نفسیاتی اور اعصابی ماہرین نے کہا ہے کہ تخلیقی صلاحیت پیدائشی نہیں ہوتی اور اسے اکتسابی تربیت کی بدولت سیکھا جاسکتا ہے۔ ہم اکثر لوگوں کو تخلیقی اور غیرتخلیقی گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ عام افراد بھی قابلِ عمل تربیت حاصل کرکے تخلیق کار بن سکتے ہیں۔ یعنی ہر شخص تخلیقی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے، اور ضرورت بس استعمال کی ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ضروری ہے کہ اس کے لیے لوگوں کو بیانیہ اکتساب یا نیریٹوکوگنیشن سے گزارا جائے۔ اس میں ہمارا دماغ عمل، وجوہ اور اس کے نتائج کو دیکھ کر متاثر ہوتا ہے، اور عین یہی طریقہ ہم کہانی بنانے اور سنانے میں استعمال کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بچوں اور نوعمروں میں ثبوت والے مشاہدات اور کہانی پر مبنی ڈرامے، بیانیہ اکتساب کی ایک مثال ہیں جن سے وہ اپنے تخیل کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں بچے قدرے زیادہ تخلیقی ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ بطور معاشرہ ہم بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ دوسری جانب ہم ایک کے مقابلے میں دوسرے کو تخلیقی بھی قرار دیتے ہیں۔ اسی بنا پر ماہرین کا اصرار ہے کہ ہم تخلیقی عمل کو درست انداز میں نہیں سکھا پارہے ہیں۔ اب اوہایو یونیورسٹی کے سائنس دان اینگس فلیچر اور ان کے ساتھیوں نے قدیم یونانیوں سے رائج تخلیقی طریقہ استعمال کیا ہے جس میں کہانی پر مبنی آرٹ یا اظہار کیا جاتا ہے۔
ماہرین نے اسے قدرے تبدیل شدہ طریقے سے استعمال کیا جس کے تین حصے تھے: (اوّل) اردگرد نئی دنیا بنائی جائے، (دوم) فکری رجحان بدلا جائے، اور (سوم) اس پر عمل کو جگہ دی جائے۔
اب اسے روزمرہ حالات میں اس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے: کمپنی ملازموں سے کہا جائے کہ وہ تصور کریں کہ اگر اُن کا ہر صارف ایک غیر معمولی صارف بن جائے (نئی دنیا کی تشکیل)، یا ملازم اگر کسی اور عہدے پر بٹھایا جائے تو کیا ہوگا (فکری تبدیلی)، اور اگر دو آئیڈیا ملائے جائیں یا پھر دو مختلف رجحانات والے افراد ایک پر ہی کام کریں تو کیا ہوگا (عمل کی مثال)۔
اس طرح لوگ اپنے لگے بندھے خول سے باہر آتے ہیں اور یوں ان میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس دانوں نے مختلف عمر، طبقے اور تجربے کے حامل افراد کو اداروں میں بھرتی کرنے پر زور دیا ہے۔ پھر انہیں تخلیقی اندازِ فکر کی تربیت دی جائے۔ اس طرح چھوٹی اور بڑی کمپنیوں کو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔