سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا کھیل… گیند عدالتی کورٹ میں

حالیہ دنوں میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان حکومت بچانے اور گرانے کی جنگ جاری ہے، جس نے سیاسی اور قانونی محاذ پر شدت اختیار کرلی ہے۔ اس کھیل کا دلچسپ اور اہم پہلو پی ٹی آئی کی اپنی جماعت میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف بغاوت ہے۔ پی ٹی آئی میں یہ بغاوت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب وزیراعظم عمران خان کو حزبِ اختلاف کی جانب سے سیاسی دبائو اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ عملی طور پر تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب ان کی چار اتحادی جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور جی ڈی اے حکومت کا ساتھ چھوڑ کر حزبِ اختلاف کی براہِ راست حمایت کا اعلان کردیں۔ لیکن ایک بڑی جنگ تحریک انصاف کے باغی لوگوں کی حزبِ اختلاف کی سیاسی حمایت کی صورت میں نمایاں نظر آتی ہے۔اپنی پارٹی سے باغی ارکان سے نمٹنے کے لئے حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے آئین کی شق 63-Aکی تشریح کے لیے اعلیٰ عدالت سے رجوع کرلیا ہے جس میں تین نکات پر رائے مانگی گئی ہے:
(1) ہارس ٹریڈنگ میں ملوث افراد کی نااہلی مخصوص مدت کے لیے ہوگی، یا انہیں تاحیات نااہل سمجھا جائے گا؟
(2) کیا نااہلی ووٹ ڈالنے سے پہلے ہوسکتی ہے، یا ووٹ ڈالنے کے بعد نااہلی کا مقدمہ شروع ہوگا؟
(3) فلورکراسنگ کے خاتمے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے، ان کے بارے میں سپریم کورٹ سے رہنمائی کرتی ۔
اسی فیصلے کی بنیاد پر مستقبل کا سیاسی منظرنامہ بھی سامنے آسکتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی خرابی عوام کے منتخب نمائندوں کی اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے بغاوت، یا پارٹی وفاداری کی تبدیلی کا کھیل بھی ہے۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہورہا، اگر ہم اپنی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس کی جڑیں خاصی گہری نظر آتی ہیں۔ ماضی میں سیاسی لوگوں کی جانب سے وفاداریوں کی تبدیلی کا کھیل مختلف سیاسی اور فوجی ادوار میں دیکھنے کو ملا ہے۔ اس عمل نے مجموعی طور پر ملکی سیاست، جمہوریت اور خود سیاسی جماعتوں کی داخلی کمزوریوں کو نمایاں کیا ہے۔ سیاست دانوں کے سامنے جماعتی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کی اہمیت ہوتی ہے۔ قومی سیاست میں ایک ایسا مخصوص ٹولہ ہے جو عملاً حلقہ جاتی سیاست میں اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے اورطاقت ور بھی ہے۔ یہی طبقہ مختلف مراحل میں سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرتا ہے اور اپنے فیصلے بھی جماعتوں سے زیادہ ذاتی مفادات کی بنیاد پر کرتا ہے۔
سندھ ہائوس اسلام آباد میں جس انداز سے حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ارکانِ قومی اسمبلی کو رکھا گیا، یا ان کی سیاسی آئو بھگت یا مالی لین دین کے معاملات طے ہورہے ہیں وہ واقعی سیاسی اورجمہوری طور پر شرمناک ہے۔
ماضی میں ملکی سیاسی تاریخ میں ایک کھیل ’’چھانگا مانگا‘‘ کی سطح پر کھیلاگیا تھا جس کا سہرا مسلم لیگ (ن) کے سر ہے۔ ارکانِ اسمبلی کو بزور یرغمال بنانا، ان پر مختلف نوعیت کے دبائو ڈالنا، مالی طور پر ان کی خرید وفروخت… یہ مناظر ہم دیکھ چکے ہیں۔ لیکن اب جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے یقینی طور پر1990ء کی دہائی کے مناظر یاد آجاتے ہیں۔ عمومی طور پر سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کے کھیل کے تین مختلف مراحل ہوتے ہیں:
(1) پسِ پردہ قوتوں کی حمایت یا مخالفت کی بنیاد پر ارکان ِاسمبلی اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں، اوراُن کے بقول اُن پر بڑا دبائو ہوتا ہے جسے برداشت کرنے کی وہ صلاحیت نہیں رکھتے۔
(2) جب ارکانِ اسمبلی کو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اپنی سیاسی اہمیت ختم کرچکی ہے اورلوگوں کے لیے بوجھ بن گئی ہے، تو وہ مستقبل کے مفاد کے پیش نظر وفاداری تبدیل کرنا ہی اپنے مفاد میں سمجھتے ہیں۔
(3) کچھ ارکانِ اسمبلی نظریۂ ضرورت کے تحت اپنی نشستوں کی خرید وفروخت کے کھیل کا حصہ بن کر پیسہ کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یا کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر لینے اور دینے والے اپنے معاملات کو طے کرنے کے عمل میں برابرکے مجرم ہوتے ہیں۔
ماضی میں ملک کی سیاسی جماعتوں نے ارکانِ اسمبلی کی سیاسی بلیک میلنگ کو بنیاد بناکر 1997ء میں، اور پھر سترہویں یا اٹھارہویں ترمیم کی بنیاد پر ایسی قانونی یا آئینی ترامیم کیں جن کی بنیاد پر اہم معاملات یا فیصلہ سازی میں ارکانِ اسمبلی پارٹی یا قیادت کے فیصلے کے پابند ہوں گے اور ان کو فیصلوں سے انحراف کی اجازت نہیں ہوگی۔ انحراف کی صورت میں ایسے ارکانِ اسمبلی کو پارٹی یا الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اِس وقت بھی تحریک عدم اعتماد کی صورت میں پی ٹی آئی کے باغی ارکان کو پارٹی کی جانب سے نااہلی کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کی حزبِ اختلاف کی جماعتیں جو ماضی میں اس کھیل کی سب سے زیادہ مخالفت کرتی تھیں،اب اس کی حمایت میں پیش پیش نظر آرہی ہیں۔ یہی ہماری قومی سیاست کا المیہ ہے کہ جو بھی ناجائز عمل ہمارے حق میں ہو اُس کی عملی طور پر حمایت، اورجو ہمارے خلاف ہو اُس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جو نہ تو سیاسی جماعتوں کو داخلی محاذ پر جمہوری بناتا ہے اورنہ ہی سیاست میں جوابدہی کا نظام قائم ہوتا ہے۔
ارکانِ اسمبلی کی جانب سے ایسی سیاسی بلیک میلنگ چاہے وہ حکومت کرے یا حزبِ اختلاف… دونوں صورتوں میں اس کی کسی بھی سطح پر حمایت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن سیاسی موقع پرستی یا اقتدار کے کھیل میں اس کو اپنی حمایت یا مخالفت میں بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی سطح پر خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انتخابی جیت کے لیے طاقت ور اور مضبوط الیکٹ ایبلز پر انحصار کرتے ہیں، اور یہی وہ ٹولہ ہے جو ہر دور میں مختلف جماعتوں کو تبدیل کرکے یا چھوڑ کر ایسی جماعتوں کا رخ کرتا ہے جو اقتدار کے قریب ہوتی ہیں، یا ان کو یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ یہ جماعت حکومت میں آنے والی ہے۔ یہ کھیل کسی نظریے، اصول یا ضمیر کی آواز پر نہیں کھیلا جاتا، بلکہ اس کا براہِ راست تعلق ذاتی مفادات پر مبنی سیاست سے ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ اپنی جماعت سے نالاں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معاملات اس حد پر پہنچ گئے ہیں کہ اب گاڑی آگے نہیں چل سکتی، تو اس کا بہتر حل اسمبلی سے استعفیٰ دے کر دوبارہ کسی اور جماعت یا آزاد حیثیت سے انتخابی عمل میں شریک ہوکر مینڈیٹ حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ یہ عمل اُن لاکھوں رائے دہندگان کی توہین ہے جن کے ووٹوں سے یہ لوگ ایک جماعت اور نشان پر منتخب ہوتے ہیں اور پھر اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہیں۔
اصولی طور پر تو ہماری قومی سیاست میں یہ اتفاق ہونا چاہیے کہ سیاسی لوٹے خواہ کسی جماعت میں ہوں اور ماضی میں اس کھیل کا حصہ رہے ہوں اُن کا ہر سطح پر سیاسی اور سماجی بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی اپنی پارٹی سے بغاوت کرتا ہے اسے مخالف پارٹی آئندہ الیکشن کے لیے اپنے ٹکٹ کی گارنٹی دیتی ہے۔ اس گارنٹی کے بغیر کوئی بھی کسی جماعت میں شامل نہیں ہوتا، اور یہ کھیل بدستور ہماری قومی بدنامی کا حصہ بن گیا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کا عمل ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر ہماری سبکی اور قومی سیاسی تشخص کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ اگر واقعی ہمیں ملک میں ایسی جمہوریت کو فروغ دینا ہے جو عملاً جوابدہی کے نظام سے جڑی ہو تو ارکانِ اسمبلی کی سیاسی بلیک میلنگ یا وفاداری کو تبدیل کرنے کا کھیل بند کرنا ہوگا۔ اس کھیل نے ہمارے مجموعی سیاسی نظام کو ہر محاذ پر تماشا بنادیا ہے اور ہمیں سوائے بدنامی کے کچھ نہیں مل رہا۔ اگر ہم کو واقعی اپنی سیاست اور جمہوری نظام کو بچانا ہے یا اسے شفاف بنانا ہے تو قومی سیاست میں ایسے سیاسی جرائم پر ’’غیر معمولی اقدامات‘‘ کرنا ہوں گے۔ یہ کام محض پالیسی یا قانون سازی کی مدد سے ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں ہمیں اپنی اپنی جماعتوں کے داخلی نظام کو بھی میرٹ اور جمہوری خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ پارٹی ٹکٹ دیتے وقت جب خود سیاسی جماعتیں اقرباپروری یا کمزوری کا مظاہرہ کرتی ہیں اورموقع پرست لوگوں کو ٹکٹ جاری کرتی ہیں تو اس صورتِ حال کی وہ خود بھی ذمے دار ہوتی ہیں۔ اسی طرح معاشرے میںبھی میڈیا سمیت تمام محاذوں پر ایسے سنگین جرائم پر کسی قسم کا جواز پیش کرنے کے بجائے ہر اُس فرد یا جماعت کے خلاف عوامی مزاحمت ہونی چاہیے جو اس بدنما کھیل کو طاقت دینے کے عمل میں شریک ہو۔