اللہ تعالیٰ کے انسانوں پر بے حد و حساب انعامات ہیں۔ اس نے انسان کو شکل و صورت کے لحاظ سے تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی۔ آنکھیں کتنی بڑی نعمت ہیں۔ آنکھیں نہ ہوں تو سارا جہان اندھیرا ہے۔ کان اس رب العزت کے بڑے انعامات میں سے ہیں۔ کان نہ ہوں تو ہر قسم کی سماعت سے وہ محروم ہے اور جینا پریشانی کا باعث ہے۔ ناک اس کا کتنا بڑا کرم ہے۔ اگر ناک نہ ہو تو سانس لینا دشوار ہے۔ زبان اور دانت اس کی قدرت کے نشان ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو خوراک ہضم ہونا محال ہے۔ ٹانگیں اور پائوں اس کے کرم کا معجزہ ہیں، اگر ان سے وہ محروم ہوجائے تو وہ بے بسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان باتوں کا ذکر قرآن حکیم کی چند آیات پر غور طلب ہے:
وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ (ابراہیم: 34)
’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے‘‘ ۔
بھلا اس امر کا شمار کیسے ہوسکتا ہے! یہ ہوا جس میں سانس لیتے ہیں، ایک منٹ میں کئی بار سانس کا اندر جانا اور باہر آنا، آکسیجن سے ہماری زندگی کی بقا ہے۔ سعدی شیرازی لکھتے ہیں: ’’ہر منٹ میں تمہیں دو نعمتیں ملتی ہیں“۔ دن رات میں چوبیس گھنٹے ہیں، اس طویل مدت میں کتنی بار سانس اندر جاتا ہے اور کتنی بار باہر آتا ہے، کیا یہ گننا آسان ہے؟‘‘ ناممکن ہے۔ یہ پانی جو ہم پیتے ہیں اس کا ہر قطرہ ہماری جان میں جان ڈالتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (الانبیا:30)
’’اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے زندگی عطا کی ہے‘‘۔
اسی قطرۂ آب سے انسان کی پیدائش ہے اور یہی پانی اس کی زندگی کی بقا فراہم کرتا ہے۔ پانی کی قدر و قیمت کا اندازہ موسم گرما کے روزوں سے چلتا ہے، جب شدتِ پیاس سے ہونٹ خشک ہورہے ہوتے ہیں تو ٹھنڈے اور میٹھے مشروبات سے افطار کے وقت کس قدر فرحت اور آرام سے ہم سرشار ہوجاتے ہیں۔ پانی سے زندگی نہ صرف انسانوں کو ملتی ہے بلکہ حیوانات اور نباتات بھی اس سے زندگی اور تروتازگی پاتے ہیں۔ پھر انسان اپنی شکل وصورت پر غور کرے، اسے تمام مخلوقات پر خوب صورتی اور خوش نمائی عطا فرمائی ہے۔ رب کریم کا فرمان ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍۢ (التین:4)
”یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا ہے‘‘۔
پھر ارشاد ہوا: ’’(اُس رحمٰن و رحیم کا فرمان ہے) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت بخشی۔‘‘ (الاسرا:70)
انسان غور و فکر کرے اور عقل و بصیرت سے کام لے تو اس کا اندازہ ہوجائے گا کہ وہ نت نئے پھل ہر موسم میں کھاتا ہے اور ان کے چھلکے جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ کیا انسانوں کو اتنے بڑے محسن آقا کے شکر گزار بندے نہ بننا چاہیے؟
جو شاہراہوں پر موٹر گاڑیاں، کاریں، موٹر سائیکلیں، بسیں، رکشے اور سائیکلیں دوڑاتا ہے جبکہ فضا میں ہوائی جہاز کے ذریعے دنوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے پاجاتا ہے، اور بحری جہاز تری میں ٹنوں اور منوں وزن کا سامان ایک ملک سے دوسرے ملکوں تک پہنچاتا ہے اور لوگوں کی معاش کا ذریعہ بنتا ہے۔
تم نے مانگا اُس سے جو کچھ کر دیا تم کو عطا
گننا چاہو تم اگر تعداد نعمت ہائے رحمٰن
تو شمار اُن کو پورا کر سکو گے تم کبھی
بالیقین انسان بے انصاف ہے ناشکرا بھی