دوسرا پستول نکال رہا تھا۔ اس مزاحمت پر برینٹن نے راہِ فرار اختیار کرلی۔
اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم محترمہ جیسنڈا آرڈرن (Jacinda Ardern)کا رویہ انتہائی مثبت رہا۔ وہ اسکارف اوڑھ کر مسجد النور آئیں اور جذباتی انداز میں اپنے اسکارف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں ”جو تہذیب ڈیڑھ میٹر کپڑے کے اس ٹکڑے سے خوف زدہ ہے اس کمزور تہذیب کو باقی رہنے کا حق نہیں، نیوزی لینڈ اور مسیحی اقدار و ثقافت کا طرئہ امتیاز تنوع ہے اور اسلام سمیت تمام مذاہب کو ہم دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہر شخص کو اپنے عقیدے پر رہنے، اس کی پُرامن تبلیغ اور اپنی تہذیب و ثقافت کے اظہار کا حق ہے، اور اس حق کا تحفظ حکومت، ہماری فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقدس فریضہ ہے۔“
اس واقعے کے ڈھائی ماہ بعد 31مئی کو مکہ مکرمہ میں او آئی سی کی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی، جو ادارے کی تشکیل کی 50 ویں سالگرہ تھی۔ اجلاس میں اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے 15 مارچ کے شہدا کی یاد میں عالمی دن منانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، ملائشیا کے محضیر (مہاتیر) محمد اور ترک صدر طیب اردوان نے متعدد بار انتہائی سختی سے اسلاموفوبیا کی مذمت اور حرمتِ رسولؐ کے تحفظ کے لیے عالمگیر قانون سازی پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل دو سال سے 15 مارچ کو خصوصی ویڈیو پیغام جاری کررہے ہیں۔
روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے گزشتہ سال 22 دسمبر کو سالانہ اخباری کانفرنس میں توہین ِرسالت اور اسلام فوبیا کا خصوصی ذکر کیا۔ روسی صدر ہر سال کے اختتام پر صحافیوں سے گزرنے والے سال کے دوران اپنی حکومت کی کارکردگی اور اہم عالمی امور پر روس کے سرکاری بیانیے کی وضاحت و تشریح کرتے ہیں۔ اِس بار صدر پیوٹن نے مسلمانوں سے عالمی برادری کے سلوک پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”پیغمبرِ اسلام سے گستاخی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور اسلام کے پیروکاروں کے مقدس احساسات کی توہین ہے“۔ روسی صدر نے کہا کہ اس قسم کے اقدامات شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکے شائع کرنے والے میگزین کے دفتر پر حملے کا ذکر کیا۔ صدر پیوٹن نے فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو سراہا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس کی کچھ حدود ہیں اور اس سے دوسروں کی آزادی کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔
سانحہ کرائسٹ چرچ کی تیسری برسی پر اِس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے او آئی سی کی ایک قرارداد منظور کرلی جس کے مطابق ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے تدارک کا عالمی دن منایا جائے گا۔ قرارداد ایران، پاکستان، ترکی، سعودی عرب، اردن اور انڈونیشیا کی جانب سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے پیش کی۔ او آئی سی کے تمام 57 ارکان کے علاوہ روس اور چین سمیت 8 دوسرے ممالک بھی مسودے کے تجویز کنندگان میں شامل ہیں۔
قرارداد میں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے خلاف مؤثر کردار ادا کریں۔ تحریک پیش کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ مذہب و عقیدے کے حوالے سے انفرادی طور پر مسلمانوں یا مسلم اداروں اور آبادیوں کے خلاف نفرت اور تشدد ان کے بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے جس کا ہر قیمت پر تدارک ہونا چاہیے۔ جناب منیر اکرم نے کہا کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے۔ اسلاموفوبیا دنیا کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں، تفریق اور تشدد کی شکل میں نظر آتا ہے اور بدقسمتی سے یہ رجحان دنیا کے کئی علاقوں میں بڑھ رہا ہے۔ پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ اس طرح کا تشدد، تفریق اور معاندانہ برتاؤ حقوقِ انسانی کی پامالی کا باعث ہے۔
یورپی یونین اور فرانس نے اس قرارداد پر ”تحفظات“ کا اظہار کیا، جبکہ ہندوستان کو تدارکِ مسلم فوبیا کا دن منانے پر گہری تشویش ہے۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے شری ٹی ایس تریمورتی (T.S, Trimurti)نے کہا کہ اس قرارداد سے ہندو، سکھ اور بودھ جیسے دیگر مذاہب کے خلاف روا رکھی جانے والی تفریق اور نفرت نظرانداز ہوجائے گی۔ تریمورتی جی نے کہا کہ یہ قرارداد ایک مخصوص مذہب کے حق میں تو آواز اٹھاتی ہے مگر اس میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہندوازم کے ایک کروڑ 20 لاکھ پیروکار ہیں، بودھ مذہب کے 53 کروڑ ماننے والے ہیں اور تین کروڑ سے زیادہ سکھ ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ صرف ایک مخصوص مذہب نہیں بلکہ ہر مذہب نفرت اور تشدد کا شکار ہے۔ (حوالہ وائس آف امریکہ)
اس ”بے ضرر“ سی قرارداد پر یورپی یونین اور فرانس کے تحفظات اور ہندوستانی حکومت کی تشویش بلکہ اشتعال ناقابلِ فہم ہے۔ ساری دنیا کی طرح سانحہ کرائسٹ چرچ کی ہندوستان نے بھی مذمت کی تھی۔ فائرنگ کے دوران فیس بک پر حملہ آور کی ”تقریر“، جذباتی انداز اور بدن بولی سے مسلم فوبیا بہت واضح تھا۔ اس نے کئی بار اس ”خوف“ کا اظہار کیا کہ مغربی ممالک میں مذہبی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان اپنی ثقافت پھیلا رہے ہیں جس سے صلیبی تہذیب سخت خطرے میں ہے۔
شری تریمورتی نے چند ماہ قبل بھی کہا تھا کہ مذہبی نفرت کا رجحان صرف ابراہیمی مذاہب (اسلام، یہودیت اور مسیحیت) کے خلاف نہیں بلکہ ہندو، بودھ اور سکھ مذہب کے خلاف بھی پھیل رہا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بامیان (افغانستان) میں گوتم بودھ کے قدیم مجسمے کا انہدام، گوردواروں کی بے حرمتی، مندروں پر حملے اور مندروں کی مورتیوں کو منہدم کرنے کا جشن منائے جانے جیسے واقعات غیر ابراہیمی مذاہب کے خلاف مذہبی نفرت کی چند مثالیں ہیں جن کی مذمت اور ان کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
تریمورتی جی کے اس مؤقف سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں، کہ مذہبی منافرت اور نسلی و ثقافتی تعصب کی ہر شکل قابل مذمت اور شرفِ انسانی کی نفی ہے۔ اقوام عالم کو اس کے تدارک و بیخ کنی کی فکر کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ہندوستان تدارکِ مسلم فوبیا قرارداد میں مناسب ترمیم پیش کرسکتا تھا، لیکن اس پر ”تشویش“ سے مسلم دنیا میں ہندوستان کا تاثر خراب ہوا ہے۔ مہذب دنیا کو اس بات پر حیرت ہے کہ وہ ملک جہاں کروڑوں مسلمان بستے ہیں، ایک ایسی قرارداد کی مخالفت کررہا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت کو روکنا ہے۔
ان خدشات کا اظہار ہندوستانی صحافیوں نے بھی کیا ہے۔ انگریزی ماہنامہ Caravan سے وابستہ سینئر صحافی اور تجزیہ نگار جناب ہرتوش سنگھ بل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ کی قرارداد ایک اچھا قدم ہے لیکن دِلّی کو تشویش ہے کہ کل اس پر بھی انگلی اٹھ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندسرکار ایک طرف مذہبی برابری، جمہوریت اور رواداری کی بات کرتی ہے، تو دوسری جانب خود Citizenship Amendment Act المعروف سی اے اے جیسا مذہبی تفریق پر مبنی قانون منظور کراتی ہے۔ ہرتوش جی نے کہا کہ اقوام متحدہ میں رواداری کی بات کرنے والی مودی سرکار ہندوستان میں جمہوریت کو اکثریتی مذہب کے پیرائے میں ڈھال رہی ہے۔
جامعہ دہلی کے شعبہ مشرقی ایشیا سے وابستہ ڈاکٹر راونی ٹھاکر کاکہنا ہے کہ ہندو فوبیا انہیں تو کہیں نظر نہیں آتا، البتہ اسلامو فوبیا تھوڑا تھوڑا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت کی نظریاتی وابستگی بہت واضح ہے۔ ہندوتوا پر یقین رکھنے والے بھارتی حکمراں اسلام کو ایک بیرونی دھرم قرار دیتے ہیں۔ شریمتی ٹھاکر کے خیال میں یہی سیاسی و نظریاتی عقیدہ اس قرارداد پر دِلّی کے اعتراض کا بنیادی سبب ہے۔ (حوالہ وائس آف امریکہ)
ہندوستانی اخبار روزنامہ ہندو کے تجزیہ کار امِت بروا (Amit Baruah) کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا کی قرارداد کے حوالے سے ہندوستان کا بیانیہ ناقابلِ فہم ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستانی قیادت نے ”مخصوص آبادی“ کو پیغام دینے کے لیے یہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ اسلاموفوبیا ایک سنگین معاملہ ہے اور یہ ایک اچھی بات ہے کہ یہ اب دنیا کے سینٹر اسٹیج پر یہ ایک گمبھیر مسئلے کے طور پر ابھر کر آیا ہے۔ شری بروا نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں اور ملک کی آبادی میں ان کا تناسب 14 فیصد ہے۔ انڈونیشیا اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان مسلم آبادی والے تین سب سے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، تشدد اور مذہبی نفرت کے واقعات میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت حال پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور بعض عرب ممالک بھی ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے سوال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ شری بروا کا کہنا ہے کہ قرارداد سے کہیں زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے یہاں اسلاموفوبیا پر قابو پانے کے لیے اس کے خلاف سخت قوانین بنائیں۔ (حوالہ بی بی سی)
یہ قرارداد اس اعتبار سے اہم ہے کہ اقوام عالم نے مسلمانوں کے خلاف تعصبات اور امتیازی سلوک کو ایک حقیقی خطرہ تسلیم کرلیا ہے۔ لیکن اگر مہذب دنیا نے اس خطرے کے سدباب کے لیے عملی اقدامات نہ کیے تو معاملہ 8 مارچ یوم خواتین کی طرح سالانہ تقریبات سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی حیثیت ایک علامتی ادارے سے زیادہ نہیں، اور اقوام عالم کی یہ نمائندہ انجمن اُن توقعات پر پورا نہیں اتر سکی جو اس سے وابستہ کی گئی تھیں۔
یہ قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی ہے جو قوتِ نافذہ سے محروم ہے۔ اقوام متحدہ کا بااختیار ادارہ سلامتی کونسل ہے، لیکن وہاں کسی بھی فیصلے کے لیے ”پانچ بڑوں“ کا متفق ہونا ضروری ہے۔ اس قرارداد پر یورپی یونین نے کھل کر تحفظات کا اظہار کیا ہے، لہٰذا اس بات کا فی الحال کوئی امکان نہیں کہ فرانس اور برطانیہ اس تحریک کی حمایت کریں گے۔
قرارداد کی منظوری کے لیے وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر اردوان نے بہت محنت کی، جس پر وہ تعریف کے مستحق ہیں۔ اب توہینِ رسالت کے خلاف قانون سازی پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اس موقع پر ہمیں مصر کے سابق صدر محترم محمد مرسی بہت یاد آرہے ہیں جو صرف ایک سال برسراقتدار رہے، لیکن اس دوران اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں انھوں نے دوٹوک لہجے میں کہا:
”جنابِ صدر! ہماری دوستی اور دشمنی کا پیمانہ بہت واضح اور روشن ہے۔ جو میرے آقاؐ کی توقیر کرے گا اُس کے قدموں میں ہم اپنی آنکھیں بچھا دیں گے، لیکن جو سرکارؐ کی توہین کا مرتکب ہوا وہ میرا جانی دشمن ہے چاہے وہ میرا خونیں رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔“
……….
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔